ہماری آزادی اور ہماری دوستیاں
اتوار کو میں چھٹی کرتا ہوں اور اس دن اخبارات بھی صرف دیکھتا ہوں
Abdulqhasan@hotmail.com
اتوار کو میں چھٹی کرتا ہوں اور اس دن اخبارات بھی صرف دیکھتا ہوں لیکن گزشتہ اتوار کو اخباروں پر نظر پڑی تو میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ امریکا کے بعد اب چین نے بھی ہمیں ہدایات جاری کرنی شروع کر دی ہیں اور کہا ہے کہ حال ہی میں بھارت نے ''بے کار مباش کچھ کیا کر'' پر عمل کرتے ہوئے ہمیں ہدایت کی ہے کہ بھارت نے پٹھانکوٹ کا جو مسئلہ بنایا ہے اس پر بھارت سے مذاکرات کیے جائیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ہمارے وزیراعظم کو فون کر کے کہا ہے کہ پٹھانکوٹ کے ہوائی اڈے پر دہشت گردوں نے کارروائی کر کے دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کو سبوتاژ کیا ہے اس لیے بھارت اور پاکستان اپنا مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھیں۔
دوسری ہدایت چین نے یہ بھی کی ہے کہ اقتصادی راہداری پورے پاکستان کے لیے ہے فریقین اختلاف ختم کر دیں۔ امید ہے کہ فریقین ماحول بہتر بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ امریکا ہمارا پیدائشی مشیر ہے بلکہ حکمران ہے، ہم شروع دن سے اس کی ہدایات پر عمل کر رہے ہیں اور ڈر بھی رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت ہمیں روس اور امریکا دونوں سے دورے کی دعوتیں ملی تھیں لیکن ہم نے روس کی دعوت موخر کر دی اور امریکا چلے گئے تب سے اب تک ہم امریکا ہی چلے جا رہے ہیں اور کسی دوسری طرف صرف اس کی اجازت سے ہی دیکھتے ہیں۔
ورنہ آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ ہم ہر حال میں امریکا کے تابعدار ہیں اور یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ کسی معاملے میں امریکا کا رویہ کیا ہے اور اس کے چہرے کے تاثرات کیا ہیں۔ امریکا کا چہرہ گورا ہو یا آج کی طرح کالا ہم اس کے تیور دیکھتے ہیں اور پھر کوئی اقدام اٹھاتے ہیں۔ امیر خسرو نے اپنے مرشد کے لیے کہا تھا کہ من قبلہ راست کردم بر طرف کجکلا ہے یعنی اپنے کجکلا محبوب کی طرف سے ٹیڑھی دستار کو دیکھ کر اپنا قبلہ اس کی سمت میں درست کرتے ہیں۔
امریکا ہمارے لیے یہی ہے کہ ہم اس کے چہرے کو دیکھ کر اس کی کجکلاہی کی سیدھ میں چلتے رہیں۔ محبوب کی ٹیڑھی ٹوپی ہی ہماری رہنما ہے اور اس کا ہر زاویہ ہمارے کسی قبلے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
میاں صاحب کی ایک سابقہ وزارت عظمیٰ کا واقعہ ہے کہ سعودی عرب نے ہمیں تیل کی ایک بڑی مقدار مفت دینے کی پیش کش کی، اس وقت میاں صاحب نے پاس بیٹھے کسی مشیر سے کہا کہ خبردار کسی افسر کو اس کا پتہ نہ چلے ورنہ وہ امریکا کو بتا دے گا اور ہماری یہ امداد ختم ہو جائے گی چنانچہ امریکا اس حد تک ہمارا حکمران تھا کہ ہمارے مبینہ دوست بھی اس سے پوچھ کر ہم سے دوستی نبھاتے تھے اور چین کے ساتھ تو ہماری دوستی ایسی تھی کہ اس کی تعریف میں ہم مثالیں تلاش کیا کرتے تھے لیکن نہ کوئی پہاڑ اس دوستی سے اونچا تھا اور نہ کوئی سمندر اس سے گہرا تھا لیکن یہ دونوں یعنی امریکا اور چین ہم سے بڑے تھے اور دوستی کی کیفیت وہی تھی جو گاؤں کے چوہدری کی کسی مزارعے وغیرہ سے ہوا کرتی ہے۔ اب تک صورت حال یہی ہے بلکہ دن بدن واضح اور مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔
امریکا کے ساتھ دوستی کے ہم عادی ہو گئے ہیں اور اس کی اونچ نیچ اور نازو انداز کو ہم خوب جانتے پہچانتے ہیں۔ ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ امریکا کوئی بات ہم سے کہاں سے کر رہا ہے دل سے یا صرف زبان سے چنانچہ ہم اس پر عمل کرنے میں امریکا کی خواہش کا لحاظ رکھتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ ہم امریکا کو اپنا اصل حکمران تسلیم کر چکے ہیں اور امریکا کو بھی یہ معلوم ہے چنانچہ ہمارا کوئی حکمران اگر کبھی کسی غلط فہمی میں یا قومی غیرت میں آ کر نافرمانی کی کوئی بات کرتا ہے تو اسے اس کی عبرت ناک سزا کی وعید فوراً مل جاتی ہے اور اس پر عمل بھی ہوتا ہے تاکہ ہمیں امریکا کی دھمکی خالی خولی اور بے جان نہ دکھائی دے بہر کیف ہم امریکا کو خوب جان چکے ہیں اور امریکا بھی ہمیں خوب جانتا ہے۔
ہمارے درمیان سب پردے اٹھ چکے ہیں لیکن چین کے بارے میں ہم ابھی تک کچے ہیں، ہم نے اس انتہائی گہرے اور ہزاروں برس کی تہذیب اور دانش کے وارث اس ملک سے تعلق تو خوب رکھا ہے مگر اس کے مزاج اور تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا ہمارے دانشور امریکا اور مغربی دنیا میں ہی مصروف رہے ہیں اور ہم نے اپنے ابھرتے ہوئے مشرقی پڑوسیوں پر توجہ نہیں دی۔ فاتح نپولین نے جب دنیا کا جائزہ لیا تو اس نے ایک نکتے کی بات کہی اور پیش گوئی کی کہ مستقبل زرد قوموں کا ہے۔ مشرقی دنیا میں آباد لوگوں کے چہروں کا رنگ زرد ہوا کرتا تھا اب تو خوشحالی نے ان کے رنگ کو سرخ کر دیا ہے۔
چین بھی زرد رنگ والی قوم تھی جسے اس کی کسی حد تک خوشحالی نے نیا رنگ دے دیا ہے۔ چین کے ساتھ ایک مدت سے ہمارا قریبی رابطہ ہے اور ہم نے اور چین نے آپس میں میل ملاقات رکھی ہوئی ہے لیکن نہایت ادب اور احترام کے ساتھ اتنا عرض کرنا مناسب ہو گا کہ ہم پاکستانی جذبات میں آ کر کسی طرف الٹ نہ پڑا کریں، چین جیسی قوم پیار کرتی ہے مگر اپنے مفاد کی خاطر اور یہی رویہ اور پالیسی درست بھی ہے۔ چین کا ملک ہمارے معاشی مسائل پر خاص توجہ دے رہا ہے لیکن ساتھ ساتھ وہ پاکستان کے اندر قدم بھی بڑھا رہا ہے مگر ہم جذباتی اور کمزور پاکستانی اس کا احساس نہیں کر رہے۔
ویسے ہم میں بعض لوگوں کا دھیان انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف بھی چلا جاتا ہے جس نے کاروبار کے لیے ہندوستان کے مغل بادشاہ سے کچھ مراعات حاصل کی تھیں لیکن پاکستان ایک مضبوط اور جدید ملک ہے اور ایٹمی طاقت بھی ہے۔ یہ اپنی آزادی اور اپنے مفادات کی حفاظت کر سکتا ہے لیکن ساری خرابی ہمارے کمزور حکمرانوں کی ہے جن میں سے بعض اپنی ناک سے آگے دیکھنے کے اہل بھی نہیں ہیں۔ آج کی دنیا میں کوئی الگ تھلگ نہیں رہ سکتا لیکن تعلقات میں احتیاط لازم ہے اور چین ہمارا ایک معقول دوست ہے جو حالات کو خوب سمجھتا ہے۔ بہر کیف اپنی حفاظت ہمیں خود ہی کرنی ہے نہ کہ امریکا اور چین نے اور بحمد للہ ہم اپنی حفاظت کرنے کے اہل ہیں۔
دوسری ہدایت چین نے یہ بھی کی ہے کہ اقتصادی راہداری پورے پاکستان کے لیے ہے فریقین اختلاف ختم کر دیں۔ امید ہے کہ فریقین ماحول بہتر بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ امریکا ہمارا پیدائشی مشیر ہے بلکہ حکمران ہے، ہم شروع دن سے اس کی ہدایات پر عمل کر رہے ہیں اور ڈر بھی رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت ہمیں روس اور امریکا دونوں سے دورے کی دعوتیں ملی تھیں لیکن ہم نے روس کی دعوت موخر کر دی اور امریکا چلے گئے تب سے اب تک ہم امریکا ہی چلے جا رہے ہیں اور کسی دوسری طرف صرف اس کی اجازت سے ہی دیکھتے ہیں۔
ورنہ آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ ہم ہر حال میں امریکا کے تابعدار ہیں اور یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ کسی معاملے میں امریکا کا رویہ کیا ہے اور اس کے چہرے کے تاثرات کیا ہیں۔ امریکا کا چہرہ گورا ہو یا آج کی طرح کالا ہم اس کے تیور دیکھتے ہیں اور پھر کوئی اقدام اٹھاتے ہیں۔ امیر خسرو نے اپنے مرشد کے لیے کہا تھا کہ من قبلہ راست کردم بر طرف کجکلا ہے یعنی اپنے کجکلا محبوب کی طرف سے ٹیڑھی دستار کو دیکھ کر اپنا قبلہ اس کی سمت میں درست کرتے ہیں۔
امریکا ہمارے لیے یہی ہے کہ ہم اس کے چہرے کو دیکھ کر اس کی کجکلاہی کی سیدھ میں چلتے رہیں۔ محبوب کی ٹیڑھی ٹوپی ہی ہماری رہنما ہے اور اس کا ہر زاویہ ہمارے کسی قبلے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
میاں صاحب کی ایک سابقہ وزارت عظمیٰ کا واقعہ ہے کہ سعودی عرب نے ہمیں تیل کی ایک بڑی مقدار مفت دینے کی پیش کش کی، اس وقت میاں صاحب نے پاس بیٹھے کسی مشیر سے کہا کہ خبردار کسی افسر کو اس کا پتہ نہ چلے ورنہ وہ امریکا کو بتا دے گا اور ہماری یہ امداد ختم ہو جائے گی چنانچہ امریکا اس حد تک ہمارا حکمران تھا کہ ہمارے مبینہ دوست بھی اس سے پوچھ کر ہم سے دوستی نبھاتے تھے اور چین کے ساتھ تو ہماری دوستی ایسی تھی کہ اس کی تعریف میں ہم مثالیں تلاش کیا کرتے تھے لیکن نہ کوئی پہاڑ اس دوستی سے اونچا تھا اور نہ کوئی سمندر اس سے گہرا تھا لیکن یہ دونوں یعنی امریکا اور چین ہم سے بڑے تھے اور دوستی کی کیفیت وہی تھی جو گاؤں کے چوہدری کی کسی مزارعے وغیرہ سے ہوا کرتی ہے۔ اب تک صورت حال یہی ہے بلکہ دن بدن واضح اور مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔
امریکا کے ساتھ دوستی کے ہم عادی ہو گئے ہیں اور اس کی اونچ نیچ اور نازو انداز کو ہم خوب جانتے پہچانتے ہیں۔ ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ امریکا کوئی بات ہم سے کہاں سے کر رہا ہے دل سے یا صرف زبان سے چنانچہ ہم اس پر عمل کرنے میں امریکا کی خواہش کا لحاظ رکھتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ ہم امریکا کو اپنا اصل حکمران تسلیم کر چکے ہیں اور امریکا کو بھی یہ معلوم ہے چنانچہ ہمارا کوئی حکمران اگر کبھی کسی غلط فہمی میں یا قومی غیرت میں آ کر نافرمانی کی کوئی بات کرتا ہے تو اسے اس کی عبرت ناک سزا کی وعید فوراً مل جاتی ہے اور اس پر عمل بھی ہوتا ہے تاکہ ہمیں امریکا کی دھمکی خالی خولی اور بے جان نہ دکھائی دے بہر کیف ہم امریکا کو خوب جان چکے ہیں اور امریکا بھی ہمیں خوب جانتا ہے۔
ہمارے درمیان سب پردے اٹھ چکے ہیں لیکن چین کے بارے میں ہم ابھی تک کچے ہیں، ہم نے اس انتہائی گہرے اور ہزاروں برس کی تہذیب اور دانش کے وارث اس ملک سے تعلق تو خوب رکھا ہے مگر اس کے مزاج اور تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا ہمارے دانشور امریکا اور مغربی دنیا میں ہی مصروف رہے ہیں اور ہم نے اپنے ابھرتے ہوئے مشرقی پڑوسیوں پر توجہ نہیں دی۔ فاتح نپولین نے جب دنیا کا جائزہ لیا تو اس نے ایک نکتے کی بات کہی اور پیش گوئی کی کہ مستقبل زرد قوموں کا ہے۔ مشرقی دنیا میں آباد لوگوں کے چہروں کا رنگ زرد ہوا کرتا تھا اب تو خوشحالی نے ان کے رنگ کو سرخ کر دیا ہے۔
چین بھی زرد رنگ والی قوم تھی جسے اس کی کسی حد تک خوشحالی نے نیا رنگ دے دیا ہے۔ چین کے ساتھ ایک مدت سے ہمارا قریبی رابطہ ہے اور ہم نے اور چین نے آپس میں میل ملاقات رکھی ہوئی ہے لیکن نہایت ادب اور احترام کے ساتھ اتنا عرض کرنا مناسب ہو گا کہ ہم پاکستانی جذبات میں آ کر کسی طرف الٹ نہ پڑا کریں، چین جیسی قوم پیار کرتی ہے مگر اپنے مفاد کی خاطر اور یہی رویہ اور پالیسی درست بھی ہے۔ چین کا ملک ہمارے معاشی مسائل پر خاص توجہ دے رہا ہے لیکن ساتھ ساتھ وہ پاکستان کے اندر قدم بھی بڑھا رہا ہے مگر ہم جذباتی اور کمزور پاکستانی اس کا احساس نہیں کر رہے۔
ویسے ہم میں بعض لوگوں کا دھیان انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف بھی چلا جاتا ہے جس نے کاروبار کے لیے ہندوستان کے مغل بادشاہ سے کچھ مراعات حاصل کی تھیں لیکن پاکستان ایک مضبوط اور جدید ملک ہے اور ایٹمی طاقت بھی ہے۔ یہ اپنی آزادی اور اپنے مفادات کی حفاظت کر سکتا ہے لیکن ساری خرابی ہمارے کمزور حکمرانوں کی ہے جن میں سے بعض اپنی ناک سے آگے دیکھنے کے اہل بھی نہیں ہیں۔ آج کی دنیا میں کوئی الگ تھلگ نہیں رہ سکتا لیکن تعلقات میں احتیاط لازم ہے اور چین ہمارا ایک معقول دوست ہے جو حالات کو خوب سمجھتا ہے۔ بہر کیف اپنی حفاظت ہمیں خود ہی کرنی ہے نہ کہ امریکا اور چین نے اور بحمد للہ ہم اپنی حفاظت کرنے کے اہل ہیں۔