تو پھر مردم شماری بھی ناٹو سے کروا لیں

دنیا کاکوئی کام ایسا نہیں جوکوئی نہ کرنےکی ٹھان لےاوروہ ہوجائے مگرکوئی مسئلہ ایسا نہیں جوحل کرنےکی نیت ہو اور حل نہ ہو

SYDNEY:
پاکستان میں جب تک کوئی بنیادی مسئلہ متنازع نہ ہو جائے زندگی کا لطف نہیں آتا۔ اب مردم شماری کے عمل کو ہی لے لیں۔ وہی پاکستان ہے جہاں انیس سو اکیاون، اکسٹھ، بہتر اور اکیاسی میں آرام سے مردم شماری ہو گئی۔ لیکن پھر شکوک و شبہات اور بدنیتی و سستی کے ناگ نے ڈسنا شروع کیا اور مردم شماری کا عمل بھی جو باقی دنیا میں ایک معمول کی ریاستی مشق ہے پاکستان میں ایک اور کالا باغ ڈیم ہو گیا۔ جب بنگلہ دیش بھی پاکستان کا حصہ تھا تب آبادی زیادہ ہونے کے باوجود مردم شماری میں کوئی دقت نہیں ہوئی مگر جب آبادی آدھی رہ گئی تو شک دو گنا ہو گیا۔

کچھ لوگ کہتے ہیں مردم شماری کا ہر دس برس بعد ہونا ایک آئینی ضرورت ہے۔ مگر پاکستان کے تناظر میں یہ مقدس اور طاقتور دلیل بھی بودی لگنے لگی ہے۔ آئین کی اور کتنی شقوں پر عمل ہو رہا ہے جو مردم شماری کی آئینی ذمے داری کا رونا رویا جائے۔ ( مثلاً آرٹیکل چھ، بنیادی حقوق، قانون کی نظر میں برابری، عقیدے کی آزادی، جبری مشقت، خواتین اور بچوں کے حقوق وغیرہ)۔

یقیناً مردم شماری کے عمل کو داغدار بنانے کے لیے کئی ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ بلکہ پہلی مردم شماری کے بعد جتنی بھی شماریاتی مشقیں ہوئیں ان میں کوئی بھی سو فیصد شفاف نہیں تھی۔ جس کا جہاں بس چلا اس نے جھرلو پھیرنے کی کوشش کی۔ مگر پاکستان میں تو سوائے ستر کے الیکشن کے آگے پیچھے جتنے بھی انتخابات ہوئے ان پر بھی سوالیہ نشان لگے ہوئے ہیں۔ تو کیا انتخابی عمل ہی روک دیا جائے؟

دنیا کا کوئی کام ایسا نہیں جو کوئی نہ کرنے کی ٹھان لے اور وہ ہو جائے۔ مگر کوئی مسئلہ ایسا نہیں جو حل کرنے کی نیت ہو اور حل نہ ہو۔ مشکل یہ ہے کہ ہم سب استاد اور عقلِ کل ہیں۔ لہذا باقی دنیا کے تجربات سے سیکھنے کا خیال بھی ہمیں انفرادی و اجتماعی توہین محسوس ہوتا ہے۔ جو قوم ہر مسئلے کو گنجلک بنانے کی ماہر ہے وہی قوم کسی مسئلے کو سیدھا کرنے سے معذور ہو۔ تعجب ہے۔

مردم شماری کوئی آج سے تھوڑا ہو رہی ہے کہ انہونی ہو۔ پہلی مردم شماری فراعنہِ مصر نے تینتیس سو چالیس قبلِ مسیح میں کروائی تھی۔ اسرائیلیوں نے حضرت موسی علیہ السلام کی قیادت میں مصر سے کنعان کی جانب ہجرت سے پہلے پہلے اپنے تمام مردوں، عورتوں اور بچوں کی گنتی کی۔

یونانیوں نے سولہ سو قبلِ مسیح سے خود کو گننا شروع کیا۔ ہندوستان میں پہلی مردم شماری چندر گپت موریا کے دور میں تین سو قبلِ مسیح کے لگ بھگ ہوئی اور نہ صرف انسانوں بلکہ پالتو جانوروں کی بھی گنتی ہوئی۔ سلطنتِ روم میں چھٹی صدی قبلِ مسیح میں تولیسس کے دور میں پہلی باقاعدہ مردم شماری ہوئی تا کہ تمام طبقات کی گنتی کر کے ان کے حقوق و فرائض کا تعین کیا جا سکے۔ چینیوں نے ہان خاندان کے دور میں سن دو قبلِ مسیح میں پہلی مردم شماری کی جس کا باقاعدہ دستاویزی ریکارڈ مرتب کیا گیا۔ وسطی امریکا کی ان کا سلطنت میں شہریوں اور غیروں کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا۔ بعد از اسلام پہلی مردم شماری خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ و تعالی عنہ کے دور میں ان تمام علاقوں میں ہوئی جو فتح ہو چکے تھے۔ بعد ازاں امویوں اور عباسیوں نے اس عمل کو جاری رکھا حتی کہ بارہویں صدی میں منگول مسلمان سلطنت نگل گئے۔

اگر دورِ جدید دیکھا جائے تو ڈنمارک میں سترہ سو ایک اور آئس لینڈ میں سترہ سو تین میں مردم شماری ہوئی۔ اس کے بعد دیگر یورپی سلطنتوں نے اسے اپنی داخلہ پالیسی کا باقاعدہ جزو بنا لیا۔ آج دنیا کے بیشتر ممالک میں ہر دس برس بعد مردم شماری ہوتی ہے۔ اقوامِ متحدہ بھی یہی سفارش کرتا ہے۔ مگر بعض ممالک مردم شماری کے اتنے شوقین ہیں کہ ہر پانچ برس بعد ہی بندے گن لیتے ہیں۔ جیسے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جاپان وغیرہ۔

کئی ممالک میں مردم شماری میں لمبے لمبے وقفے بھی آئے لیکن ان کی ٹھوس وجوہات ہیں۔ مثلاً لبنان انیس سو بتیس میں وجود میں آیا اور وہاں مردم شماری بھی ہوئی مگر پھر نہ ہو سکی کیونکہ ملک کی نسلی و مذہبی ہیت اس قدر آتش فشانی ہے کہ بغیر مردم شماری بھی دو خونریز خانہ جنگیاں ہو چکی ہیں۔ انیس سو بتیس کی مردم شماری کی بنیاد پر لبنان میں توازنِ طاقت کچھ یوں قائم ہوا کہ صدر مسیحی، وزیرِ اعظم سنی مسلمان اور اسپیکر شیعہ مسلمان ہو گا۔ سب ہی کو خدشہ ہے کہ اگر نئی مردم شماری میں فرقوں کی آبادی کا تناسب بدل گیا تو ایک اور خانہ جنگی ہو سکتی ہے لہذا تینوں فرقوں میں ایک غیر اعلانیہ انڈر اسٹینڈنگ ہے کہ معاملات کو بس چلنے دو۔

انگولا میں انیس سو ستر کے بعد دو ہزار چودہ میں مردم شماری ہوئی۔ کیونکہ سن ستر کے وسط میں پرتگال سے آزادی کے بعد انگولا طویل خانہ جنگی میں پھنس گیا اور پچھلے دس برس میں ہی وہاں ایک مرکزی حکومت کی گرفت مضبوط ہو پائی ہے اور بیرونِ ملک بھاگنے والے پناہ گزیں بھی واپس آ گئے ہیں۔ افغانستان میں انیس سو اسی کے بعد سے آج تک مردم شماری نہیں ہو سکی۔ وجوہات آپ جانتے ہیں۔

اگر ہم جنوبی ایشیائی ممالک کا جائزہ لیں تو مردم شماری کے معاملے میں سب ہی پاکستان سے بہتر ہیں۔ مثلاً بھارت میں اٹھارہ سو اکیاسی کے بعد سے آج تک ہر دس برس بعد مردم شماری ہو رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں پہلی مردم شماری انیس سو چوہتر میں اور دوسری سات برس بعد انیس سو اکیاسی میں اور اس کے بعد سے ہر دس برس بعد ہو رہی ہے۔ آخری مشق دو ہزار گیارہ میں ہوئی۔ نیپال میں طویل مسلح کیمونسٹ شورش اور سری لنکا میں چوتھائی صدی تک جاری رہنے والی تامل سنہالہ خانہ جنگی کے باوجود مردم شماری کا عمل نہیں رکا۔


اب آئیے پاکستان کی طرف جہاں انیس سو اکیاسی تک تو ہر دس برس بعد مردم شماری ہوتی رہی لیکن پھر انیس سو اکیانوے کے بجائے سترہ برس کے وقفے سے انیس سو اٹھانوے میں ہوئی۔ اس کے بعد دو ہزار آٹھ میں ہونی تھی جو سستی اور سیاسی نیت کے سبب نہ ہو پائی۔ جواز بنایا گیا کہ دہشتگردی کے سبب حالات سازگار نہیں۔ مگر یہ جواز بھارت کو کیوں نہیں سوجھا جہاں شمال مشرقی ریاستوں اور بہار، چھتیس گڑھ، جھاڑ کھنڈ اور آندھرا سمیت تینتیس فیصد بھارت دائیں بائیں بازو اور قوم پرست بغاوتوں کے سبب آج سے نہیں برسوں سے نو گو ایریا ہے۔ نیپال اور سری لنکا کو یہ جواز کیوں پسند نہ آیا؟

مردم شماری کسی بھی بہانے ٹلے نقصان عام آدمی کا ہی ہے۔ جب یہی نہیں معلوم ہو پائے گا کہ کس صوبے، شہر، قصبے، دیہات کی کتنی آبادی ہے اور اس میں مردوں، عورتوں، بچوں، جوانوں، بوڑھوں کی تعداد کیا ہے، کتنے خاندان ہیں اور کیسے کیسے گھروں میں رہتے ہیں اور ان کی آمدنی کیا ہے تو اقتصادی و بجٹ ترجیحات ہمیشہ گڑبڑ رہیں گی۔ نئی انتخابی حلقہ بندیاں نہ ہو پائیں گی۔ پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیوں اور بلدیات کی نشستیں محض فرضی تخمینے کی بنا پر بٹتی رہیں گی۔ ہر نسلی گروہ یہ فرض کر کے کہ وہ ہی عددی اعتبار سے سب سے بڑا ہے دوسروں پر دھونس جماتا رہے گا اور وسائل بھی بٹورتا رہے گا۔

اب کہا جا رہا ہے کہ مردم شماری کے لیے پندرہ ارب روپے بھی مختص ہو چکے ہیں۔ ایک لاکھ چھیاسٹھ ہزار سنسس بلاک بھی تشکیل پا چکے ہیں۔ شماریاتی عملے کی بھرتی اور تربیت ہو چکی۔ مگر جن پونے تین لاکھ فوجیوں کی حفاظتی ضرورت ہے وہ ڈیڑھ ماہ کے لیے ادھار نہیں مل پا رہے۔ فوجی قیادت صرف ایک لاکھ جوان دینے کو تیار ہے۔ اگر ہر شماریاتی حلقے میں کم از کم ایک فوجی بھی تعینات کیا جائے تو کم از کم ایک لاکھ چھیاسٹھ ہزار سپاہ درکار ہے اور ان کے انتظام و انصرام کے لیے بیس تا تیس ہزار جونیئر سینئر افسر بھی چاہیے ہوں گے۔

بلوچستان اور سندھ میں بالخصوص ہر نسلی و سیاسی و علاقائی گروہ اپنے بندوں کا زیادہ سے زیادہ اندراج کروا کے دوسرے کو نیچا دکھانا چاہتا ہے۔ نادرا کے جدید ترین فول پروف دستاویزی نظام کو جعلی شناختی کارڈوں کا مسئلہ درپیش ہے۔ اب تک ایک لاکھ چالیس ہزار مشکوک شناختی کارڈ بلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سے پینسٹھ ہزار صرف بلوچستان میں بلاک ہوئے۔ زیادہ تر افغان اور بنگالی پناہ گزینوں نے شناختی کارڈ بنوا رکھے ہیں چنانچہ مقامیوں کو خوف ہے کہ وہ بھی گنتی میں آجائیں گے اور ضم ہو جائیں گے۔

اقبال نے کہا تھا

جمہوریت اک طرز ِ حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

اقبال کے پاکستان میں تولنا تو درکنار بندے گننا بھی محال ہے۔

تو پھر کیا کریں؟ جس ملک میں کچرا اٹھانے کے ٹینڈر بھی چینی اور ترک کمپنیاں لے جائیں وہاں مردم شماری کے لیے ناٹو کے فوجی بلوائیں یا اقوامِ متحدہ کی سپاہِ امن کے لیے درخواست کریں؟ جو قوم خود کو ہی گننے سے خوفزدہ ہو اسے دوسروں کی خامیاں، کمزوریاں اور مسائل گننا کتنا آسان لگتا ہے؟

کیا دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات بھی انیس سو اٹھانوے کی مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے؟ اگر آبادی کو فرض ہی کرنا ہے تو انتخابی نتائج بھی فرض کر لیں تا کہ چار پیسے اسی بہانے بچ جائیں۔
Load Next Story