جو کام 68 برس تک نہ ہوسکا

زاہدہ حنا  بدھ 23 دسمبر 2015
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ہندوستان کی تقسیم کے حق میں بنیادی دلیل یہ دی جاتی تھی کہ ایسا نہ کیا گیا تو برصغیر میں فرقہ وارانہ آگ کبھی سرد نہیں ہوگی، لہٰذا اس خطے میں دیرپا امن کے لیے اس کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم ناگزیر ہوچکی ہے۔ اس دلیل کو مزید تقویت دینے کے لیے یہ بھی کہا جاتا تھا کہ جب ہندوستان کو تقسیم کردیا جائے گا تو مسلمان اور ہندو، امن اور سکون سے اپنے اپنے ملکوں میں زندگی بسر کریں گے، مذہبی منافرت کا خاتمہ ہوجائے گا اور آزاد ہونے والے دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ امن، سکون اور ہم آہنگی کے ساتھ رہیں گے، آگے بڑھیں گے، ترقی کریں گے، جس کے ثمرات سے کروڑوں غریب اور پسماندہ افراد فیضیاب ہوں گے۔

یہ دلیل یوں تو یقیناً نہایت متاثر کن تھی لیکن کچھ لوگ اس سے اختلاف رکھتے تھے۔ اس کے باوجود کچھ لوگوں نے اس کی معقولیت سے اتفاق بھی کیا اور اسی کے نتیجے میں 14 اور 15 اگست کو دنیا کے نقشے پر ہندوستان اور پاکستان کے ناموں سے دو آزاد ملک نمودار ہوئے۔ اب اس دلیل کو درست ثابت کرنے کی بھاری ذمے داری دونوں ملکوں کے حکمرانوں اور عوام پر عائد ہوتی تھی۔ انھیں اپنے عمل سے دنیا کو یہ دکھانا اور بتانا تھا کہ برصغیر کی تقسیم نے اس خطے کو کمزور کرنے کے بجائے مستحکم کیا ہے، عوام کے درمیان پیدا ہونے والی فرقہ وارانہ کشیدگی ختم ہوگئی ہے اور اب ان دونوں ملکوں میں مسلمان ، ہندو اور دیگر مذاہب کے افراد سکھ چین کی زندگی گزار رہے ہیں اور مثالی امن قائم ہوگیا ہے۔

14 اگست 1947 کے بعد سے لے کر آج تک دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات جتنے ’خوش گوار‘ رہے ان سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ اب اس بات کو کیا دہرانا کہ ہم نے چھوٹی بڑی کتنی جنگیں لڑیں، کس طرح اربوں نہیں بلکہ کھربوں کھرب روپے جنگ اور محاذ آرائی کی بھٹی میں جھونک دیے۔ صرف یہی نہیں بلکہ دونوں ملکوں میں اقلیتوں کی زندگیاں کن عذابوں سے گزریں اور آج بھی گزر رہی ہیں۔

اب یہ بات بھی کیا معنی رکھتی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات ویسے ہی ہوتے جیسا کہ تقسیم کے وقت یقین سے کہا جارہا تھا تو آج اس خطے میں غربت 100 فیصد نہیں تو کم از کم 80 فیصد ضرور ختم ہوگئی ہوتی۔ اسی طرح جو مزید فوائد لوگوں کو حاصل ہوتے اس کی تفصیل میں جانے کا اب کوئی فائدہ نہیں۔ہندوستان اور پاکستان کے حکمرانوں، سیاستدانوں، دانشوروں، ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور تمام شہریوں سے یہ سوال پوچھا جانا نہایت ضروری ہے کہ کیا ہم سب نے اس دلیل کو درست ثابت کیا ہے جس کی بنیاد پر ہم نے بٹوارے کا فیصلہ کیا تھا۔ برصغیر کی تقسیم کوئی بچوں کا کھیل یا کسی مطلق العنان بادشاہ کا تجربہ نہیں تھا۔

اس تقسیم کے نتیجے میں ہزاروں نہیں لاکھوں بے گناہ انسان موت کے گھاٹ اتارے گئے، ہزاروں عورتیں بے حرمت ہوئیں۔ ان گنت خاندان ختم ہوئے اور انسانی تاریخ کی سب سے بڑی نقل مکانی وقوع پذیر ہوئی۔ دیانت داری اور اعلیٰ اخلاقی جرأت کا تقاضا ہے کہ دونوں ملک مشترکہ طور پر یہ تسلیم کریں کہ وہ اس ’’امتحان‘‘ میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ اس سچ کا اعتراف کرلیا جائے تو مستقبل میں دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہونے کی شاید کوئی صورت نکلے گی۔

اس تلخ پس منظر اور ان حقائق کو بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان نے ایک بار پھر اپنے اختلافات کو ایک جامع مذاکراتی عمل کے ذریعے ختم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ پیرس میں نواز شریف اور نریندر مودی کی ’’مختصر ملاقات‘‘ کئی طویل ملاقاتوں پر بھاری رہی ہے۔ اس ملاقات سے پہلے، ہندوستان میں ایک انتہاپسند گروپ کی جانب سے جو نفرت انگیز صورتحال پیدا کی گئی تھی اس نے آپس کے تعلقات کو اس قدر کشیدہ کردیا تھا کہ اچھے اچھے امید پرستوں کی جانب سے بھی مایوسی کا اظہار کیا جانے لگا تھا۔

یوں محسوس ہورہا تھا کہ ان دو پڑوسی ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بہت زیادہ وقت درکار ہوگا۔ اس تناظر میں پیرس کی اس مختصر ملاقات کے نتائج سب کے لیے یقیناً حیران کن تھے۔ تجزیہ کاروں کا ابتدائی ردعمل یہ تھا کہ اس ملاقات کے نتیجے میں تعلقات پر جمی برف کچھ پگھلے گی لیکن انتہائی کم وقت میں جو پیش رفت ہوئی وہ کسی کے حاشیہ خیال میں نہیں تھی۔ تھائی لینڈ کے دارالحکومت بینکاک میں دونوں ملکوں کی قومی سلامتی کے مشیروں کی ’’اچانک‘‘ ملاقات ہوئی۔

اس ملاقات سے وہ تجزیہ نگار بھی بے خبر تھے جو اعلیٰ اور مقتدر حلقوں میں رسائی کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ یہ ملاقات کافی تفصیلی تھی جس میں تمام مسائل پر گفتگو ہوئی۔ مذکورہ ملاقات کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں یہ کہا گیا کہ مذاکرات خوشگوار ماحول میں ہوئے۔ مشترکہ اعلامیہ میں یہ بات بھی کہی گئی کہ یہ اعلیٰ سطح ملاقات، پیرس میں ہونے والی وزرائے اعظم کی ملاقات کا نتیجہ ہے۔ مذاکرات کے عمل کو جاری رکھنے پر اتفاق بھی کیا گیا۔

قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات نے ہندوستان کی وزیر خارجہ سشما سوراج کے پاکستان آنے کی راہ ہموار کی۔ سشما سوراج ’’ہارٹ آف ایشیا‘‘ کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد پہنچیں جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے ہندوستانی وزیر خارجہ کی شاندار مہمان نوازی کی گئی۔ سشما سوراج کی سرتاج عزیز اور وزیراعظم نواز شریف سے طویل ملاقاتیں ہوئیں اور تعلقات کے افق پر چھائے گہرے سیاہ بادل تیزی سے چھٹنے لگے۔ دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطح پر مکالمے کا آغاز ہوچکا ہے اور اس کلیے کی سچائی سامنے آگئی کہ مکالمے سے بات ہمیشہ آگے بڑھتی ہے، پیچیدہ مسائل کے حل کی راہ نکلتی ہے اور تعلقات کی تلخی میں کمی آتی ہے۔

اس دوران ایک اور اہم پیش رفت ہوئی۔ تحریک انصاف کے سربراہ کو ایک نشریاتی ادارے کی جانب سے ہندوستان آنے کی دعوت دی گئی۔ عمران خان ہندوستان پہنچے جہاں ان کی درخواست پر وزیراعظم نریندر مودی نے ان سے ملاقات کی۔ اس دورے میں عمران خان نے جن خیالات کا اظہار کیا اس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی کے جاری عمل کو کافی تقویت ملی۔ کیسی دلچسپ بات ہے کہ عمران خان جماعت اسلامی کے اتحادی ہیں۔ وہ ہندوستان میں اور وہاں سے واپس آکر کہہ رہے ہیں کہ دو پڑوسی ملک ہمیشہ ایک دوسرے کے دشمن نہیں رہ سکتے اور یہ بات پاکستان اور ہندوستان دونوں پر صادق آتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے کے لیے ہمیں مواقع تلاش کرنے ہوں گے۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ جنگوں سے مسائل حل نہیں ہوتے، دونوں ملکوں کو آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ امن میں ہی دونوں ملکوں کا فائدہ ہے۔ دوسری طرف ان کی اتحادی جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق اس موقف پر اٹل ہیں کہ ’بھارت ہمارا دشمن ہے‘۔ ہندوستان میں عمران خان نے جو باتیں کیں اور وہاں سے واپسی پر بھی وہ ہندوستان پاکستان کے درمیان تمام اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے ختم کرنے کی جو باتیں کررہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی سوچ میں مثبت تبدیلی آئی ہے جو یقیناً خوش گوار پیش رفت ہے۔

اس امر سے قطع نظر کہ گرم جوشی کی یہ صورتحال کتنی دیرپا ثابت ہوگی اس نکتے پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ ’’ڈرامائی تبدیلی‘‘ کیونکر ممکن ہوئی؟ اکثر تجزیہ نگار اسے امریکی دباؤ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ یہ تجزیہ جزوی طور پر درست ہے کیونکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ دونوں ملکوں پر صرف امریکا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا دباؤ ہے۔ دنیا اس حقیقت سے واقف ہے کہ پاکستان کا جغرافیائی محلِ وقوع معاشی اور تجارتی اعتبار سے کتنا اہم ہے۔ امریکا، چین، روس، سعودی عرب، ایران، افغانستان، یورپ اور وسط ایشیا سب کے معاشی مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہمارے خطے میں پائیدار امن اور استحکام قائم ہو۔

اس مقصد کی راہ میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدہ تعلقات سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ دنیا کے یہ نہایت بااثر ممالک حالات کو معمول پر لانے کے لیے دونوں ملکوں پر زبردست دباؤ ڈال رہے ہیں لیکن دوسری جانب ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اب ہندوستان اور پاکستان کو بھی اس بات کا ادراک ہوچکا ہے کہ تعلقات کو بہتر بنائے بغیر دونوں ملک ترقی نہیں کرسکتے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ علاقائی اور عالمی طاقتوں کا دباؤ اپنی جگہ لیکن دونوں ملکوں کی سیاسی اور عسکری قیادت بھی اس نتیجے تک پہنچ رہی ہے کہ کشیدگی اور محاذ آرائی کے لیے کسی بھی جانب سے انھیں نہ صرف کوئی مالی اور سیاسی حمایت میسر نہیں آئے گی بلکہ وہ عالمی برادری سے کٹ کر رہ جائیں گے ۔ اس کے بعد کیا ہوگا اس کے لیے شمالی کوریا کی مثال سب کے سامنے ہے۔

امن اور تعاون کا جو کام ہندوستان اور پاکستان کو تقسیم ہند کے فوراً بعد کرلینا چاہیے تھا وہ کام آج دنیا کے دباؤ کے باعث ہورہا ہے۔ تاہم، دونوں ملکوں کی سول اور فوجی سٹبلشمنٹ کے رویوں میں جو تبدیلی نظر آرہی ہے، اس کے بعد خطے میں پائیدار امن کی توقع کی جاسکتی ہے۔

واقعی جو کام ہم 68 سال تک نہ کرسکے، وہ یوں لگتا ہے کہ جیسے اب ہونے والا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔