رسولِ اکرمؐ مجسّمِ عفو و درگزر

آپؐ نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا، کسی کو سزا نہیں دی

آپؐ نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا، کسی کو سزا نہیں دی:فوٹو : فائل

WASHINGTON:
دشمن کو معاف کرنا، اسے اپنے سینے سے لگانا، اس کے بُرے عزائم کو بھول جانا، اس کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آنا، اسے اپنا گرویدہ بنالینا، اپنا مقصد اس کے سامنے رکھ کر اسے اس کی طرف مائل کرنا، اسے زندگی گزارنے کے سچے اور حقیقی اصول بتانا، اسے دنیا میں بھی کام یابی کے راستے کی طرف لے کر جانا اور آخرت میں بھی کام یابی کے طور طریقے بتانا، یہ اس عظیم ہستی کا کام تھا جنہیں اﷲ پاک نے رحمۃ للعالمینؐ بناکر بھیجا۔ جس نے ظلم و ستم کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کو روشنی میں بدل دیا۔

کفر و شرک کی طنابیں اکھاڑ پھینکیں، صنم خانوں کی بنیادیں ہلادیں، سسکتی انسانیت کو نئی زندگی عطا کی، پریشان دل کو راحت و سکون بخشا اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو صراطِ مستقیم دکھایا۔ اس عظیم ہستی کا نام نامی اسم گرامی نبی مکرم محمد ﷺ ہے۔ اﷲ رب العزت نے آپؐ کو ساری دنیا کے لیے معلم بنا کر بھیجا۔ اﷲ نے رسول اکرمؐ کو کامل بناکر مبعوث فرمایا اور آقاؐ نے تما م شعبہ ہائے حیات کی طرف اپنی امت کی مکمل راہ نمائی فرمائی۔ رحم و کرم، جود و سخا، ایثار و قربانی، معاملات و معاشرت، ایفائے عہد و پیمان، خوش اخلاقی و خوش گفتاری، سادگی و غم خواری، عجز و انکساری، انصاف و مساوات، صبر و قناعت اور عفو و تحمل کا وہ درس دیا، جس کی نظیر رہتی دنیا تک کوئی پیش نہیں کر سکتا۔

آئیے رحمۃ للعالمینؐ کے ساتھ پیش آنے والے چند دل سوز حادثات پر نظر ڈالتے ہیں اور آپؐ کا ردعمل بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان حالات میں نبی کریمؐ نے کیسے صبر و تحمل کا اظہار فرمایا اور دشمنوں کو بھی اپنے مبارک سینے کے ساتھ لگایا۔ کیوں کہ اصل طاقت برداشت کرنے میں ہے انتقام لینے میں نہیں۔

قاتلِ حضرتِ زینبؓ ،ہبار بن اسود
رسول کریمؐ کی نورِ نظر، راحتِ قلب و جگر حضرت زینبؓ اونٹ پر سوار ہوکر مدینہ کی طرف ہجرت فرما رہی تھیں۔ راستے میں ہبار بن اسود نے حضرت زینبؓ پر نیزہ اس شدت سے مارا کہ وہ کجاوے سے گرگئیں، جس کی وجہ سے آپؓ کا حمل بھی ساقط ہوگیا اور اسی حادثے ہی کی وجہ سے آپؓ اﷲ کو پیاری ہوگئیں۔ جب مشفق والد مکرم محسنِ امتؐ تک یہ اندوہ ناک خبر پہنچی تو آپ انتہائی رنجیدہ ہوئے۔ اس کے بعد جب بھی حضرت زینبؓ کی یاد آتی، آپؐ کا رخِ انور سرخ ہوجاتا۔ لیکن جب قاتلِِ زینبؓ ہبار بن اسود نے اسلام قبول کرلیا اور آپؐ سے معافی مانگی تو آپؐ نے فراخ دلی سے اسے معاف فرما دیا۔

قاتلِِ حضرت حمزہؓ ،وحشی بن حرب
اسلامی تاریخ کا ایک بد ترین حادثہ سیدالشُہدا حضرت حمزہؓ کی شہادت ہے۔ وحشی بن حرب نے آپؐ کے سب سے چہیتے چچا حضرت حمزہؓ کو شہید کرڈالا تھا۔ یہی وحشی بن حرب جب مشرف بہ اسلام ہوئے تو وہ اپنے وحشیانہ عمل کی معافی کے لیے دربار نبوتؐ میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ مجھے معاف کردیا جائے۔ آپؐ نے فرمایا، وحشی! پہلے بتاؤ! میرے چچا کو کس طرح تم نے شہید کیا تھا۔۔۔ ؟ جب وحشی نے واقعہ سنایا تو آپؐ کی آنکھیں نم اور چہرہ سرخ ہوگیا۔ پھر آپؐ نے فرمایا، وحشی تمہارا قصور معاف ہے، لیکن تم میرے سامنے نہ آیا کرو، تمہیں دیکھ کر میرے پیارے چچا جان یاد آجاتے ہیں۔

اہلِ طائف کی سنگ دلی

طائف کی سنگلاخ زمین میں آپؐ دین اسلام کے پُھول کھلانے کے لیے تشریف لے گئے تو مشرکین و کفار نے آپؐ پر اتنے پتھر برسائے کہ نعلینِ مبارک خون سے تر بہ تر ہوگئے، آپؐ کے لیے چلنا دشوار ہو رہا تھا، بالاخر فرشتہ حاضر ہوا اور عرض کی، یارسول اﷲ ﷺ! اگر حکم ہو تو ان دونوں پہاڑوں کو ملادوں اور ان ناہنجاروں کو صفحۂ ہستی سے مٹادوں۔ آپؐ نے فرمایا، مجھے امید ہے ان کی آئندہ نسلوں میں ایسے افراد پیدا ہوں گے جو خالص اﷲ کی عبادت کریں گے، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ (بخاری و مسلم)

جادو کرنے والا اور زہر دینے والی
لبید بن اعصم نے آپؐ پر جادو سے وار کیا۔ آپؐ کو اﷲ نے سب کچھ بتادیا، مگر آپؐ نے اس کی گرفت نہیں کی۔ اسی طرح خیبر میں ایک یہودن نے آپؐ کو زہر دے کر مارنے کی کوشش کی، مگر آپ نے اس سے انتقام نہیں لیا۔

یومِ فتح مکہ اور درگزر کا بے مثال کارنامہ
فتح مکہ کے دن وہ سارے مجرمین آپؐ کے سامنے سرنگوں ہیں جنہوں نے آپؐ کو، آپؐ کے اہل خانہ کو ، صحابہ کرامؓ کو اور کم زور مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھائے تھے۔ وہ ابوسفیان بھی ہے جس نے غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق کی لڑائیوں میں کفار و مشرکین کی قیادت کی تھی، اور نہ جانے آپؐ کو کتنی ہی مرتبہ تہہ تیغ کرنے کی ناپاک جسارت کی تھی۔ آپؐ چاہتے تو ہر مجرم سے بدلہ لے سکتے تھے، اگر چاہتے تو مکہ کی گلیوں میں خون کی ندیاں بہادیتے، مگر قربان جائیے کہ آپؐ نے فرمایا، جاؤ! آج تم سب آزاد ہو، آج کسی سے کسی طرح کا بدلہ نہیں لیا جائے گا، جو ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے گا آج اس کو بھی امن، جو ہتھیار ڈالے گا اس کو بھی امن اور جو دروازہ بند کر لے گا اس کو بھی امان ہے۔

ان تمام واقعات و حادثات کو دیکھیں کہ آپؐ میں عفو و تحمل کی کتنی قوت تھی۔ دنیا میں کون ہے جو اپنی لاڈلی بیٹی کے قاتل کو فراخ دلی سے معاف کردے۔۔ ؟ کون ہے جو شیرِاسلام اور اپنے مشفق چچا کے قاتل سے درگزر کر دے۔۔ ؟ کون ہے جو پتھروں سے لہولہان کرنے والوں کو بخش دے۔۔ ؟ کون ہے جو موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے زہر دینے والے سے انتقام نہ لے۔۔ ؟ کون ہے جو ہلاک کرنے کی کوشش کرنے والے کو اف تک نہ کہے۔۔ ؟ کون ہے جو دشمن سے آسانی کے ساتھ بدلہ لینے کی طاقت و قدرت کے باوجود بدلہ نہ لے۔۔ ؟

آپؐ نے عفو و تحمّل کا وہ نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا، جو رہتی دنیا تک مثال رہے گا۔ آپؐ نے فرمانِِ خداوندی کے اس قول پر مضبوطی سے عمل کر کے دکھایا کہ معاف کرنے کی عادت اپناؤ، نیکی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ نہ لگاؤ (الاعراف)

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں، اﷲ کی قسم! رسول اﷲ ﷺ نے اپنے ذاتی معاملے میں کبھی کسی کو سزا نہیں دی، لیکن جب اﷲ کی حدود کو کوئی توڑتا تو آپؐ اس کو اﷲ تعالی کے فرمان کی وجہ سے سزا دیتے تھے۔ (بخاری شریف)

ہم غلامانِ نبی اکرمؐ کو چاہیے کہ اپنے اندر وہ تمام صفات پیدا کریں جو محبوبؐ میں تھیں۔ خصوصاً قوتِ عفو و تحمل اور اخلاقِ حسنہ کہ یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ اپنوں کے ساتھ تو انسان اچھائی کرتا ہی ہے لیکن دشمنوں کے ساتھ اگر عفو و درگزر کا معاملہ کیا جائے تو یہ اعلیٰ خوبی ہے۔ آج کے اس دور میں برداشت اور صبر و تحمل کی اشد ضرورت ہے۔
Load Next Story