بالآخر پاک بھارت کرکٹ ایشو طے ہو گیا

پاکستانی کرکٹ ٹیم کا بھارت پہنچ جانا دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک اہم پیش رفت ہے

پاکستان کی حکومت بھارتی ٹیم کو کم ازکم ایک دو شہروں میں تو سیکیورٹی فراہم کر سکتی ہے۔ فوٹو؛ فائل

پاکستان کرکٹ ٹیم کے آئی سی سی ورلڈ کپ ٹی ٹوئنٹی چیمپئن شپ میں شرکت کے لیے بھارت جانے کا معاملہ کافی رد و کد کے بعد پاکستانی ٹیم کی سیکیورٹی کی ٹھوس یقین دہانی ملنے پر حل ہو گیا ہے اور پاکستانی ٹیم گزشتہ روز براستہ ابوظہبی بھارت کے شہر کولکتہ پہنچ گئی ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے جمعہ کو ہی پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو کرکٹ ٹیم بھارت بھجوانے کی اجازت دے دی تھی۔

اس سے قبل انھوں نے سعودی عرب میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے بات کی اور انھیں بھارتی حکام کی طرف سے پاکستانی ٹیم کی سیکیورٹی کی ضمانت ملنے کے بارے میں مطلع کیا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کا بھارت پہنچ جانا دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک اہم پیش رفت ہے اور اگر پاکستانی ٹیم کی وہاں موجودگی میں بھارت کی انتہا پسند عناصر کوئی زیادہ منفی کردار ادا نہیں کرتے تو تعلقات کے معمول پر آنے کی توقع کی جا سکے گی۔

جمعرات کے دن وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ بھارت کی طرف سے پاکستانی ٹیم کی فول پروف سیکیورٹی کی واضح الفاظ میں ضمانت ملے بغیر ٹیم وہاں نہیں بھیجی جائے گی۔ وزارت داخلہ کے ترجمان کے مطابق چوہدری نثار علی خان نے دو مرتبہ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط سے رابطہ کیا جنھوں نے بتایا کہ بھارتی سیکریٹری داخلہ نے انھیں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی سیکیورٹی کی یقین دہانی کرا دی ہے۔

بعد ازاں وزیر داخلہ سے پی سی بی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی نے ملاقات کی جب کہ اس سے قبل پی سی بی کے چیئرمین شہریار خان نے وزیر داخلہ کو کرکٹ ٹیم کے ارکان کے دورہ بھارت کے حوالے سے خیالات سے آگاہ کیا۔ یوں بھارتی حکام سے پاکستانی ٹیم کی سیکیورٹی کی یقین دہانی حاصل ہونے کے بعد حکومت نے پاکستان کرکٹ ٹیم کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شرکت کے لیے بھارت جانے کی اجازت دے دی ہے۔

مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی خصوصی سیکیورٹی کی یقین کرائی۔ ادھر بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کا بھی کہنا ہے کہ ہندوستان آنے والی تمام ٹیموں کو مکمل سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ اس حوالے سے کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستانی ٹیم کو بھارت میں مکمل سیکیورٹی دی جائے گی۔ میڈیا میں یہ اطلاعات بھی آئی ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ پر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی طرف سے شدید دباؤ تھا کہ ٹیم کو چیمپئن شپ میں شرکت کے لیے لازمی طور پر بھیجا جائے۔


پاکستانی ٹیم نے شیڈول کے مطابق دھرم شالہ میں میچ کھیلنا تھا لیکن ہماچل پردیش کے وزیراعلیٰ نے سیکیورٹی کی ذمے داری لینے سے انکار کر دیا۔ یوں معاملات گھمبیر ہو گئے اور پھر یہ میچ مغربی بنگال کے شہر کولکتہ میں منتقل کرنا پڑا۔ چلیں ایک مشکل حل ہو گئی، اب پاکستانی ٹیم بھارت میں میچ کھیلے گی لیکن اس صورت حال سے بہت سے پہلو آشکار ہوتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ بھارتی کرکٹ بورڈ کو دھرم شالہ میں میچ رکھنے سے پہلے ہی ہماچل پردیش کی حکومت سے سیکیورٹی معاملات پر بات چیت کرنی چاہیے تھی۔ بھارتی انتہاپسندوں کے موڈ کا سب کو اندازہ تھا۔ بھارتی میڈیا انتہاپسندوں کے بیانات کو بھرپور کوریج دے کر ملک میں فضا کو گرما رہا تھا۔ بھارتی انتہاپسند تنظیمیں مظاہرے بھی کر رہی تھیں۔ گو ان مظاہروں میں حاضرین کی تعداد کم تھی لیکن انھیں بھارتی میڈیا پر بھرپور کوریج مل رہی تھی۔

ایسی صورت حال میں ہماچل پردیش حکومت پر دباؤ تھا۔ ہماچل پردیش ایک پہاڑی ریاست ہے اور اس کے پاس وسائل کی کمی ہے اس لیے وہ بہت بڑے پیمانے پر سیکیورٹی انتظامات کرنے سے قاصر تھی۔ اس معاملے میں بھارتی کاروباری سیاست کا پہلو بھی موجود ہے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ جنوبی بھارت کے کاروباری طبقات بھی یہ نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان اور بھارت کا میچ شمالی بھارت کے کسی چھوٹے شہر میں ہو کیونکہ کاروباری اعتبار سے پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ انتہائی منافع بخش ہوتا ہے۔

دھرم شالہ میں پاک بھارت میچ کی وجہ سے یہاں کے سارے ہوٹلز بک تھے، اس طرح دیکھا جائے تو یہ میچ دھرم شالہ میں نہ ہونے سے ہماچل اور دھرم شالہ کے کاروباری طبقے کو خاصا نقصان ہوا ہے۔ بہرحال کھیل میں سیاست کرنا اچھی روایت نہیں ہے۔ بھارتی حکومت کو اس حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے خصوصاً بھارتی میڈیا جو کردار ادا کر رہا ہے، وہ بھی منفی ہی کہلائے گا۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود پاک بھارت میچ ہوں گے اور اس کے مستقبل میں اچھے اثرات سامنے آئیں گے۔

انتہاپسندوں کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلوں کے رابطے جاری رہیں۔ یہ رابطے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں۔ اصولاً تو بھارتی کرکٹ ٹیم کو پاکستان آ کر کھیلنا چاہیے۔ پاکستان کی حکومت بھارتی ٹیم کو کم ازکم ایک دو شہروں میں تو سیکیورٹی فراہم کر سکتی ہے۔ آئی سی سی کو اس حوالے سے بھارت پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔ آئی سی سی کو بھی چاہیے کہ وہ محض بھارت کی نازبرداریاں نہ کرے بلکہ کرکٹ کے کھیل کو ترجیح دے۔
Load Next Story