ایک نہیں چار چار

مولانا فضل الرحمن نے پنجابی مردوں پر ترس کھاتے ہوئے حکومت پنجاب کو برا بھلا کہا ہے

Abdulqhasan@hotmail.com

اعلیٰ حضرت مولانا فضل الرحمن نے پنجابی مردوں پر ترس کھاتے ہوئے حکومت پنجاب کو برا بھلا کہا ہے اور ایک بیان میں شوہروں کی حالت پر بہت دکھی ہو گئے ہیں اور کہا ہے کہ مجھے تو پنجابی شوہروں کی حالت پر رونا آ رہا ہے۔ اب وہ شوہر سے زیادہ بیویاں بن گئے ہیں بلکہ انھیں زن مرید کہنا زیادہ مناسب ہو گا کیونکہ نئے قانون نے شوہروں کو ان کے شوہری کے تاریخی شرعی منصب سے برطرف کر دیا ہے، لگتا ہے کہ میاں شہباز شریف اپنی 'شوہریت' سے بہت نالاں ہیں اور اپنی اس حالت کے خلاف صوبائی سطح پر انتقامی کارروائی کر رہے ہیں۔

جناب صاحبزادہ صاحب کی ان باتوں سے مجھے ان کے والد گرامی مرحوم و مغفور مولانا مفتی محمود صاحب یاد آ رہے ہیں۔ عرصہ ہوا جب نو جماعتوں کا مشہور اتحاد حکومت کے خلاف تحریک چلا رہا تھا تو مفتی صاحب اس کے ایک بڑے لیڈر تھے اور خواتین کا خیال تھا کہ اسلامی نظریاتی سیاسی جماعتوں کا یہ اتحاد خواتین کے حقوق کے خلاف ہے چنانچہ خواتین کے ایک وفد نے مفتی صاحب سے ملاقات کی اور ان کے سامنے شکایت پیش کی کہ ان کا اتحاد خواتین کے حقوق کے خلاف ہے۔

مرحوم مفتی صاحب نے ان کی اچھی طرح تسلی کر دی اور یہ سب اخبارات میں چھپ گیا۔ میں ان دنوں اپنے اخبار کے رپورٹنگ کے شعبے سے متعلق تھا چنانچہ میں مفتی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مفتی صاحب اپنے کسی مرید کے ہاں لاہور کے لوئر مال پر واقع مکان میں مقیم تھے۔ ان دنوں وہ اپنی سیاست پر بہت مطمئن تھے جب میں نے خواتین کے مطالبات کاذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ میں نے خواتین کی تسلی کی پوری کوشش کی ہے بلکہ ان سے کہا ہے کہ ہم تو خواتین کے پرستار لوگ ہیں اور ایک نہیں چار چار شادیاں کرتے ہیں لہٰذا آپ ہمیں خواتین کے حقوق کے خلاف کیسے سمجھ سکتی ہیں اس طرح خواتین کا یہ احتجاجی وفد اپنے مطالبات سمیت لطیفوں میں بدل گیا اور خوشی خوشی واپس چلا گیا۔

اس وقت کمسن صاحبزادے فضل الرحمن مفتی صاحب قبلہ کے آس پاس کہیں نظر نہیں آتے تھے ممکن ہے وہ کہیں کھیل کود سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے ورنہ وہ اگر سمجھدار ہوتے تو خواتین کو یاد دلا سکتے تھے کہ وہ تو ان کے تاریخی اور خاندانی حمایتی ہیں کیونکہ خواتین کو اس وقت کوئی شکایت نہیں بلکہ مردوں کو ہی کوئی شکایت ہو سکتی ہے جس کا ذکر مفتی صاحب زور و شور سے کر رہے ہیں، پنجاب کے وزیراعلیٰ کو اپنے گھر کا خادم اعلیٰ کہہ رہے ہیں اور مردوں کو اب بااختیار 'بیوی' کا درجہ دے رہے ہیں کیونکہ اس نئے قانون کے مطابق مرد تو گھر سے نکالے بھی جا سکتے ہیں کہ اب گھر والا بدل دیا گیا ہے اور اس کے اختیارات نصف بہتر کو منتقل ہو چکے ہیں۔ ابھی آغاز ہے اور خواتین کی طرف سے ردعمل سامنے نہیں آیا۔

جب خواتین بولیں گی تو پھر نئی بحث شروع ہو گی جو پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ آج کی خواتین قومی اتحاد کے زمانے کی خواتین کے مقابلے میں ہر لحاظ سے برتر ہیں بلکہ اب تو وہ ہر سیاسی جماعت میں کسی اہم پوزیشن پر بھی ہیں بلکہ سچ بات تو یہ ہے کہ بعض بڑے لیڈر اپنی گوناگوں شادیوں اور پھر طلاقوں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ پہلے وہ صرف سیاسی لیڈر تھے اب وہ سیاسی لیڈروں کے سابق شوہر بھی ہیں اور ان کی کئی مطلقہ جات سیاست اور معاشرت میں بڑا نام رکھتی ہیں اور ان سیاسی لیڈروں کی پہچان بھی ہیں۔ شادی اور سیاست کا یہ ملاپ نہایت کار آمد ثابت ہوا ہے۔ اب کچھ اور باتیں۔


ایک عبرت ناک خبر ملی ہے کہ سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ حالات کو اب تک سمجھ نہیں پائے اور اپنی پرانی روش پر ہی چلے جا رہے ہیں جب کہ ان کا صوبہ ان سے کئی اہم مطالبات رکھتا ہے۔ شاہ صاحب قبلہ شاہ عبدالطیف یونیورسٹی کے 8ویں سالانہ کانووکیشن کی تقریب میں شرکت کے لیے تشریف لے گئے اور خیر پور پہنچے تو ان کے پروٹوکول میں 25سرکاری اور تین غیر سرکاری گاڑیاں شامل تھیں۔ حفاظتی انتظامات ایسے زبردست تھے کہ ایک ہزار سے زائد پولیس اہلکار ڈیوٹی پر تعینات تھے۔

حیرت ہوئی ہے کہ ہمارے سیاستدان اور حکمران یا تو ناسمجھ ہیں یا پھر بے حس ہیں کہ صوبائی وزیراعلیٰ مسائل سے بھرے ہوئے صوبے کے حالات اور مسائل کی پروا کیے بغیر اپنے پروٹوکول کے چکر میں ہیں۔ کچھ ہی پہلے سندھ کے صوبے ہی کے بے تاج بادشاہ بلاول کے پروٹوکول اور حفاظتی انتظامات میں ایک بچی اسپتال نہ پہنچ سکی اور باپ کی باہوں میں ہی دم توڑ گئی لیکن شاہ صاحب کو نہ یہ سندھی بچی یاد ہے اور نہ ہی اس سارے المیے کا کچھ احساس ہے۔ آخر ہمارے لیڈر جو اس جمہوری ملک کے لیڈر ہیں اس ملک سے اور کیا چاہتے ہیں۔

نااہل اور معمولی سوجھ بوجھ کے لیڈروں کو صوبوں کی حکومتیں مل گئی ہیں۔ وہ ارب پتی بن گئے ہیں اور ان کی زندگیاں سیاسی لیڈروں کی طرح نہیں بادشاہوں کی طرح گزر رہی ہیں۔ یہ سب کچھ انھیں اس ملک نے دیا ہے مگر ان کا احساس مردہ ہوچکا ہے اور انسانی ہمدردی کا جذبہ مر چکا ہے کہ وہ بے معنی پروٹوکول سے باز نہیں آئے اور آمرانہ انداز میں زندگی بسر کر رہے ہیں، شاید کوئی وقت آجائے جب ان سے یہ قوم اپنی حق تلفیوں کی باز پرس کرے اور وہ لاجواب ہو کر سزا پائیں۔

میں ذات پات کا قائل نہیں ویسے میری برادری میں نام کے ساتھ ذات برادری کے ذکر کا رواج بھی نہیں، ایک صاحب نے بار بار فون پر کہا ہے کہ صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ جھگڑا صاحب ذات کے اعوان ہیں۔ میں نے تو اپنے نام کے ساتھ کبھی اعوان نہیں لکھا لیکن کسی طرح کرمفرماؤں کو پتہ چل جاتا ہے کہ میری ذات برادری کیا ہے۔

ویسے میرے مرحوم بھائی میاں سلطان اپنے نام کے ساتھ اعوان لکھتے بولتے تھے اور ان کی ٹرانسپورٹ بھی اعوان ایکسپریس کہلاتی تھی لیکن ہمارے ایک لیڈر ملک کرم بخش اعوان ہمیشہ اعوان لکھنے پر بضد رہے اور اپنے قبیلے کو پرانے کلاسیکل معروف نام 'اعوان قاری' سے یاد کرتے رہے۔ انھوں نے ایک بار مجھے بتایا کہ پشاور شہر میں ہر کونسل کا چیئرمین اعوان ہے۔ صوبہ سرحد میں آباد یہ پہلے اعوان تھے جو غزنوی کے کسی حملے میں ان کے ساتھ آئے تھے اور دور دور تک پھیل گئے تھے مگر ان کا پہلا پڑاؤ پشاور تھا۔ اس سے آگے وہ وادی سون تک پہنچ کر تھک گئے اور یہیں مستقل پڑاؤ کر لیا۔ یہ علاقہ سر سبز اور ان کی پسند کا تھا۔ پہاڑوں کے رہنے والے وادی سون کے پہاڑوں میں مقیم ہو گئے۔

پشاور سے باہر نکلے تو راستے میں آباد ہوتے چلے گئے کیونکہ ان کا اصل علاقہ تو افغانستان کے قریب تھا لیکن ہندوستان میں ان کا پہلا قدم صوبہ سرحد میں پڑا پھر سر سکندر حیات کے واہ اور اس سے آگے جہاں بھی گئے اپنا نقش بٹھاتے گئے ۔گولڑہ کا قصبہ ان کا تھا اور وادی سون سے پہلے کے اضلاع تلہ گنگ چکوال وغیرہ میں ان کی اکثریت ہے۔ وہ ان راستوں سے گزر کر وادی سون میں پہنچے جو ان کی پسند کا علاقہ تھا۔ اس وقت مزید کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں، ایک قاری کی ضد کے جواب میں یہ سب لکھ دیا۔
Load Next Story