بوڑھا باپ اور بیٹے کا جنازہ !

انیس منصوری  بدھ 6 جنوری 2016
muhammad.anis@expressnews.tv

[email protected]

آسمان سے بھی نہیں رہا گیا، جیسے ہی لوگوں نے کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے جنازوں کو اٹھایا، بہت تیز بارش شروع ہو گئی۔ لیکن ہزاروں کا مجمع اپنی جگہ سے نہیں ہٹا، بلکہ نعروں کی شدت میں اضافہ ہو گیا۔ ہر آنکھ اشکبار تھی۔ ہر چہرہ افسوس کر رہا تھا۔ ہر کسی کا دل رو رہا تھا۔ سب دکھ اور غصے سے بھرے ہوئے تھے۔

ایسا کہاں ہو گا کہ جب ایک ہی جگہ سے 14 جنازے ایک ساتھ اٹھ رہے ہوں۔ لیکن نوجوانوں کے جذبے جوان ہیں، ماؤں کو اپنے بچوں پر فخر ہے۔ یہ فلسطین ہے، جہاں ہر گھر سے ماتم کی آوازیں آتی ہیں۔ یہ ان لوگوں کے جنازے تھے جن کی لاشیں 80 دن کے بعد اسرائیلی انتظامیہ نے فلسطینیوں کے حوالے کی تھیں۔

گزشتہ سال اکتوبر میں اسرائیل اور فسلطینیوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ کہنے کو یہ جھڑپیں تھیں لیکن ظلم اور قتل صرف معصوم فلسطینیوں کا ہو رہا تھا۔ مغربی کنارے کے نوجوان باسل صدر کو یروشلم کے پرانے شہر میں گولیاں مار دی گئیں۔ اس پر یہ الزام لگایا گیا کہ اس نے سیکیورٹی فورسز پر حملہ کیا تھا۔ عجیب حملہ تھا، جس میں باسل کے پاس کوئی اسلحہ موجود ہی نہیں تھا۔ اور نا ہی اس میں کوئی اسرائیلی زخمی ہوا لیکن درندہ صفت اسرائیلی فورسز نے شک کی بیناد پر اس کا قتل کر دیا۔

ایک نہیں دو نہیں، بلکہ اس طرح گزشتہ چار مہینوں میں اسرائیلی فورسز نے 138 فلسطینیوں کو شہید کیا۔ ظلم یہ ہے کہ اس کے بعد ان شہیدوں کے جسد خاکی کو لواحقین کے حوالے بھی نہیں کیا گیا۔ گزشتہ جمعہ اور ہفتے کو ان میں سے چند لوگوں کی لاشیں واپس کی گئیں، جس میں سے 14 لوگ صرف مغربی کنارے سے تھے اور اس میں ایک باسل صدر بھی تھا۔

عینی شاہدین کے مطابق باسل کے گھر کے باہر ہزاروں لوگ جمع تھے۔ اندر باسل کی ماں اور بہن قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے اس کے جسد خاکی سے لپٹ لپٹ کر رو رہی تھی۔ باسل کو فلسطین کے پرچم میں لپٹا ہوا تھا اور ہر طرف سے قرآن کی تلاوت کے ساتھ نعروں کی گونج تھی۔ باسل کے والد کا عزم تھا کہ جدوجہد جاری رہے گی۔ جب جنازہ اٹھایا گیا تو ہر کوئی آگے آگے تھا۔ شدید سردی کے باوجود، خواتین، بزرگ، نوجوان اور بچے وہاں موجود تھے۔ باسل کی طرح 13 اور جنازے مغربی کنارے کے مختلف علاقوں سے نکل کر ال حسین مسجد کی طرف بڑھ رہے تھے۔ جب یہ سب مسجد میں پہنچے تو دور دور تک بس سر ہی سر نظر آ رہے تھے۔

ساتھ کا اسٹیڈیم مکمل طور پر بھر چکا تھا۔ لوگ مسجد میں آ رہے تھے۔ وہ شہیدوں کا آخری دیدار کرتے، کلمہ شہادت پڑھتے اور نعروں کا جواب دیتے۔ ہر کوئی شہیدوں کا آخری دیدار کرنا چاہتا تھا۔ سردی کی شدت میں اضافہ ہو چکا تھا۔ اس مجمع میں تمام ہی سیاسی جماعتوں کے لوگ تھے، لیکن جنازوں پر صرف فلسطین کا پرچم لپٹا ہوا تھا۔ جیسے ہی مشترکہ نماز جنازہ ہوئی اور لوگوں نے کاندھا دینا شروع کیا، عین اسی لمحے تیز بارش شروع ہو گئی۔ لیکن سخت سردی اور شدید بارش کے باوجود کوئی بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ ہزاروں کے اس مجمع نے اپنا دکھ سمجھتے ہوئے آخری آرام گاہ کی طرف قدم بڑھایا۔

ایک جانب یہ دکھ کی گھڑی ہے کہ مہینوں سے لاپتہ فلسطینی شہدا کے جنازے اٹھ رہے ہیں اور دوسری طرف سیاست اپنے عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔ اس خطے میں تیزی کے ساتھ اتحاد بن اور بگڑ رہے ہیں۔ ترکی نیٹو کا اہم رکن ہے، جو اپنی جغرافیائی پوزیشن کے حوالے سے ہمیشہ اہمیت کا حامل رہا، اور آج سے پانچ برس قبل ترکی اور اسرائیل کے تعلقات بہت ہی خوشگوار رہے۔ ترکی میں طیب اردگان کی حکومت کے بعد پالیسی میں کافی تبدیلی آئی تھی اور خصوصاً اس حوالے سے کہ کس طرح سے ترکی کو اس خطے میں زیادہ سے زیادہ مضبوط کیا جا سکے۔

اسی دوران 2010ء میں ترکی کے ایک جہاز پر اسرائیل کی سیکیورٹی فورسز نے حملہ کر دیا تھا۔ جس کے بعد اسرائیل اور ترکی کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تھا۔ اس خطے میں گزشتہ پانچ سال کے دوران بہت سی چیزیں تبدیل ہوئی ہیں۔ عراق، لیبیا، شام، یمن میں خانہ جنگی اور مظاہروں کا سلسلہ ہے۔ تو دوسری طرف علاقائی طور پر ایران اور سعودیہ کے درمیان تلخ ماضی اور حال موجود ہے۔ کچھ رہ گیا تھا تو وہ امریکا اور روس کے درمیان تناؤ اور رسہ کشی نے برابر کر دیا ہے۔ ایسے میں چند ماہ سے اسرائیل اور ترکی کے درمیان ایک بار پھر بیک ڈور ڈپلومیسی کا سلسلسہ شروع ہوا تھا۔ جس کے بعد ہفتے کو ترکی کے صدر طیب اردگان نے کہا ہے کہ اسرائیل ترکی کے لیے ضروری ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات ہونے چاہئیں۔

اس خطے میں فلسطین کا مسئلہ موجود تھا، جس پر مسلم دنیا اور اسرائیل کے تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے اور پھر مصر کا معاملہ شروع ہوا۔ جس کی وجہ سے سعودیہ عرب اور قطر کے مابین کشیدگی ہوئی۔ جب یہ معاملہ تھما تو ساتھ ہی شام اور یمن میں آگ لگ گئی۔ اس وقت وہاں ایران شام کی حکومت کے ساتھ موجود ہے اور روس ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ سعودیہ عرب ایک الگ اتحاد کے ساتھ موجود ہے۔ عراقی فوج، ایرانی انتظامیہ کے ساتھ داعش سے لڑ رہی ہے، جسے امریکی اتحاد کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔

دوسری طرف روس، ایران اور شام کی کارروائیوں کو امریکا پسند بھی نہیں کرتا۔ ایک کھچڑی سی بن چکی ہے۔ کون کس سے کہاں کس محاذ پر لڑ رہا ہے اور کون کس کے ساتھ کہاں تک کھڑا ہوا ہے۔ اس نے الجھن پیدا کر دی۔ تمام اتحادوں، حلیفوں اور حریفوں کے درمیان باریک سی لکیر ہے۔ کب کون کس لکیر کو پھلانگ دے یہ سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ ایسے میں اصل مسائل چاہے وہ فلسطینوں کی آزادی ہوں یا پھر خطے میں پائیدار امن، سب پیچھے رہ گیا ہے۔

ایک جگہ پر داعش کے خلاف کارروائی میں امریکا، سعودیہ عرب کے ساتھ نظر آتا ہے، جب کہ دوسری جگہ پر وہ ایران کا ساتھ دیتا ہے۔ روس ایک جانب ایران کے ساتھ موجود ہے تو دوسری طرف افغانستان میں اس کے پاؤں مضبوط ہوتے نظر آتے ہیں۔ سازشوں کا ایک انبار ہے۔ پیسے کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اسلحہ وافر مقدار میں موجود ہے۔

ہزاروں سال سے آباد بستیاں ملیامیٹ ہو چکی ہیں۔ تاریخ کے سارے ورق بدل دیے گئے ہیں۔ روایتوں کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ تہذیبوں کے سر پر پاؤں رکھ کر کچل دیا گیا ہے۔ جو لوگ دوسروں کو دیا کرتے تھے، وہ لوگ آج بے گھر ہیں۔ جن کی اپنی روایت تھی، وہ آج دوسروں سے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ جہاں دنیا بھر سے لوگ آیا کرتے تھے وہ لوگ آج اپنے بچوں کے لیے یورپ کے دروازے پر کھڑے ہیں۔

جیسے میں نے کہا کہ کون کس کے ساتھ ملا ہوا اور کس کی ڈور کہاں سے ہلائی جا رہی ہے، یہ سمجھنا انتہائی مشکل کام ہے۔ یہ اتفاق نہیں ہے کہ ایک طرف پٹھان کوٹ میں حملہ ہوتا ہے اور دوسری طرف کابل میں بھی حملہ کیا جاتا ہے۔ سب کہانیاں ایک دوسرے سے الگ الگ لگتی ہیں، مگر سب کی کڑیاں آپس میں ملی ہوئی ہیں۔ فرانس میں ہونے والا حملہ شام سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ عراق میں موجود داعش کو افغانستان میں موجود لوگوں سے الگ دیکھا جا سکتا ہے لیکن بارود کی بو ہر طرف ایک جیسی ہے۔ ایسے میں طاقت کا کھیل لوگوں کو مہرہ بنا کر کھیلا جا رہا ہے۔ تقسیم در تقسیم کرنے والے اپنی طاقت کو ضرب دینا چاہ رہے ہیں۔

ایسے میں دنیا کا کوئی باسی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ آگ لگ گئی ہے، جو انسانوں کے جنگل میں پھیل رہی ہے۔ کچھ اتحاد دنیا کے سامنے موجود ہیں جو بن بھی رہے ہیں اور بگڑ بھی رہے ہیں، اور کچھ اتحاد زیر زمین ہیں، جن کا مقصد واضح ہے۔ لیکن اس میں کون کس کے ساتھ ہے وہ کسی کو نہیں معلوم ہے۔

طاقت کے اس کھیل میں اس وقت کچھ لوگ خود کو بچانے میں مصروف ہیں۔ کچھ اپنی طاقت کو بڑھانے میں پاگل ہوئے ہیں۔ مگر میں سوچ یہ ہی رہا ہوں کہ ایک صدی کے سفر میں اور کتنے باسل کے جنازے اٹھائے جائیں گے۔ پھر کھوکھلے وعدے کیے جائیں گے۔ ہر طرف لہو بہہ رہا ہے، کراچی سے لے کر حلب تک۔ رمادی کی گلیاں ہو یا پھر کابل کی۔ میرا گلشن پشاور ہو یا پھر بابل و نینوا کی زمین۔ میں تو بس اتنا چاہتا ہوں کہ مجھے اپنے باسل کے جنازے کو کاندھا نہ دینا پڑے۔ ایک باپ کا کاندھا نوجوان بیٹے کا وزن نہیں اٹھا سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔