ہمارا بہادر پڑوسی

جن دنوں صدر ضیا نے اس ملک کا دورہ کیا تو اس کا یہ احسان ہمارے ذہنوں میں تازہ تھا

Abdulqhasan@hotmail.com

ہمارے وزیراعظم نے اپنے لاتعداد مسلسل غیر ملکی دوروں کا تازہ مرحلہ اپنے دوست سری لنکا میں طے کیا اور پاکستانیوں نے پہلی بار اپنے کروڑوں روپوں کا صحیح اور خوش کن مصرف اس جزیرے میں ہمارے وزیراعظم کے دورے کی صورت میں محسوس کیا۔ سری لنکا نے ایک بے رحم پڑوسی کی پروا نہ کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ دوستی کا خطرہ مول لیا تھا اور پاکستانیوں کو تعجب ہوا کہ ایک کمزور ملک طاقتور ملک کے مقابلے میں ایک کمزور دوست کے ساتھ ہر حال میں کھڑا ہے اور ایک ازلی دشمن کا مقابلہ کر رہا ہے بڑی جرات اور دلیری کے ساتھ۔

بھارت ایک ایسا بڑا ملک ہے آبادی اور رقبے دونوں کے لحاظ سے لیکن وہ سری لنکا سمیت اپنے پڑوسی ملکوں کے ساتھ بُرے اور ناپسندیدہ تعلقات رکھتا ہے اور ضرورت پڑے تو اپنے کسی پڑوسی میں تخریب کاری اور دہشت گردی سے بھی باز نہیں آتا مثلاً سری لنکا جس میں اس نے اپنے ایجنٹوں تامل ناڈو کے ذریعے مسلسل بدامنی پیدا کر رکھی ہے۔

مجھے آج کی طرح یاد ہے کہ اس بدامنی کے شکار سری لنکا کا دورہ ہمارے ایک سربراہ نے کیا تو ہمیں تعجب ہوا کہ سیاحت کا مرکز یہ ملک اپنے ہاں آنے والے سیاحوں کی حفاظت کیسے کرتا ہے اور یہ کام اس قدر عمدگی کے ساتھ کرتا ہے کہ سیر و تفریح کے لیے آنے والے غیر ملکی سیاحتی ملک کی بدامنی کو برداشت کرتے ہیں اور یہاں ان کی آمد مسلسل جاری رہتی ہے کسی پریشانی کے بغیر۔

سری لنکا کے دو تین دوروں میں پہلی بار میں صدر ضیاء الحق کے ہمراہ بطور ایک صحافی گیا تھا۔ سمجھدار پاکستانی حکمران کسی بھی ملک میں جا کر اپنے ملک کے مفاد کو دیکھتے ہیں اور سری لنکا کے ساتھ تو ہمارے کئی مفاد وابستہ تھے اور ہیں اس چھوٹے سے ملک نے اپنے بڑے پڑوسی کی ناراضگی کے باوجود کڑے وقتوں میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔ جب ایک دفعہ بھارت نے ہمارے جہازوں پر اپنی فضائیں بند کر دیں تو ڈھاکا جانے کے لیے ہمارے جہاز ایک طویل چکر کے بعد سری لنکا کے راستے اپنی منزل تک پہنچتے تھے سری لنکا نے بھارت کے جواب میں بہر حال ہمارے لیے اپنی فضائیں کھلی رکھیں ہم انھیں استعمال کرتے رہے اور ملک کے دونوں حصوں کے درمیان رابطہ جاری رہا۔

جن دنوں صدر ضیا نے اس ملک کا دورہ کیا تو اس کا یہ احسان ہمارے ذہنوں میں تازہ تھا اور ہم اس احسان کا شکریہ ادا کرنا چاہتے تھے اس کا موقع ہم نے تلاش کر لیا اور وہ یہ کہ سری لنکا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہم نے اس سے فوج بنوائی اور فوج قائم کرنے میں اس کی بھرپور مدد کی۔ اس سے قبل اس کی فوج نہ ہونے کے برابر ہی تھی۔


سری لنکا بدھ مذہب کا پیروکار ملک ہے اور بدھ مت میں خون بہانا اور بدامنی ناجائز اور حرام ہے۔ فوج چونکہ جنگ کے لیے ہوتی ہے اس لیے سری لنکا کے پاس فوج نہیں تھی لیکن اس خطے کے حالات کے تحت اپنے ملک کو کسی بیرونی حملے سے بچانے کے لیے فوج لازم تھی چنانچہ طویل بحث و تمحیص کے بعد سری لنکا کے لیڈروں کو صدر ضیاء نے قائل کر لیا کہ وہ اپنے دفاع کے لیے فوج بنائیں نہ کہ کسی جارحیت کے لیے چنانچہ سری لنکا کے لیڈر ایک باقاعدہ فوج بنانے پر رضا مند ہو گئے اور ایک معمولی سی فوج کا سابقہ عمل انھوں نے ترک کر دیا۔

اس طرح اپنے پڑوسی دوست سری لنکا میں فوج کی بنیاد ہم نے رکھی اور بعد میں اسی فوج کی مدد سے سری لنکا نے اپنے ہاں بھارت کی طرف دہشت گردی کا مقابلہ کیا اور بچ گیا۔ رفتہ رفتہ یہ بدامنی ختم ہو گئی اور سری لنکا ایک محفوظ ملک بن گیا جو اپنی حفاظت خود کرنے کا اہل تھا۔ ہم پاکستانیوں نے اس ملک میں فوج کی پہلی اینٹ رکھ کر ہم نے کسی حد تک اس ملک کے احسانوں کا بدلہ اتارنے کی کوشش کی اور بعد کے حالات نے بتایا کہ ہماری یہ کوشش ہر لحاظ سے کامیاب رہی ایک تو فوج بن گئی دوسرے یہ دوست ملک بڑی حد تک محفوظ ہو گیا۔ فوج سے محروم کسی ملک میں فوج کا قیام ایک بڑی بات ہے اور ایک پائیدار احسان ہے جو پاکستان اپنے دوست ملک پر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

ایک نہایت ہی پرامن مذہب بدھ مت کے پیروکار یہانتک کہ جن کے پاس فوج بھی نہیں تھی ان کی حکومت نے دو فوجی ملکوں کے باہمی معاملات میں مداخلت کی اور ایک ملک کو دوستی کا یقین دلا دیا۔ ہم نے بقول صدر ضیاء کے اس ملک میں فوج قائم کر کے گویا اسے اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا اور اس کے اندر اپنی آزادی برقرار رکھنے کا عزم پیدا کر دیا۔ ہم نے اپنی طرف سے اس دوست اور پڑوسی کو اپنی مدد کا یقین ہی نہیں دلایا خود اسے بھی کسی بیرونی مدد سے بے نیاز کرنے کی عملاً کوشش کی۔

بھارت ایک ایسا بے رحم ملک ہے کہ میں جب بھی اس کے کسی پڑوسی ملک میں گیا تو وہاں کے لوگوں نے پاکستان کی بہت تعریف کی اور کہا کہ ہم پاکستان کی امداد پر بھروسہ کرتے ہیں کیونکہ ہمیں بھارت سے ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔

پھر ہر ملک نے کئی ایسی مثالیں پیش کیں کہ بھارت نے اس کو پریشان کرنے کے لیے کیا نہیں کیا۔ اور تو اور دنیا کا واحد ہندو ملک نیپال جو بھارت کا پڑوسی ہے اور سرکاری طور پر ہندو ہے وہ بھی بھارت سے محفوظ نہیں ہے۔ بیرون ملک جائیں تو زیادہ تر وہاں کے صحافیوں سے ملاقات رہتی ہے اور صحافی کسی ملک کی صحیح تصویر دکھا سکتے ہیں بھارت کے ہر پڑوسی ملک نے اس ملک کی تکلیف دہ تصویر ہی دکھائی اور ساتھ ہی پاکستان کا ضرور ذکر کیا جسے وہ اپنے لیے بھارت سے بچانے والا ملک سمجھتے ہیں۔

ہم پاکستانیوں کے لیے یہ صورت حال بڑے اطمینان کی ہے کہ ہمارا سری لنکا جیسا ایک جرات مند پڑوسی ہمارے ساتھ کھڑا ہے جب کہ ہم سب کا طاقت ور پڑوسی ہم سب کے لیے خطرناک ہے۔ حال ہی میں میاں صاحب بھی سری لنکا گئے ہیں اور انھوں نے بھی یقیناً اس دوست ملک کی حوصلہ افزائی کی ہو گی۔ سری لنکا جو ہماری کسی بھی مشکل میں ہمارے ساتھ رہا اس کی دوستی کا احترام ہم سب پر واجب ہے اور میاں صاحب نے دوستی کے اس رشتے کو مزید مضبوط کیا ہے۔ سری لنکا چھوٹا ملک ہے مگر ایک بہادر ملک جو طاقت ور بھارت کی پروا نہیں کرتا۔
Load Next Story