اسلام دینِ عدل و مساوات
اسلام ہی ایک ایسا دین ہے، جس کی الہامی کتاب قرآنِ مجید ہر قسم کے تغیر و تبّدل سے مبّرا ہے۔
اسلام ہی ایک ایسا دین ہے، جس کی الہامی کتاب قرآنِ مجید ہر قسم کے تغیر و تبّدل سے مبّرا ہے۔ فوٹو : فائل
اسلام ہی ایک ایسا دین ہے، جس کی الہامی کتاب قرآنِ مجید ہر قسم کے تغیر و تبّدل سے مبّرا ہے اور صدیاں گزرنے کے باوجود بھی اپنی اصل اور محفوظ حالت میں موجود ہے۔
اسلام دینِ فطرت اور ایک کامل دستورِ حیات ہے۔ اسلام ایک پُرامن اور مستحکم معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے، اس لیے ایسے تمام افعال و کردار کا تدارک کرتا ہے، جو معاشرے میں امن و استحکام قائم کرنے میں رکاوٹ بنیں۔ اور ایسے افعال و کردار اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے جن کی وجہ سے ایک پُرامن اور مستحکم معاشرہ وجود میں آئے۔ ایسے احکامات میں عدل و انصاف کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔
اسلام معاشرے کی اصلاح کا دعوے دار ہے اور معاشرتی برائیوں کا قلع قمع کرتا ہے۔ بے انصافی اور ظلم سے معاشرے تباہ و برباد ہوتے ہیں جب کہ عدل و انصاف سے معاشرہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہوتا ہے۔ اس لیے عدل و انصاف کے استحکام کو معاشرے میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔
اﷲ پاک کا ارشاد ہے ''اﷲ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو، اﷲ تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے، بے شک اﷲ سنتا، دیکھتا ہے۔'' (النساء:58)
عدل کا مطلب ہے حق دار کو حق دینا، برابر تقسیم کرنا، سیدھا کرنا، اور انصاف کا مطلب بھی نصف یعنی برابر تقسیم کرنا ہے۔ اصطلاحاََ عدل و انصاف ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ اسلام نے عدل کو عدوان، زیادتی اور ظلم کی ضد میں استعمال کیا ہے۔ صلاحیتوں کے مطابق کسی شخص کو معاشرے میں مقام دینا بھی عدل ہے۔ اگر کسی شخص کو معاشرے میں اس کی صلاحیتوں سے کم یا زیادہ ذمے داریاں دی جائیں تو وہ انہیں احسن طریقے سے سر انجام نہیں دے پائے گا، نتیجتاً معاشرہ تنزلی کا شکار ہوگا۔
اسلام اپنے پیروکاروں کو زندگی کی تمام جہتوں کے بارے میں مکمل راہ نمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام کے ظہور کا بنیادی مقصد معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام اور ناانصافی و قانون شکنی کا مکمل خاتمہ ہے۔ اس کے لیے قرآن و سنت میں واضح اور دوٹوک احکامات موجود ہیں۔ جب تک معاشرے میں قانون کی بالادستی اور عدل و انصاف کا آزاد اور خود مختار نظام قائم نہیں ہوگا، اُس وقت تک معاشرہ ترقی و خوش حالی اور فلاح کی راہ پر گام زن نہیں ہوسکتا۔
احکاماتِ خداوندی پر عمل پیرا ہونا ایک بہترین معاشرے کی ضمانت ہے۔ بے انصافی، رشوت سفارش اور اقرباء پروری کی وجہ سے معاشرے میں بے چینی اور بے اعتمادی کی فضا پیدا ہوتی ہے، قانون پر اعتماد ختم ہوجاتا اور سماجی و معاشرتی استحکام تہس نہس ہوجاتا ہے۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کئی مقامات پر عدل اختیار کرنے کی تاکید کی ہے۔
''بے شک اﷲ تعالی عدل اور احسان اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔'' (النحل:90)
'' (اے نبیؐ فرما دیجیے کہ) مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے ساتھ عدل کروں۔'' (شوریٰ: 15)
حدیثِ نبویؐ میں بھی عدل و انصاف کی بڑی تاکید آئی ہے۔ مثلاََ ''مجھے حکم دیا گیا ہے کہ خوشی اور ناراضی دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کروں''
'' انصاف کرنے والوں کو قربِ الہی میں نوری منبر عطا ہوں گے''
عدل و انصاف کو اسلامی معاشرے میں اساس کی حیثیت حاصل ہے۔ قانون سب کے لیے یک ساں اور معاشرے کے ادنیٰ ترین آدمی سے لے کر ریاست کے سربراہ تک سب پر یک ساں نافذ ہوتا ہے، اس میں کسی کے لیے امتیاز کی گنجایش نہیں ہے۔
ارشادِ رسالت مآبؐ ہے ''تم سے پہلی امتیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ وہ لوگ کم زوروں کو قانون کے مطابق سزا دیتے تھے اور طاقت وروں کو چھوڑ دیتے تھے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے اگر محمدؐ کی اپنی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں ضرور اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔'' (بخاری)
دینِ اسلام میں کسی کے لیے کوئی امتیاز نہیں ہے، تمام مسلمانوں کے حقوق بلاتفریق رنگ و نسل اور زبان و وطن برابر ہیں۔ کسی فرد، گروہ، طبقے یا نسل اور قوم کو امتیازی حقوق حاصل ہیں اور نہ کسی کی حیثیت کسی دوسرے کے مقابلے میں فروتر ہے۔
اقوام کی زندگی میں عدل و انصاف کو بڑی اہمیت حاصل ہے اس سے لوگوں میں اپنے حقوق کی سلامتی اور تحفظ کا احساس زندہ رہتا ہے اور انہیں مملکت کے استحکام اور بقا سے دل چسپی پیدا ہوتی ہے۔ اور وہ اس کے دفاع کے لیے جوش و خروش سے سرگرمِ عمل ہوجاتے اور اس کی ترقی کے لیے ہمہ وقت کوشش جاری رکھتے ہیں۔ لیکن جب یہ عدل و مساوات ختم ہوجائے اور قانون طاقت وروں اور بڑے لوگوں کے سامنے بے بس ہو اور کم زوروں کو دبانا شروع کردے، تو پھر لوگوں میں ناامیدی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور مملکت سے ان کی دل چسپی کم زور پڑجاتی اور اس کی بقا اور تباہی و بربادی کا خطرہ بھی ان کے اندر کوئی حرکت و عمل پیدا نہیں کرسکتا۔
اسلام میں عدل و انصاف کا دائرہ کار صرف عدالتوں تک محدود نہیں بل کہ زندگی کے ہر معاملے میں اس کی ضرورت ہے۔ دنیا کا نظام، عدل و انصاف کی وجہ سے قائم ہے۔ خرید و فروخت، لین دین اور ناپ تول میں بے انصافی نہیں ہونی چاہیے۔ اسی لیے عدل و انصاف کو کئی پہلوؤں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
٭ انفرادی عدل و انصاف
اپنی ذات کے ساتھ عدل و انصاف اختیار کرنا، بے حد اہم اور مشکل مرحلہ ہے کیوں کہ ہر شخص دوسروں کے درمیان تو انصاف کرسکتا ہے مگر جب واسطہ اپنی ذات سے ہو تو اس وقت انصاف کرنا اس کے ایمان کی آزمائش ہے۔ اس مرحلے پر اپنے ذاتی اغراض و مقاصد اور خواہشات کو نظر انداز کرنا اور عزیز و اقارب سے قطع نظر کرنا اور صحیح فیصلہ دینا پسندیدہ صفت اور اعلیٰ اخلاق ہے۔
٭ اجتماعی عدل و انصاف
ایسا انصاف جس کا تعلق معاشرے کے مختلف حصوں سے ہو، اجتماعی عدل کہلاتا ہے۔ اس کے بھی مختلف پہلو ہیں۔
٭ بیویوں کے درمیان عدل
اسلام نے مرد کو کئی معاشرتی وجوہ کی بنا پر ایک سے زاید بیویاں رکھنے کی اجازت تو دی ہے، لیکن اس کے لیے بھی بیویوں کے درمیان عدل کی شرط رکھی ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے
''اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تم ان کے درمیان انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کافی ہے۔'' (النساء:129)
رسول اکرمؐ کا ارشاد ہے ''جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کی طرف مائل ہو (اور دوسری کو نظر انداز کیے رکھے ) تو قیامت کے دن وہ اس حالت میں آئے گا کہ اس کے جسم کا ایک حصہ مفلوج ہوگا۔'' ( ترمذی)
٭ خرید و فروخت میں عدل
اگر کوئی مسلمان تجارت یا کاروبار کرتا ہو تو اس کے لیے حکم ہے کہ ناپ تول میں عدل اختیار کرے۔ اور چیزوں کو فروخت کرتے وقت اگر ان میں کوئی نقص ہو تو اس کو چھپانے کی کوشش نہ کرے بل کہ خریدار کو صاف طور پر بتا دے۔
حکم ربانی ہے ''انصاف کے ساتھ پورا پورا ناپ تول کیا کرو۔'' (الانعام: 152)
ناپ تول میں کمی بیشی کرنا یعنی لیتے وقت اصل سے زاید اور دیتے وقت کم دینا اور ڈنڈی مارنا، نہایت پست اور اخلاق سے گری ہوئی حرکت ہے۔ حضرت شعیبؑ کی قوم میں یہی اخلاقی برائی تھی جس کی وجہ سے وہ برباد ہوئی۔
٭ عدالتی معاملات میں عدل
یہ معاملہ سب سے اہم اور نازک ہے۔ کیوں کہ عدالتوں میں لوگ خصوصی طور پر عدل و انصاف کی امید لے کر جاتے ہیں۔ دستاویزات اور معاہدات کے بارے میں حکم ہے
''تمہارے درمیان ( معاہدہ ) لکھنے والا انصاف کے ساتھ لکھے۔'' (البقرۃ:282)
اس کے بعد شہادت اور گواہی کی باری آتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے ''شہادت کو نہ چھپاؤ''
''جب تمہیں شہادت کے لیے بلایا جائے تو انکار مت کرو۔'' (البقرۃ : 282)
اسی کے ساتھ یہ بھی حکم ہے کہ شہادت دو تو ہر قسم کے تعصب سے بلند ہوکر دو، خواہ وہ اپنے دوستوں، عزیزوں اور اقارب کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ حکم الہیٰ ہے ''جب تم کہو تو انصاف اختیار کرو، خواہ فریق مقدمہ سے رشتہ داری ہی ہو۔'' (انعام:152)
ہم سب مانتے ہیں کہ اسلام ایک ضابطۂ حیات ہے اور اس کی شان دار اور قابلِ عمل تعلیمات ہماری زندگی کے ہر شعبے کے لیے اسی قدر اور اتنی ہی مفید اور فائدہ مند ہیں، جتنی آج سے چودہ سو سال پہلے تھیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ ہم یہ جاننے اور ماننے کے باوجود ان پر عمل پیرا ہونے سے گریز کرتے ہیں۔۔۔؟ حالاں کہ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ان تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں ہمارا اپنا ہی فائدہ ہے۔ دعا ہے کہ خداوند کریم ہماری راہ نمائی فرمائے اور ہمیں ان روشن تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق فرمائے۔ آمین
اسلام دینِ فطرت اور ایک کامل دستورِ حیات ہے۔ اسلام ایک پُرامن اور مستحکم معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے، اس لیے ایسے تمام افعال و کردار کا تدارک کرتا ہے، جو معاشرے میں امن و استحکام قائم کرنے میں رکاوٹ بنیں۔ اور ایسے افعال و کردار اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے جن کی وجہ سے ایک پُرامن اور مستحکم معاشرہ وجود میں آئے۔ ایسے احکامات میں عدل و انصاف کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔
اسلام معاشرے کی اصلاح کا دعوے دار ہے اور معاشرتی برائیوں کا قلع قمع کرتا ہے۔ بے انصافی اور ظلم سے معاشرے تباہ و برباد ہوتے ہیں جب کہ عدل و انصاف سے معاشرہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہوتا ہے۔ اس لیے عدل و انصاف کے استحکام کو معاشرے میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔
اﷲ پاک کا ارشاد ہے ''اﷲ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو، اﷲ تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے، بے شک اﷲ سنتا، دیکھتا ہے۔'' (النساء:58)
عدل کا مطلب ہے حق دار کو حق دینا، برابر تقسیم کرنا، سیدھا کرنا، اور انصاف کا مطلب بھی نصف یعنی برابر تقسیم کرنا ہے۔ اصطلاحاََ عدل و انصاف ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ اسلام نے عدل کو عدوان، زیادتی اور ظلم کی ضد میں استعمال کیا ہے۔ صلاحیتوں کے مطابق کسی شخص کو معاشرے میں مقام دینا بھی عدل ہے۔ اگر کسی شخص کو معاشرے میں اس کی صلاحیتوں سے کم یا زیادہ ذمے داریاں دی جائیں تو وہ انہیں احسن طریقے سے سر انجام نہیں دے پائے گا، نتیجتاً معاشرہ تنزلی کا شکار ہوگا۔
اسلام اپنے پیروکاروں کو زندگی کی تمام جہتوں کے بارے میں مکمل راہ نمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام کے ظہور کا بنیادی مقصد معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام اور ناانصافی و قانون شکنی کا مکمل خاتمہ ہے۔ اس کے لیے قرآن و سنت میں واضح اور دوٹوک احکامات موجود ہیں۔ جب تک معاشرے میں قانون کی بالادستی اور عدل و انصاف کا آزاد اور خود مختار نظام قائم نہیں ہوگا، اُس وقت تک معاشرہ ترقی و خوش حالی اور فلاح کی راہ پر گام زن نہیں ہوسکتا۔
احکاماتِ خداوندی پر عمل پیرا ہونا ایک بہترین معاشرے کی ضمانت ہے۔ بے انصافی، رشوت سفارش اور اقرباء پروری کی وجہ سے معاشرے میں بے چینی اور بے اعتمادی کی فضا پیدا ہوتی ہے، قانون پر اعتماد ختم ہوجاتا اور سماجی و معاشرتی استحکام تہس نہس ہوجاتا ہے۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کئی مقامات پر عدل اختیار کرنے کی تاکید کی ہے۔
''بے شک اﷲ تعالی عدل اور احسان اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔'' (النحل:90)
'' (اے نبیؐ فرما دیجیے کہ) مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے ساتھ عدل کروں۔'' (شوریٰ: 15)
حدیثِ نبویؐ میں بھی عدل و انصاف کی بڑی تاکید آئی ہے۔ مثلاََ ''مجھے حکم دیا گیا ہے کہ خوشی اور ناراضی دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کروں''
'' انصاف کرنے والوں کو قربِ الہی میں نوری منبر عطا ہوں گے''
عدل و انصاف کو اسلامی معاشرے میں اساس کی حیثیت حاصل ہے۔ قانون سب کے لیے یک ساں اور معاشرے کے ادنیٰ ترین آدمی سے لے کر ریاست کے سربراہ تک سب پر یک ساں نافذ ہوتا ہے، اس میں کسی کے لیے امتیاز کی گنجایش نہیں ہے۔
ارشادِ رسالت مآبؐ ہے ''تم سے پہلی امتیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ وہ لوگ کم زوروں کو قانون کے مطابق سزا دیتے تھے اور طاقت وروں کو چھوڑ دیتے تھے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے اگر محمدؐ کی اپنی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں ضرور اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔'' (بخاری)
دینِ اسلام میں کسی کے لیے کوئی امتیاز نہیں ہے، تمام مسلمانوں کے حقوق بلاتفریق رنگ و نسل اور زبان و وطن برابر ہیں۔ کسی فرد، گروہ، طبقے یا نسل اور قوم کو امتیازی حقوق حاصل ہیں اور نہ کسی کی حیثیت کسی دوسرے کے مقابلے میں فروتر ہے۔
اقوام کی زندگی میں عدل و انصاف کو بڑی اہمیت حاصل ہے اس سے لوگوں میں اپنے حقوق کی سلامتی اور تحفظ کا احساس زندہ رہتا ہے اور انہیں مملکت کے استحکام اور بقا سے دل چسپی پیدا ہوتی ہے۔ اور وہ اس کے دفاع کے لیے جوش و خروش سے سرگرمِ عمل ہوجاتے اور اس کی ترقی کے لیے ہمہ وقت کوشش جاری رکھتے ہیں۔ لیکن جب یہ عدل و مساوات ختم ہوجائے اور قانون طاقت وروں اور بڑے لوگوں کے سامنے بے بس ہو اور کم زوروں کو دبانا شروع کردے، تو پھر لوگوں میں ناامیدی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور مملکت سے ان کی دل چسپی کم زور پڑجاتی اور اس کی بقا اور تباہی و بربادی کا خطرہ بھی ان کے اندر کوئی حرکت و عمل پیدا نہیں کرسکتا۔
اسلام میں عدل و انصاف کا دائرہ کار صرف عدالتوں تک محدود نہیں بل کہ زندگی کے ہر معاملے میں اس کی ضرورت ہے۔ دنیا کا نظام، عدل و انصاف کی وجہ سے قائم ہے۔ خرید و فروخت، لین دین اور ناپ تول میں بے انصافی نہیں ہونی چاہیے۔ اسی لیے عدل و انصاف کو کئی پہلوؤں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
٭ انفرادی عدل و انصاف
اپنی ذات کے ساتھ عدل و انصاف اختیار کرنا، بے حد اہم اور مشکل مرحلہ ہے کیوں کہ ہر شخص دوسروں کے درمیان تو انصاف کرسکتا ہے مگر جب واسطہ اپنی ذات سے ہو تو اس وقت انصاف کرنا اس کے ایمان کی آزمائش ہے۔ اس مرحلے پر اپنے ذاتی اغراض و مقاصد اور خواہشات کو نظر انداز کرنا اور عزیز و اقارب سے قطع نظر کرنا اور صحیح فیصلہ دینا پسندیدہ صفت اور اعلیٰ اخلاق ہے۔
٭ اجتماعی عدل و انصاف
ایسا انصاف جس کا تعلق معاشرے کے مختلف حصوں سے ہو، اجتماعی عدل کہلاتا ہے۔ اس کے بھی مختلف پہلو ہیں۔
٭ بیویوں کے درمیان عدل
اسلام نے مرد کو کئی معاشرتی وجوہ کی بنا پر ایک سے زاید بیویاں رکھنے کی اجازت تو دی ہے، لیکن اس کے لیے بھی بیویوں کے درمیان عدل کی شرط رکھی ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے
''اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تم ان کے درمیان انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کافی ہے۔'' (النساء:129)
رسول اکرمؐ کا ارشاد ہے ''جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کی طرف مائل ہو (اور دوسری کو نظر انداز کیے رکھے ) تو قیامت کے دن وہ اس حالت میں آئے گا کہ اس کے جسم کا ایک حصہ مفلوج ہوگا۔'' ( ترمذی)
٭ خرید و فروخت میں عدل
اگر کوئی مسلمان تجارت یا کاروبار کرتا ہو تو اس کے لیے حکم ہے کہ ناپ تول میں عدل اختیار کرے۔ اور چیزوں کو فروخت کرتے وقت اگر ان میں کوئی نقص ہو تو اس کو چھپانے کی کوشش نہ کرے بل کہ خریدار کو صاف طور پر بتا دے۔
حکم ربانی ہے ''انصاف کے ساتھ پورا پورا ناپ تول کیا کرو۔'' (الانعام: 152)
ناپ تول میں کمی بیشی کرنا یعنی لیتے وقت اصل سے زاید اور دیتے وقت کم دینا اور ڈنڈی مارنا، نہایت پست اور اخلاق سے گری ہوئی حرکت ہے۔ حضرت شعیبؑ کی قوم میں یہی اخلاقی برائی تھی جس کی وجہ سے وہ برباد ہوئی۔
٭ عدالتی معاملات میں عدل
یہ معاملہ سب سے اہم اور نازک ہے۔ کیوں کہ عدالتوں میں لوگ خصوصی طور پر عدل و انصاف کی امید لے کر جاتے ہیں۔ دستاویزات اور معاہدات کے بارے میں حکم ہے
''تمہارے درمیان ( معاہدہ ) لکھنے والا انصاف کے ساتھ لکھے۔'' (البقرۃ:282)
اس کے بعد شہادت اور گواہی کی باری آتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے ''شہادت کو نہ چھپاؤ''
''جب تمہیں شہادت کے لیے بلایا جائے تو انکار مت کرو۔'' (البقرۃ : 282)
اسی کے ساتھ یہ بھی حکم ہے کہ شہادت دو تو ہر قسم کے تعصب سے بلند ہوکر دو، خواہ وہ اپنے دوستوں، عزیزوں اور اقارب کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ حکم الہیٰ ہے ''جب تم کہو تو انصاف اختیار کرو، خواہ فریق مقدمہ سے رشتہ داری ہی ہو۔'' (انعام:152)
ہم سب مانتے ہیں کہ اسلام ایک ضابطۂ حیات ہے اور اس کی شان دار اور قابلِ عمل تعلیمات ہماری زندگی کے ہر شعبے کے لیے اسی قدر اور اتنی ہی مفید اور فائدہ مند ہیں، جتنی آج سے چودہ سو سال پہلے تھیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ ہم یہ جاننے اور ماننے کے باوجود ان پر عمل پیرا ہونے سے گریز کرتے ہیں۔۔۔؟ حالاں کہ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ان تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں ہمارا اپنا ہی فائدہ ہے۔ دعا ہے کہ خداوند کریم ہماری راہ نمائی فرمائے اور ہمیں ان روشن تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق فرمائے۔ آمین