بدلتا لاہور
خود پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ملک سے باہر مقیم ہے جو مسلسل آتی جاتی رہتی ہے
Abdulqhasan@hotmail.com
ISLAMABAD:
ہڑتال یعنی کام بند کر دینا احتجاج کا ایک موثر طریقہ مانا گیا ہے اور ہماری اعلیٰ ترین عدلیہ نے بھی احتجاج کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیا ہے خواہ وہ کسی صورت میں بھی ہو سوائے تخریب کاری اور توڑ پھوڑ کے۔ ان دنوں لاہور شہر ہڑتالوں کا مرکز اور ان کی زد میں رہا اور یہاں سے ایسی ایسی دور رس ہڑتال کی گئی جو نہ صرف پورے ملک بلکہ دنیا کے کئی حصوں میں بھی محسوس کی گئی کیونکہ پاکستان کے ساتھ براہ راست رابطے منقطع رہے۔
خود پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ملک سے باہر مقیم ہے جو مسلسل آتی جاتی رہتی ہے اور اس کے سفر کا ذریعہ پی آئی اے ہے، یہ سب لوگ جہاں تھے وہیں بیٹھ گئے باہر ہڑتال تھی۔ بس اور ریل کی طرح ہوائی سفر بھی اب ایک معمول بن چکا ہے۔ کسی فوری مجبوری ہی میں نہیں، وقت بچانے اور کاروبار میں تیزی پیدا کرنے کے لیے بھی ہوائی سفر مفید رہتا ہے اور کوئی پاکستانی یہ ہوائی سفر اپنی ائر لائنز کے ذریعے ہی کرے گا جو اس گئے گزرے زمانے میں بھی مسافروں کو آرام کے ساتھ منزل مراد تک لے جاتی ہے اور وقت پر بھی سوائے اس کے شوقین لیڈروں کی احمقانہ ہڑتالوں کے اور ان کی تازہ ہڑتال اربوں کی مالیت کے نقصان اور لاتعداد مسافروں کی ذہنی اذیت کے بعد بلا نتیجہ ختم ہو گئی۔
آٹھ دنوں تک پاکستان کی فضائیں اپنے جہازوں کی گھن گرج سے محروم رہیں اور اتنا زیادہ نقصان ہوا کہ اب ادارے کو چار ارب روپے درکار ہیں تاکہ ملازمین کو فروری کی تنخواہیں ادا کی جا سکیں اور ایندھن خریدا جا سکے۔ ایک ناگزیر قومی ادارے کو اس کے کارکنوں نے بدنام کر دیا اور نتیجہ صفر نکلا۔ اس قدر پُراثر اور زبردست محسوس کی جانے والی ہڑتال نے وہ تمام نقصانات تو کر دیے جو ایک ہڑتال کر سکتی ہے لیکن نہ صرف یہ کہ اربوں کا نقصان بھی کر دیا بلکہ ادارے کی شہرت کو بھی نقصان پہنچایا، اب حکمران ایسے کمزور اور نادان مزدور لیڈروں کی کیا قدر کریں گے جو اتنی بڑی اور دور دور تک اثرات پھیلانے والی ہڑتال کو کچھ حاصل کیے بغیر ختم کر بیٹھے، ان کے مطالبات کے لیے حکومت نے ایک صوبائی لیڈر کو مقرر کر دیا جو کسی وفاقی اور مرکزی نوعیت کے ادارے کے مسائل کو کس طرح حل کر سکتا ہے۔
اخباروں نے مایوس ہو کر بڑی مایوسانہ سرخیاں لگائیں کہ یہ ہڑتال کس طرح ختم ہوئی اور اس نے کتنا نقصان کرکے اپنی یہ مہم بیچ میں چھوڑ دی۔ اس دوران اس ادارے کے مسافروں کو جو پریشانی ہوئی اس کا کوئی اندازہ نہیں کہ پورے آٹھ دن خود اس ادارے اور اس سے متعلق عوام پر کیا گزری ، بہر حال جو بھی ہوا اس کے لیڈروں نے اپنا ایک بڑا نقصان یہ کر دیا کہ ان کی سوداگیری کی طاقت بہت کمزور ہو گئی کہ اتنی بڑی ہڑتال بھی بے نتیجہ ختم کر دی گئی جو ہڑتالی لیڈروں کی ایک بڑی ناکامی تصور ہوتی رہے گی اور ان کی لیڈری کی طاقت کو بہت کمزور کر دے گی۔
ہمارے جیسے زیر تعمیر اور زیر تشکیل ملک کے لیے ہڑتالیں سخت نقصان دہ ہیں جو کسی ملک کی ترقی کی رفتار کو نہ صرف سست کر دیتی ہیں بلکہ بعض اوقات مکمل طور پر روک بھی دیتی ہیں خصوصاً اس کی ائر لائن کی ہڑتالیں۔ ٹرانسپورٹ زمین کی ہو یا فضائی اس کی کسی ترقی پذیر ملک کو ہر وقت اشد ضرورت رہتی ہے۔ وہ قافلے جو ایک سے دوسری منزل تک مہینوں سفر کرتے تھے اب نئے مواصلاتی ذریعوں سے وہ کئی دنوں کا سفر ان دنوں کے چند گھنٹوں میں کر لیتے ہیں۔
ابھی ایک دن تمام نہیں ہوتا کہ قافلہ اپنی منزل پر پہنچ کر فارغ ہونے والا ہوتا ہے۔ ملکوں اور شہروں کے درمیان ہی نہیں اب تو خود شہروں کے اندر بھی ٹرانسپورٹ کی سہولت لازم ہو گئی ہے اور جس شہر کی ٹریفک میں رکاوٹ رہتی ہے جسے اب ٹریفک جام کہا جاتا ہے وہ شہر اپنی کتنی ہی خصوصیات سے محروم رہ جاتا ہے اور اس کی عام شہری اور کاروباری زندگی پر ناگوار اثرات پڑتے ہیں۔
لاہور جو ایک رواں دواں پرامن شہر تھا اور جس میں ادھر ادھر آنا جانا کوئی مسئلہ نہیں تھا،اب یہ ایک مشکل شہر بن گیا ہے اور کہیں آنا جانا ہو تو اس آمدورفت کے ذریعے سے پہلے وقت کا اندازہ کرنا پڑتا ہے کہ اس میں کتنا وقت لگے گا اور سواری کا سوال بعد میں پیدا ہوتا ہے۔ لاہور شہر میں آمدورفت کی دقت کا اندازہ مجھے ایک عجب اور ناقابل یقین واقعہ سے ہوا، یہاں کے مشہور و معروف گورنمنٹ کالج میں داخلہ ہمیشہ مشکل رہا ہے اور یہاں کے طالب علم اس کالج کا فخریہ ذکر کیا کرتے تھے لیکن گزشتہ روز ایک صاحب سے ملنے گیا تو وہاں اس کے بیٹے بھی موجود تھے۔
ان کی زبانی پتہ چلا کہ وہ بڑے مشکل ٹیسٹ دے کر گورنمنٹ کالج میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے لیکن بعد میں کالج چھوڑ دیا کیونکہ اب اس تک جانے کے لیے ٹریفک کا سسٹم بہت ہی مشکل ہو گیا ہے اور ہر روز کالج آنا جانا ایک بڑی مشقت بن گئی ہے اس لیے ہم نے یہ کالج چھوڑ دیا ہے جس میں داخلے کے لیے بڑی محنت کی اور سفارشیں بھی تلاش کیں لیکن ٹریفک نے ہماری ہر کوشش پر پانی پھیر دیا۔ اگر کسی سے یہ وجہ بیان کریں اور وہ لاہور کے نئے حالات سے واقف نہ ہو تو ہماری بات کو سچ نہیں مانے گا۔
لاہور دو حصوں میں بٹا ہوا تھا اور دونوں حصے جڑے ہوئے تھے پرانا لاہور اور نیا لاہور۔ پرانے لاہور کے کسی دروازے سے قدم باہر رکھتے تو سامنے نیا لاہور ہوتا جس تک آپ پیدل چل کر جا سکتے تھے۔ پرانے لاہور کو ایک سر کلر روڈ نے گھیرے میں لے رکھا تھا اور اس روڈ کے ساتھ سبزے کا ایک دائرہ بھی چلتا تھا جو نئے اور پرانے لاہور کو جدا کرتا تھا لیکن دو چار قدم چلنے کے بعد دوسرا لاہور آ جاتا تھا بس عمارتوں کے ڈیزائن کا فرق تھا اور یہ فرق ہی دونوں لاہوروں کو جدا کرتا تھا اور اب بھی یہی سب سے بڑا فرق ہے۔ ویسے اب کئی نئی آبادیاں بن گئی ہیں جو یوں تو لاہور کا حصہ ہیں نئے لاہور کا لیکن پرانے لاہور اور ان کے درمیان فرق واضح ہے اور شاید یہی فرق لاہور کی شان ہے۔
ایک شہر جو بظاہر دو رنگوں اور تہذیبوں میں تقسیم ہے لیکن شہر ایک ہی ہے زبان اور کلچر میں کوئی فرق نہیں۔ بس ٹریفک کے ذریعوں میں بہت فرق ہے جو سائیکل اور کسی مشینی سواری میں ہوتا ہے۔ پرانے لاہور میں صرف موٹر سائیکل نئی سواری ہے شہر کے ان راستوں پر موٹر کار نہیں چل سکتی۔ کئی ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے نئے لاہور میں گاڑیاں پارک کرنے کا بندوبست کر رکھا ہے جہاں سے وہ صبح اپنی گاڑیاں باہر نکال کر سڑک پر لے آتے ہیں اور رات کو پھر اس جگہ پارک کر دیتے ہیں کیونکہ ٹریفک پورے لاہور کا پرابلم ہے۔
جدید سواری کے بغیر گزارہ بھی نہیں اور اس کو استعمال کرنے کی سڑک بھی نہیں، تو یہ نئے زمانے اور جدید دور کا ایک بڑا پرابلم ہے۔ کبھی موٹر کار ایک پرابلم تھی اور اس کا حصول آسان نہیں تھا اب اس کا استعمال مشکل ہو گیا ہے جب کہ حصول اتنا مشکل نہیں رہا۔ بدلتے زمانے کے ان حالات کے ساتھ زندہ رہنا ہے اور یہی زندگی ہے۔
ہڑتال یعنی کام بند کر دینا احتجاج کا ایک موثر طریقہ مانا گیا ہے اور ہماری اعلیٰ ترین عدلیہ نے بھی احتجاج کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیا ہے خواہ وہ کسی صورت میں بھی ہو سوائے تخریب کاری اور توڑ پھوڑ کے۔ ان دنوں لاہور شہر ہڑتالوں کا مرکز اور ان کی زد میں رہا اور یہاں سے ایسی ایسی دور رس ہڑتال کی گئی جو نہ صرف پورے ملک بلکہ دنیا کے کئی حصوں میں بھی محسوس کی گئی کیونکہ پاکستان کے ساتھ براہ راست رابطے منقطع رہے۔
خود پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ملک سے باہر مقیم ہے جو مسلسل آتی جاتی رہتی ہے اور اس کے سفر کا ذریعہ پی آئی اے ہے، یہ سب لوگ جہاں تھے وہیں بیٹھ گئے باہر ہڑتال تھی۔ بس اور ریل کی طرح ہوائی سفر بھی اب ایک معمول بن چکا ہے۔ کسی فوری مجبوری ہی میں نہیں، وقت بچانے اور کاروبار میں تیزی پیدا کرنے کے لیے بھی ہوائی سفر مفید رہتا ہے اور کوئی پاکستانی یہ ہوائی سفر اپنی ائر لائنز کے ذریعے ہی کرے گا جو اس گئے گزرے زمانے میں بھی مسافروں کو آرام کے ساتھ منزل مراد تک لے جاتی ہے اور وقت پر بھی سوائے اس کے شوقین لیڈروں کی احمقانہ ہڑتالوں کے اور ان کی تازہ ہڑتال اربوں کی مالیت کے نقصان اور لاتعداد مسافروں کی ذہنی اذیت کے بعد بلا نتیجہ ختم ہو گئی۔
آٹھ دنوں تک پاکستان کی فضائیں اپنے جہازوں کی گھن گرج سے محروم رہیں اور اتنا زیادہ نقصان ہوا کہ اب ادارے کو چار ارب روپے درکار ہیں تاکہ ملازمین کو فروری کی تنخواہیں ادا کی جا سکیں اور ایندھن خریدا جا سکے۔ ایک ناگزیر قومی ادارے کو اس کے کارکنوں نے بدنام کر دیا اور نتیجہ صفر نکلا۔ اس قدر پُراثر اور زبردست محسوس کی جانے والی ہڑتال نے وہ تمام نقصانات تو کر دیے جو ایک ہڑتال کر سکتی ہے لیکن نہ صرف یہ کہ اربوں کا نقصان بھی کر دیا بلکہ ادارے کی شہرت کو بھی نقصان پہنچایا، اب حکمران ایسے کمزور اور نادان مزدور لیڈروں کی کیا قدر کریں گے جو اتنی بڑی اور دور دور تک اثرات پھیلانے والی ہڑتال کو کچھ حاصل کیے بغیر ختم کر بیٹھے، ان کے مطالبات کے لیے حکومت نے ایک صوبائی لیڈر کو مقرر کر دیا جو کسی وفاقی اور مرکزی نوعیت کے ادارے کے مسائل کو کس طرح حل کر سکتا ہے۔
اخباروں نے مایوس ہو کر بڑی مایوسانہ سرخیاں لگائیں کہ یہ ہڑتال کس طرح ختم ہوئی اور اس نے کتنا نقصان کرکے اپنی یہ مہم بیچ میں چھوڑ دی۔ اس دوران اس ادارے کے مسافروں کو جو پریشانی ہوئی اس کا کوئی اندازہ نہیں کہ پورے آٹھ دن خود اس ادارے اور اس سے متعلق عوام پر کیا گزری ، بہر حال جو بھی ہوا اس کے لیڈروں نے اپنا ایک بڑا نقصان یہ کر دیا کہ ان کی سوداگیری کی طاقت بہت کمزور ہو گئی کہ اتنی بڑی ہڑتال بھی بے نتیجہ ختم کر دی گئی جو ہڑتالی لیڈروں کی ایک بڑی ناکامی تصور ہوتی رہے گی اور ان کی لیڈری کی طاقت کو بہت کمزور کر دے گی۔
ہمارے جیسے زیر تعمیر اور زیر تشکیل ملک کے لیے ہڑتالیں سخت نقصان دہ ہیں جو کسی ملک کی ترقی کی رفتار کو نہ صرف سست کر دیتی ہیں بلکہ بعض اوقات مکمل طور پر روک بھی دیتی ہیں خصوصاً اس کی ائر لائن کی ہڑتالیں۔ ٹرانسپورٹ زمین کی ہو یا فضائی اس کی کسی ترقی پذیر ملک کو ہر وقت اشد ضرورت رہتی ہے۔ وہ قافلے جو ایک سے دوسری منزل تک مہینوں سفر کرتے تھے اب نئے مواصلاتی ذریعوں سے وہ کئی دنوں کا سفر ان دنوں کے چند گھنٹوں میں کر لیتے ہیں۔
ابھی ایک دن تمام نہیں ہوتا کہ قافلہ اپنی منزل پر پہنچ کر فارغ ہونے والا ہوتا ہے۔ ملکوں اور شہروں کے درمیان ہی نہیں اب تو خود شہروں کے اندر بھی ٹرانسپورٹ کی سہولت لازم ہو گئی ہے اور جس شہر کی ٹریفک میں رکاوٹ رہتی ہے جسے اب ٹریفک جام کہا جاتا ہے وہ شہر اپنی کتنی ہی خصوصیات سے محروم رہ جاتا ہے اور اس کی عام شہری اور کاروباری زندگی پر ناگوار اثرات پڑتے ہیں۔
لاہور جو ایک رواں دواں پرامن شہر تھا اور جس میں ادھر ادھر آنا جانا کوئی مسئلہ نہیں تھا،اب یہ ایک مشکل شہر بن گیا ہے اور کہیں آنا جانا ہو تو اس آمدورفت کے ذریعے سے پہلے وقت کا اندازہ کرنا پڑتا ہے کہ اس میں کتنا وقت لگے گا اور سواری کا سوال بعد میں پیدا ہوتا ہے۔ لاہور شہر میں آمدورفت کی دقت کا اندازہ مجھے ایک عجب اور ناقابل یقین واقعہ سے ہوا، یہاں کے مشہور و معروف گورنمنٹ کالج میں داخلہ ہمیشہ مشکل رہا ہے اور یہاں کے طالب علم اس کالج کا فخریہ ذکر کیا کرتے تھے لیکن گزشتہ روز ایک صاحب سے ملنے گیا تو وہاں اس کے بیٹے بھی موجود تھے۔
ان کی زبانی پتہ چلا کہ وہ بڑے مشکل ٹیسٹ دے کر گورنمنٹ کالج میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے لیکن بعد میں کالج چھوڑ دیا کیونکہ اب اس تک جانے کے لیے ٹریفک کا سسٹم بہت ہی مشکل ہو گیا ہے اور ہر روز کالج آنا جانا ایک بڑی مشقت بن گئی ہے اس لیے ہم نے یہ کالج چھوڑ دیا ہے جس میں داخلے کے لیے بڑی محنت کی اور سفارشیں بھی تلاش کیں لیکن ٹریفک نے ہماری ہر کوشش پر پانی پھیر دیا۔ اگر کسی سے یہ وجہ بیان کریں اور وہ لاہور کے نئے حالات سے واقف نہ ہو تو ہماری بات کو سچ نہیں مانے گا۔
لاہور دو حصوں میں بٹا ہوا تھا اور دونوں حصے جڑے ہوئے تھے پرانا لاہور اور نیا لاہور۔ پرانے لاہور کے کسی دروازے سے قدم باہر رکھتے تو سامنے نیا لاہور ہوتا جس تک آپ پیدل چل کر جا سکتے تھے۔ پرانے لاہور کو ایک سر کلر روڈ نے گھیرے میں لے رکھا تھا اور اس روڈ کے ساتھ سبزے کا ایک دائرہ بھی چلتا تھا جو نئے اور پرانے لاہور کو جدا کرتا تھا لیکن دو چار قدم چلنے کے بعد دوسرا لاہور آ جاتا تھا بس عمارتوں کے ڈیزائن کا فرق تھا اور یہ فرق ہی دونوں لاہوروں کو جدا کرتا تھا اور اب بھی یہی سب سے بڑا فرق ہے۔ ویسے اب کئی نئی آبادیاں بن گئی ہیں جو یوں تو لاہور کا حصہ ہیں نئے لاہور کا لیکن پرانے لاہور اور ان کے درمیان فرق واضح ہے اور شاید یہی فرق لاہور کی شان ہے۔
ایک شہر جو بظاہر دو رنگوں اور تہذیبوں میں تقسیم ہے لیکن شہر ایک ہی ہے زبان اور کلچر میں کوئی فرق نہیں۔ بس ٹریفک کے ذریعوں میں بہت فرق ہے جو سائیکل اور کسی مشینی سواری میں ہوتا ہے۔ پرانے لاہور میں صرف موٹر سائیکل نئی سواری ہے شہر کے ان راستوں پر موٹر کار نہیں چل سکتی۔ کئی ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے نئے لاہور میں گاڑیاں پارک کرنے کا بندوبست کر رکھا ہے جہاں سے وہ صبح اپنی گاڑیاں باہر نکال کر سڑک پر لے آتے ہیں اور رات کو پھر اس جگہ پارک کر دیتے ہیں کیونکہ ٹریفک پورے لاہور کا پرابلم ہے۔
جدید سواری کے بغیر گزارہ بھی نہیں اور اس کو استعمال کرنے کی سڑک بھی نہیں، تو یہ نئے زمانے اور جدید دور کا ایک بڑا پرابلم ہے۔ کبھی موٹر کار ایک پرابلم تھی اور اس کا حصول آسان نہیں تھا اب اس کا استعمال مشکل ہو گیا ہے جب کہ حصول اتنا مشکل نہیں رہا۔ بدلتے زمانے کے ان حالات کے ساتھ زندہ رہنا ہے اور یہی زندگی ہے۔