پاکستان کے خلاف دہشت گردی… کیوں

پوری قوم اپنے بچوں کی جدائی میں نڈھال ہو جاتی ہے اور اس کی صلاحیتیں معطل ہو جاتی ہیں۔

Abdulqhasan@hotmail.com

ISLAMABAD:
پاکستانیوں کے دل و دماغ کو کچھ سکون نصیب نہیں ہوتا کہ ہمارے چالاک اور ہر دم تیار دشمن کوئی نہ کوئی ایسی واردات کر دیتے ہیں کہ ہم شدید اضطراب میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اپنی تمام کوششیں اپنی حالت کی بحالی پر لگا دیتے ہیں۔ ہمارے بیشتر شب و روز اسی کیفیت میں گزر جاتے ہیں۔ اب دیکھئے ہر انسان اور ہر پاکستانی کے لیے اس کی عزیز ترین متاع بچے ہوتے ہیں لیکن ہم پر ایسے حادثے گزر جاتے ہیں کہ ہمارے خوبصورت بچے دشمنوں کی سفاکی کی نذر ہو جاتے ہیں۔

پوری قوم اپنے بچوں کی جدائی میں نڈھال ہو جاتی ہے اور اس کی صلاحیتیں معطل ہو جاتی ہیں۔ بدقسمتی سے کسی ایک سانحے سے بحال نہیں ہوتے کہ کوئی دوسرا سانحہ ہمیں دبوچ لیتا ہے اور اس طرح سانحہ بہ سانحہ ہماری زندگی چلتی رہتی ہے۔ ہم اللہ کے فضل و کرم سے ان دنوں مناسب معاشی زندگی بسر کر رہے ہیں اور اقتصادی ترقی کی جانب بڑھ رہے ہیں لیکن ہمارے دشمن ہمارا یہ سفر کسی نہ کسی سانحے سے معطل کر دیتے ہیں اور ہم کسی نئی مشکل کے مقابلے میں اپنی ہمتوں اور توانائیوں کو صرف کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ قدرتی حادثے نہیں ہوتے، ان حادثوں کو پیدا کیا جاتا ہے اور ہماری قوتوں کو ان حادثوں کے مقابلے میں کھپا دیا جاتا ہے۔ یعنی ہم اتنا حاصل نہیں کرتے جتنا کھو دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے کیونکہ ہمارے خلاف ہمارے دشمن کے پاس دشمنی کا اور کوئی مؤثر طریقہ نہیں بچا ہے اور اس کی ایک وجہ ہے۔

ہم نے جب سے ایٹمی طاقت حاصل کی ہے ہمارے خلاف جنگ بہت ہی گھاٹے کا سودا بن گئی ہے اور ہماری اس ایٹمی صلاحیت کی وجہ سے ہمارے دشمن بے بس ہو گئے ہیں۔ اب ان کے پاس دہشت گردی باقی رہ گئی ہے جس کے کسی نہ کسی طریقے سے وہ ہمیں پریشان کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔ ہمارے دشمن بھارت نے ہمارے خلاف ایک محاذ بنا لیا ہے جس میں اس کے ساتھی بھی پیدا ہو گئے ہیں جو بھارت کے اشارے پر رقص کرتے ہیں اور اس رقص ابلیس میں وہ کامیاب بھی ہو گئے ہیں۔

پاکستان میں ان دنوں کوئی نہ کوئی بڑا حادثہ رونما ہو جاتا ہے۔ ان دنوں تعلیمی ادارے دشمن کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ ان اداروں کی کثرت کی وجہ سے ان کی مکمل سیکیورٹی آسان نہیں چنانچہ کسی تعلیمی ادارے پر براہ راست حملہ کر دیا جاتا ہے اور طلبہ کے پاس کتابوں کے سوا کیا ہوتا ہے کہ وہ کسی باقاعدہ مسلح حملے کا مقابلہ کر سکیں۔ چنانچہ طلبہ کی ایک بڑی تعداد نشانہ بن جاتی ہے اور نہ جانے کتنے گھروں میں ماتم شروع ہو جاتا ہے اور پاکستان کے پورے معاشرے پر افسردگی اور غم کا سایہ پڑ جاتا ہے۔


دشمن کا مقصد یہ ہے کہ وہ پاکستانی معاشرے کو چین نہیں لینے دینا چاہتا ہے اور معاشرتی بے چینی کے لیے کوئی واردات کر دیتا ہے۔ ایٹمی پاکستان ان وارداتوں کا کیا جواب دے سکتا ہے سوائے اس کے کہ وہ بھی ان کا براہ راست بدلہ لینا شروع کر دے۔ لیکن ہر قوم کا ایک مزاج ہوتا ہے۔

پاکستانی قوم اس طرح کی دہشت گردی اور وارداتیں نہیں کر سکتی وہ تو ان دنوں خود دہشت گردی کے نشانے پر ہے اور اس کے بڑے نازک ادارے بھی دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں لیکن پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھ پھیل گئے ہیں اور وہ خود اور کبھی اپنے کسی اتحادی کی مدد سے کوئی واردات کر جاتے ہیں اور اب تو بعض ایسی کارروائیاں ہو رہی ہیں کہ حکومت پاکستان افغانستان کا نام لے کر الزام عائد کر رہی ہے۔

پاکستان کے اندر افغان باشندوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے اور کالونیاں بسا کر بیٹھی ہوئی ہے۔ عام پاکستانیوں کی طرح وہ باقاعدہ پاکستانی زندگی بسر کر رہی ہے اور اسے سوائے ووٹنگ کے تمام پاکستانی حقوق حاصل ہیں۔ افغانستان سے ان کے ساتھ کسی رابطے کے ذریعے کوئی بھی واردات کرائی جا سکتی ہیں اور کرائی جا رہی ہیں اور خبروں کے مطابق یہ افغان باشندے بھارت کے ساتھ خاص تعلق رکھتے ہیں۔

کچھ پہلے تک صورت حال بالکل مختلف تھی، افغانستان کے عوام پاکستان کے ساتھ تھے اور افغانوں کے حکمران اور لیڈر بھارت کا دم بھرتے تھے۔ یہ صورت حال طویل عرصہ تک رہی اور افغانستان کے مسلمان عوام نے بھارت کے ساتھ ایسا تعلق قائم کرنے سے انکار کر دیا جو پاکستان کے خلاف ہو لیکن حالات نے نہ جانے کتنی کروٹیں لیں اور ہمارے لیڈروں نے کتنی ہی کوتاہیاں کیں کہ صورت حال رفتہ رفتہ بالکل ہی بدل گئی۔ اب جیسا کہ سب کو معلوم ہے افغانستان کے عوام بھی بھارت کے خلاف نہیں ہیں بلکہ بعض افغان گروہ ایسے بھی ہیں جو بھارت کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔

چنانچہ کئی وارداتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو افغانستان کے دہشت گرد کرتے ہیں۔ یہ صورت حال بدلی جا سکتی ہے اگر ہمارے پاکستانی رہنما اس وقت سنجیدگی کے ساتھ کوشش کریں کیونکہ ماضی میں حالات کی تبدیلیوں کے باوجود افغانستان کے مسلمان عوام پاکستان کے خلاف جارحیت پر تیار نہیں ہیں اور حالات کو ماضی کی طرف لے جایا جا سکتا ہے۔ جب افغانستان کے عوام برملا پاکستان کے ساتھ اور اس کے حامی تھے۔ اسلام کا رشتہ کبھی کمزور نہیں پڑ سکتا، ساری خرابی سیاسی رہنماؤں میں ہوتی ہے لیکن یہ دور ہو سکتی ہے اور ہم کوشش کریں تو افغانستان کو بھارت سے چھین سکتے ہیں۔
Load Next Story