بے حس معاشرہ

حقوق انسانی کے فعال کارکنوں کا کردار یقیناً قابل تعریف ہے،جنھیں...

کلدیپ نائر

LONDON:
افغانستان کے دارالحکومت کابل کے شمال میں واقع صوبہ پروان میں ایک بندوق بردار نے ایک عورت کو گولی مار کر ہلاک کر دیا اور وحشت انگیز مجمع خوشی سے نعرے لگاتا رہا۔ طالبان نے اسے اپنی خود ساختہ عدالت میں بدکرداری کا مرتکب قرار دیا تھا۔ لیکن سیکڑوں خواتین نے اس افسوسناک واقعے کے خلاف احتجاج کیا اور قتل کی جانے والی عورت کی حمایت میں بازاروں میں نکل آئیں۔ تقریباً اسی وقت میں اور بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے تقریباً اتنے ہی فاصلے پر یو پی میں مسلمانوں کے ایک گائوں میں عورتوں کو طالبان طرز کا حکم نامہ جاری کیا گیا کہ کسی ہمراہی کے بغیر بازار مت جائیں' موبائل فون استعمال نہ کریں اور محبت کی شادی نہ کریں۔

لیکن یہاں کوئی احتجاج نہیں ہوا حتٰی کہ سیاستدانوں نے بھی چپ سادھے رکھی۔ یہی نہیں بلکہ 35 پنچایتوں پر مشتمل ایک ''کھاپ'' نے متذکرہ فرمان کی توثیق بھی کر دی جب کہ سپریم کورٹ اس ''کھاپ'' کے خلاف کسی کارروائی کی خواہشمند ہے۔ گوہاٹی میں اس سے کہیں زیادہ دھچکا پہنچانے والا ایک اسکینڈل ہوا جہاں ایک سترہ سالہ لڑکی سے برسرعام دست درازی کی گئی۔ ایک مقامی ٹیلی ویژن چینل اس وقوعہ کی سارا دن فوٹیج چلاتا رہا۔ لیکن جب اس چینل کے ایڈیٹر اور رپورٹر کی اس واقعے میں سازباز کا انکشاف ہوا تو ان دونوں کو استعفیٰ دینا پڑا۔

پولیس نے کارروائی کرنے میں دیر کر دی اور وزیراعلیٰ ترون گگوئی نے بھی کوئی اقدام نہ کیا۔ قومی کمیشن برائے خواتین بھی دہلی میں سویا رہا تا آنکہ میڈیا نے اس کی لاتعلقی پر انگلی نہ اٹھائی جب کہ سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کا ماہرین تعلیم کے مطالبے پر محض تبادلہ کر دینا ہی کافی سمجھ لیا گیا۔

اس بات کو بھی ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب پونے میں اخلاقیات کے خود ساختہ محافظوں نے لڑکیوں سے کہا تھا کہ وہ جینز نہ پہنا کریں۔ ممبئی میں اسی قسم کی ایک تنظیم نے عورتوں پر مے خانوں میں جانے پر پابندی لگا دی۔ آسام میں قانون ساز اسمبلی کی ایک خاتون رکن کو نہایت بے رحمی کے ساتھ مارا پیٹا گیا کیونکہ اس نے ایک مسلمان سے شادی کر لی تھی۔ ایک نو سالہ لڑکی اس وقت ہلاک ہو گئی جب کارپوریشن کا انتخاب جیتنے والے ایک ممبر نے اپنی کامیابی کی خوشی میں اندھا دھند فائرنگ کر دی۔

یہ تمام واقعات ممکن ہے آپس میں لاتعلق لگیں کیونکہ یہ افغانستان سے خاصے فاصلے پر وقوع پذیر ہو ئے ہیں مگر غیر ذمے داری اور بے رحمی کے حوالے سے ان کا انداز ویسا ہی ہے جس نے طالبان کو دیگر دہشتگردوں سے نمایاں کر دیا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنی بے رحمی کو بے مثال بنانا چاہتے تھے۔

بھارتی سول سوسائٹی جو کہ قوم کا سوچ بچار کرنے والا طبقہ ہے بالکل چپ سادھے ہے۔ اس کی ناراضگی کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، چہ جائیکہ اس کی طرف سے احتجاج کیا جاتا۔

عام لوگ اپنے کندھے جھٹک کر سارا الزام حکومت پر تھوپ دیتے ہیں۔ اشرافیہ اس قسم کے واقعات کا اپنے ڈرائنگ روم میں تذکرہ نہیں کرتی مبادا وہ بہت قیمتی لباس پہننے بہت پیٹ بھر کھانا کھانے والے طبقے کا موڈ خراب نہ کر دے۔ میڈیا بعض واقعات کی خبر دیتا ہے مگر ان کا فالو اپ نہیں دیتا سوائے ارنب گوسوامی کے جو انتھک طور پر اس قسم کے وحشت ناک واقعات کو بے نقاب کرتا رہتا ہے اور پھر ان کا پیچھا بھی کرتا ہے۔


شیوسینا نے دسمبر میں ہونے والی پاک بھارت کرکٹ سیریز کی مخالفت کر کے ایک بار پھر اپنے پرانے تعصب کی غماضی کی۔ یہ تنظیم بھی کسی دوسری بنیاد پرست تنظیم کی طرح ہی ہے جو کہ امن و امان کی فضا کو مکدر کرنے پر تلی رہتی ہیں۔ اس قسم کی بعض دیگر تنظیمیں اور افراد بھی ممکن ہے پاک بھارت کرکٹ رابطوں کی بحالی پر بہت مخالفانہ ردعمل ظاہر کریں۔ دونوں ملکوں کے ریٹائرڈ کھلاڑیوں کو ان عناصر کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے جو اس مجوزہ سیریز کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حالانکہ اس سیریز کے حوالے سے ممکن ہے کہ پاکستانی حکام 26/11 کی عدالتی کمیشن کی رپورٹ کے عدالت کی طرف سے مسترد کیے جانے کے مسئلے پر بیٹھ کر غوروخوض کر سکیں۔ اصل المیہ یہ ہے کہ صحیح سوچ والے لوگ خاموش رہتے ہیں اور سب کچھ حکومت پر چھوڑ دیتے ہیں جس کی اپنی ترجیحات کچھ اور ہوتی ہیں۔جو سوال بھارت والوں کو پوچھنا چاہیے وہ ہے: کیا سول سوسائٹی اتنی بے دم ہو چکی ہے اور اس کو ڈر ہے کہیں خود اسی کو ہدف نہ بنا لیا جائے یا وہ طالبان طرز کے کلچر کا نشانہ بن چکی ہے جہاں صحیح اور غلط اور اخلاقی اور غیراخلاقی کے درمیان جو باریک سا خط امتیاز ہوتا ہے وہ مٹ جاتا ہے؟ اس سوال کا جو بھی جواب ہو بنیاد پرست الزام سے نہیں بچ سکتے۔

وہ مذہب کے نام پر نوجوانوں کی برین واشنگ کر رہے ہیں جس کے جواب میں وہ پورے معاشرے کو یرغمال بنا لیتے ہیں حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جو محسوس کرتے ہیں کہ عورتوں پر ظلم ہو رہا ہے یا ان سے امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے وہ بھی چپ رہتے ہیں مبادا وہ بنیاد پرستوں کی نگاہوں میں ناپسندیدہ نہ قرار پائیں۔ ان کو کسی مولوی' کسی پنڈت یا کسی گرنتھی کے ساتھ اس مسئلہ پر بات کرنے کی جرات ہی نہیں ہوتی۔سول سوسائٹی دنیا بھر میں قوم کے ضمیر کی نمایند گی کرتی ہے۔

یہ درست ہے کہ اس کے اپنے ذاتی شکوک و شبہات بھی ہوتے ہیں لیکن وقت آنے پر یہ اپنا دبائو ضرور ڈالتی ہے۔ اگر وہ ایسے مواقع پر کوئی ٹھوس موقف اختیار نہ کرے اور سچ اور جھوٹ کو ممیز نہ دے تو اس سے پورے معاشرے کا نقصان ہوتا ہے اور صرف غلط کاروں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اس کی خاموشی معاشرے کا خسارہ ہے۔میں نے دیکھا کہ سالہا سال سے سول سوسائٹی خاصی بے حسی کا شکار ہو چکی ہے حتیٰ کہ ایک زمانے میں کسی چھوٹی سی غلطی سے پورے معاشرے میں اضطراب پیدا ہو جایا کرتا تھا لیکن اب اسے کوئی پرواہ ہی نہیں اور یوں لگتا ہے ظلم و ستم ہماری زندگی کا حصہ بن کر رہ گیا ہے۔

جب کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی ہوتی تھی تو معاشرے کا ایک طبقہ اس کے خلاف آواز بلند کرتا تھا لیکن اب لوگ چپ سادھ کر بیٹھ جاتے ہیں حالانکہ انھیں ہمہ وقت میدان میں رہنا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ حکومت کو زیادہ چوکس ہونا چاہیے اور فوری کارروائی کرنی چاہیے لیکن اب حکومت اس وقت تک کچھ کرتی نظر نہیں آتی جب تک پانی سر سے نہیں گزر جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ قانون کی پابندی کے بجائے قانون شکنی کے مظاہر زیادہ نظر آتے ہیں۔

مارٹن لوتھر کنگ نے کہا تھا: جس دن تم دیکھو کہ سچ کو چیلنج کیا جا رہا ہے مگر آپ اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے تو یہ وہ دن ہوتا ہے جب آپ مرنا شروع کر دیتے ہو۔ لیکن ایک ایسا معاشرہ جو ہر جائز و ناجائز طریقے سے صرف روپیہ کمانے کی دُھن میں مگن ہو اس سے اتنی بڑی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ تاہم یہ ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ جمہوری معاشرے کی بنیادی اخلاقیات کا تحفظ کرے۔ ہر مرد و زن کو چوکس ہونا چاہیے اور تھوڑی بہت قربانی کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔ اگر ہمیں حق اور سچ کی پہچان نہیں ہو گی اور ہمارے اندر اس کے تحفظ کا جذبہ نہیں ہو گا تو معاشرے سے غلط کی پہچان بھی اٹھ جائے گی۔

حقوق انسانی کے فعال کارکنوں کا کردار یقیناً قابل تعریف ہے۔ یہ لوگ ملک بھر میں ہزاروں کی تعداد میں ''گراس روٹ'' کی سطح پر کام کر رہے ہیں جنھیں نہ صرف یہ کہ انتہا پسندوں کے غیظ و غضب کا نشانہ بننا پڑتا ہے بلکہ حکام کی طرف سے بھی انھی کو دبائو کا شکار بنایا جاتا ہے۔

فعال کارکنوں کی ناکامیوں کے مقابلے میں ممکن ہے ان کی کامیابیاں بہت محدود ہوں، مگر قوم کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے کیونکہ سول سوسائٹی ان کی احساس مند ہے۔ جب کہ حکومت کے تعاون سے چلنے والی تنظیمیں صرف ان سیاسی پارٹیوں کی طرفدار ہوتی ہیں جو ان کا تقرر کرواتی ہیں۔ سچ راہ حق سے بھٹک چکا ہے۔ اب صرف کارکن ہی صورتحال کو درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کی کامیابی بہت کم ہے۔ سول سوسائٹی کو باآواز بلند اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story