نشئی کو بھی انصاف مل گیا
ویسے تو پاکستان میں ظلم اور زیادتیوں کا کبھی قحط نہیں رہا۔
barq@email.com
ویسے تو پاکستان میں ظلم اور زیادتیوں کا کبھی قحط نہیں رہا۔ بہت سارے طبقے اور برادریاں ایسی ہیں جو ظلم و زیادتی کا بری طرح شکار ہیں، بے چارے چوروں کے ساتھ یہ ظلم ہوتا ہے کہ ''ساری محنت'' وہ کرتے ہیں اور کمائی کا زیادہ حصہ پولیس والے لے جاتے ہیں، سرکاری محکموں کے افسر اور اہل کار نالاں ہیں کہ اپنے ایمانوں اور ضمیروں کا قتل عام وہ کرتے ہیں اور مکھن احتساب سے متعلق ادارے کھا جاتے ہیں۔
دکاندار بے چارے رو رہے ہیں کہ سرمایہ ان کا، محنت ان کی، رسوائی ان کی اور کمائی سرکاری لوگ ڈکار لیتے ہیں، سیاسی لیڈر شاکی ہیں کہ ووٹر لوگ ان کو انتخابات میں اتنا لوٹ لیتے ہیں کہ وہ بے چارے اپنے خاندانوں سمیت سارا سال کما کر بھی پورا نہیں کر سکتے، مطلب یہ کہ شکایات تو ہر کسی کو ہوتی ہیں، ظلم سب پر ٹوٹ رہے ہیں، بے انصافیاں سب کے ساتھ ہوتی ہیں لیکن پھر بھی ہر کسی کو کم از کم اپنی یونین بنانے اور اپنی آواز بلند کرنے کا حق تو ہے لیکن ان سب میں صرف ایک طبقہ یا برادری ایسی ہے کہ
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے
یہ بے چارا درد کا مارا بے سہارا طبقہ نشئی لوگوں کا ہے بلکہ ''تھا'' کہئے کیوں کہ خدا رکھے اور حکومت کے سوا کوئی نہ چکھے، اس صوبائی حکومت نے اس بے زبان، کج مج بیان، بے سرو سامان طبقے کے ساتھ بھی انصاف کیا ہے اور بغیر مانگے ان کی ضروریات پوری کرنے کے انتظامات بلکہ خاطر خواہ انتظامات کر دیے ہیں یعنی ان کی بھی سن لی گئی ہے، اب یہ بذریعہ بے زبانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
اس سے پہلے کہ جب اس غریب و بے نصیب طبقے کو ملنے والی سہولیات کا ذکر کریں ان نامساعد حالات کا ذکر کرنا ضروری ہے جن میں یہ بے چارا طبقہ گزر بسر کر رہا تھا، ویسے تو اس بے چارے نشئی طبقے کی تاریخ کوئی خاص نہیں ہے حتیٰ کہ کسی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کی پیدائش کیسے ہوئی افزائش کن حالات میں ہوئی اور نمائش کا سلسلہ کب شروع ہوا، لیکن بعض محققین کا کہنا ہے کہ جب کم بخت انگریز چلے گئے اور اپنی جگہ اپنے پالے ہوئے کالے انگریز چھوڑ گئے اور ان کالے انگریزوں کو سب کچھ کرنیکی پوری پوری آزادی مل گئی تو دولت روزگار اور مراعات کی تقسیم ہوئی تو اس تقسیم کا کام ویسے ہی ہوا جو ایک کہانی میں ہوتا ہے کہ ایک آدمی بڑا ہوشیار اور چالاک تھا اس نے ایک سادہ لوح کسان کو پھانس لیا کہ ساجھے داری میں کاشت کاری کریں گے۔
تقسیم کا فارمولا طے ہونے لگا تو چالاک شخص نے کہا کہ فصل کا صرف اوپری حصہ میرا ہو گا باقی سب تمہارا، ۔۔۔ لیکن بونے کا وقت آیا تو گندم کاشت کی گئی نتیجے میں غلہ ہوشیار شخص کے حصے میں آیا اور بھوسہ بے چارے سادہ لوح کے، سادہ لوح جزبز بھی ہوا اور اپنی طرف سے ہوشیاری دکھاتے ہوئے بولا کہ اس مرتبہ اوپر کا حصہ میں لوں گا۔ اس مرتبہ آلو بوئے گئے نتیجہ ظاہر ہے کہ سادہ لوح اب کے بھی گھاٹے میں رہا، تیسری مرتبہ اس نے کہا کہ فصل کا سرا بھی میرا اور نچلا حصہ بھی میرا ۔۔۔ اور اس مرتبہ چالاک نے مکئی کاشت کی، پاکستان کی کھیتی میں جب بھی تقسیم ہوئی کام کی چیز حکومت اور لیڈروں کے حصے میں آئی اور عوام کی حالت
کھیر پکائی جتن سے چرخا دیا جلا
آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا
بے چارے ڈھول بجانے والے اور کیا کرتے کچھ مر گئے کچھ کھپ گئے کچھ غلام بن گئے کچھ چور بن گئے کچھ کارکن ... اور باقی کچھ بچا تو مہنگائی مار گئی، پناہ ڈھونڈنے لگے تو اور تو کہیں بھی پناہ گاہ نہ تھی ہر طرف کمین گاہ ہی کمین گاہ نظر آئی، سوائے ایک کے جو نشے کی پناہ گاہ تھی، جو اماں ملی تو کہاں ملی، تب سے اب تک یہ بے چارے کس مپرسی کا دکھ بھوگتے رہے، آخر کار:
نکل کے دیر و کعبہ سے اگر ملتا نہ مے خانہ
تو ٹھکرائے ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے
لیکن اصل پرابلم تو یہ ہوئی کہ ٹھکرائے ہوئے انسان تو بہت تھے لیکن ''مہ خانہ'' کہیں نہیں تھا چنانچہ بے چارے مقبروں میں، گندے پانی کے نالوں، کوڑے کے ڈھیروں اور اندھیروں میں گرتے پڑتے رہے، جنرل مشرف کے دور میں سنا ہے کہ ان ٹھکرائے ہوئے انسانوں کی کھپت بھی پیدا ہوئی، اچانک لوگوں نے دیکھا اور محسوس کیا کہ شہر میں ان ٹھکرائے ہوئے انسانوں کی تعداد چھدرنے لگی پھر مقبروں، گندے نالوں اور کوڑے کے ڈھیروں میں یہ مفقود ہونے لگے حالانکہ ان کے ہمدم کتے اتنے ہی تھے بلکہ بڑھ گئے لیکن یہ لوگ تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ گئے کچھ محققوں نے پتہ چلایا کہ یہ بیکار کوڑا کرکٹ بھی کام آیا، جس طرح کہتے ہیں کہ چین میں کوڑا کرکٹ ضایع نہیں کرتے بلکہ اسے ری پراسس کر کے کام میں لایا جاتا ہے اسی طرح یہ ''کوڑا کرکٹ'' بھی تشدد کے خلاف جنگ میں استعمال ہونے لگا اور اچھا خاصا مہنگا استعمال ہونے لگا کیوں کہ بدلے میں ڈالر لیے جاتے تھے۔
خیر یہ سچ ہو یا جھوٹ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ طبقہ بڑھنے لگا اور شہر کا ہر وہ مقام ان کی رہائش گاہ ٹھہرا جہاں تمام آدمی ناک پر رومال رکھے بنا نہیں گزرتا، لیکن وہ جو کہا ہے کسی نے کہ بندہ پریشان اللہ مہربان ... شہر کی انتظامیہ نے ترازو ہاتھ میں لے کر ان کا بھی انصاف کر دیا اور زرکثیر صرف کر کے ان کے لیے روٹی اور مکان کا انتظام کیا، رہ گئے کپڑے تو کپڑوں کی انھیں ضرورت ہی نہیں تھی، یہ بڑے بڑے پل تعمیر ہوئے پھر ان کے نیچے ان کے لیے مکان خود بخود پیدا ہوئے ... اب صرف روٹی کی یا نشے کی کہئے کیوں کہ ان کو روٹی سے بھی کچھ زیادہ دل چسپی نہیں ہوتی۔
ہم حیران ہیں کہ اتنا بڑا کارنامہ کسی ایک ذہن کی پیداوار تو نہیں ہو سکتا کہ ایک ہی چھت کے نیچے ان کے لیے رہائش اور نشے دونوں کا بندوبست کیا گیا، پلوں کی دیواروں پر پلاسٹک کے گملوں میں پلاسٹک کی گرینری یا باغ و بہار آویزاں کر دی گئی تو پہلے تو کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیا بات ہوئی لیکن پھر انکشاف ہوا کہ اس طبقے کو رہائش تو پلوں کے نیچے مل گئی یا یوں کہئے کہ ان کی رہائش کے لیے پلوں کے مکانات تعمیر ہوئے اور ان ہی پلوں پر پلاسٹک کے پھول لگائے تا کہ جنت جیسا ماحول پیدا ہو کہ ہاتھ بڑھا لیا ایک گملہ اٹھا لیا اور نشے کا انتظام ہو گیا۔
ہم نے جب پہلی مرتبہ اس لے لچک او فول پروف پروگرام کو دیکھا اور اس پر غور کیا تو عش عش کرنے لگے یہاں تک غش کھانے کو تھے لیکن پھر جھرجھری لے کر ان خیالات پر پچھتاوا ہونے لگا جب شہر میں باغ و بہار لانے کے لیے پہلے پہل یہ پلاسٹک کی ''گرینری'' ابھرنے لگی تھی ہم سوچتے تھے بلکہ بولتے بھی تھے کہ دوسرے شہروں میں تو سچ مچ کے گل بوٹے ہوتے ہیں اور ہمارے یہاں پشاور میں جو عرف عام میں پھولوں کا شہر کہلاتے ہیں اس کے پلوں پر فولوں نے پلاسٹک کے گملے پلاسٹک کے پھولوں سمیت لٹکا دیے اور نعرہ لگایا کہ گرین اینڈ کلین پختونخوا، لیکن اب اس بے پناہ اسکیم کی بے پناہ ''افادیت'' دیکھ کر ہم من ہی من پچھتا رہے ہیں کہ خواہ مخواہ پہ سوچے سمجھے انتظامیہ پر بھیڑے بھیڑے شک کیے جب کہ اصل حقیقت یہ تھی؟
واہ واہ بقول کسے ... ملٹی پرپز اور کثیر الفوائد منصوبے بنانا تو کوئی ان سے سیکھے، گرینری کی گرینری اور ساتھ ہی روٹی نشہ اور مکان بھی ... میں نے تو صرف ''دید'' مانگی تھی، سخی لڑکی نے ساتھ میں بوسہ بھی دے دیا اور تم مجھے پھول دیتے ہوئے ''ہنس'' پڑے، میں پھول سے زیادہ تیرے ہنسنے کا ممنون ہوں اب کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہے جنت کا ماحول ہے جہاں کسی نشئی کو ضرورت ہوئی ایک دو پلاسٹک کے گملے اتار لیے اور کام ہو گیا اس کی جگہ نئے گملے لگانے سے انتظامیہ کا بھی بھلا ہو جاتا ہے اور گملے پھول بیچنے والوں کا بھی کیا زبردست ''تربوز'' ہے۔
دکاندار بے چارے رو رہے ہیں کہ سرمایہ ان کا، محنت ان کی، رسوائی ان کی اور کمائی سرکاری لوگ ڈکار لیتے ہیں، سیاسی لیڈر شاکی ہیں کہ ووٹر لوگ ان کو انتخابات میں اتنا لوٹ لیتے ہیں کہ وہ بے چارے اپنے خاندانوں سمیت سارا سال کما کر بھی پورا نہیں کر سکتے، مطلب یہ کہ شکایات تو ہر کسی کو ہوتی ہیں، ظلم سب پر ٹوٹ رہے ہیں، بے انصافیاں سب کے ساتھ ہوتی ہیں لیکن پھر بھی ہر کسی کو کم از کم اپنی یونین بنانے اور اپنی آواز بلند کرنے کا حق تو ہے لیکن ان سب میں صرف ایک طبقہ یا برادری ایسی ہے کہ
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے
یہ بے چارا درد کا مارا بے سہارا طبقہ نشئی لوگوں کا ہے بلکہ ''تھا'' کہئے کیوں کہ خدا رکھے اور حکومت کے سوا کوئی نہ چکھے، اس صوبائی حکومت نے اس بے زبان، کج مج بیان، بے سرو سامان طبقے کے ساتھ بھی انصاف کیا ہے اور بغیر مانگے ان کی ضروریات پوری کرنے کے انتظامات بلکہ خاطر خواہ انتظامات کر دیے ہیں یعنی ان کی بھی سن لی گئی ہے، اب یہ بذریعہ بے زبانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
اس سے پہلے کہ جب اس غریب و بے نصیب طبقے کو ملنے والی سہولیات کا ذکر کریں ان نامساعد حالات کا ذکر کرنا ضروری ہے جن میں یہ بے چارا طبقہ گزر بسر کر رہا تھا، ویسے تو اس بے چارے نشئی طبقے کی تاریخ کوئی خاص نہیں ہے حتیٰ کہ کسی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کی پیدائش کیسے ہوئی افزائش کن حالات میں ہوئی اور نمائش کا سلسلہ کب شروع ہوا، لیکن بعض محققین کا کہنا ہے کہ جب کم بخت انگریز چلے گئے اور اپنی جگہ اپنے پالے ہوئے کالے انگریز چھوڑ گئے اور ان کالے انگریزوں کو سب کچھ کرنیکی پوری پوری آزادی مل گئی تو دولت روزگار اور مراعات کی تقسیم ہوئی تو اس تقسیم کا کام ویسے ہی ہوا جو ایک کہانی میں ہوتا ہے کہ ایک آدمی بڑا ہوشیار اور چالاک تھا اس نے ایک سادہ لوح کسان کو پھانس لیا کہ ساجھے داری میں کاشت کاری کریں گے۔
تقسیم کا فارمولا طے ہونے لگا تو چالاک شخص نے کہا کہ فصل کا صرف اوپری حصہ میرا ہو گا باقی سب تمہارا، ۔۔۔ لیکن بونے کا وقت آیا تو گندم کاشت کی گئی نتیجے میں غلہ ہوشیار شخص کے حصے میں آیا اور بھوسہ بے چارے سادہ لوح کے، سادہ لوح جزبز بھی ہوا اور اپنی طرف سے ہوشیاری دکھاتے ہوئے بولا کہ اس مرتبہ اوپر کا حصہ میں لوں گا۔ اس مرتبہ آلو بوئے گئے نتیجہ ظاہر ہے کہ سادہ لوح اب کے بھی گھاٹے میں رہا، تیسری مرتبہ اس نے کہا کہ فصل کا سرا بھی میرا اور نچلا حصہ بھی میرا ۔۔۔ اور اس مرتبہ چالاک نے مکئی کاشت کی، پاکستان کی کھیتی میں جب بھی تقسیم ہوئی کام کی چیز حکومت اور لیڈروں کے حصے میں آئی اور عوام کی حالت
کھیر پکائی جتن سے چرخا دیا جلا
آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا
بے چارے ڈھول بجانے والے اور کیا کرتے کچھ مر گئے کچھ کھپ گئے کچھ غلام بن گئے کچھ چور بن گئے کچھ کارکن ... اور باقی کچھ بچا تو مہنگائی مار گئی، پناہ ڈھونڈنے لگے تو اور تو کہیں بھی پناہ گاہ نہ تھی ہر طرف کمین گاہ ہی کمین گاہ نظر آئی، سوائے ایک کے جو نشے کی پناہ گاہ تھی، جو اماں ملی تو کہاں ملی، تب سے اب تک یہ بے چارے کس مپرسی کا دکھ بھوگتے رہے، آخر کار:
نکل کے دیر و کعبہ سے اگر ملتا نہ مے خانہ
تو ٹھکرائے ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے
لیکن اصل پرابلم تو یہ ہوئی کہ ٹھکرائے ہوئے انسان تو بہت تھے لیکن ''مہ خانہ'' کہیں نہیں تھا چنانچہ بے چارے مقبروں میں، گندے پانی کے نالوں، کوڑے کے ڈھیروں اور اندھیروں میں گرتے پڑتے رہے، جنرل مشرف کے دور میں سنا ہے کہ ان ٹھکرائے ہوئے انسانوں کی کھپت بھی پیدا ہوئی، اچانک لوگوں نے دیکھا اور محسوس کیا کہ شہر میں ان ٹھکرائے ہوئے انسانوں کی تعداد چھدرنے لگی پھر مقبروں، گندے نالوں اور کوڑے کے ڈھیروں میں یہ مفقود ہونے لگے حالانکہ ان کے ہمدم کتے اتنے ہی تھے بلکہ بڑھ گئے لیکن یہ لوگ تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ گئے کچھ محققوں نے پتہ چلایا کہ یہ بیکار کوڑا کرکٹ بھی کام آیا، جس طرح کہتے ہیں کہ چین میں کوڑا کرکٹ ضایع نہیں کرتے بلکہ اسے ری پراسس کر کے کام میں لایا جاتا ہے اسی طرح یہ ''کوڑا کرکٹ'' بھی تشدد کے خلاف جنگ میں استعمال ہونے لگا اور اچھا خاصا مہنگا استعمال ہونے لگا کیوں کہ بدلے میں ڈالر لیے جاتے تھے۔
خیر یہ سچ ہو یا جھوٹ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ طبقہ بڑھنے لگا اور شہر کا ہر وہ مقام ان کی رہائش گاہ ٹھہرا جہاں تمام آدمی ناک پر رومال رکھے بنا نہیں گزرتا، لیکن وہ جو کہا ہے کسی نے کہ بندہ پریشان اللہ مہربان ... شہر کی انتظامیہ نے ترازو ہاتھ میں لے کر ان کا بھی انصاف کر دیا اور زرکثیر صرف کر کے ان کے لیے روٹی اور مکان کا انتظام کیا، رہ گئے کپڑے تو کپڑوں کی انھیں ضرورت ہی نہیں تھی، یہ بڑے بڑے پل تعمیر ہوئے پھر ان کے نیچے ان کے لیے مکان خود بخود پیدا ہوئے ... اب صرف روٹی کی یا نشے کی کہئے کیوں کہ ان کو روٹی سے بھی کچھ زیادہ دل چسپی نہیں ہوتی۔
ہم حیران ہیں کہ اتنا بڑا کارنامہ کسی ایک ذہن کی پیداوار تو نہیں ہو سکتا کہ ایک ہی چھت کے نیچے ان کے لیے رہائش اور نشے دونوں کا بندوبست کیا گیا، پلوں کی دیواروں پر پلاسٹک کے گملوں میں پلاسٹک کی گرینری یا باغ و بہار آویزاں کر دی گئی تو پہلے تو کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیا بات ہوئی لیکن پھر انکشاف ہوا کہ اس طبقے کو رہائش تو پلوں کے نیچے مل گئی یا یوں کہئے کہ ان کی رہائش کے لیے پلوں کے مکانات تعمیر ہوئے اور ان ہی پلوں پر پلاسٹک کے پھول لگائے تا کہ جنت جیسا ماحول پیدا ہو کہ ہاتھ بڑھا لیا ایک گملہ اٹھا لیا اور نشے کا انتظام ہو گیا۔
ہم نے جب پہلی مرتبہ اس لے لچک او فول پروف پروگرام کو دیکھا اور اس پر غور کیا تو عش عش کرنے لگے یہاں تک غش کھانے کو تھے لیکن پھر جھرجھری لے کر ان خیالات پر پچھتاوا ہونے لگا جب شہر میں باغ و بہار لانے کے لیے پہلے پہل یہ پلاسٹک کی ''گرینری'' ابھرنے لگی تھی ہم سوچتے تھے بلکہ بولتے بھی تھے کہ دوسرے شہروں میں تو سچ مچ کے گل بوٹے ہوتے ہیں اور ہمارے یہاں پشاور میں جو عرف عام میں پھولوں کا شہر کہلاتے ہیں اس کے پلوں پر فولوں نے پلاسٹک کے گملے پلاسٹک کے پھولوں سمیت لٹکا دیے اور نعرہ لگایا کہ گرین اینڈ کلین پختونخوا، لیکن اب اس بے پناہ اسکیم کی بے پناہ ''افادیت'' دیکھ کر ہم من ہی من پچھتا رہے ہیں کہ خواہ مخواہ پہ سوچے سمجھے انتظامیہ پر بھیڑے بھیڑے شک کیے جب کہ اصل حقیقت یہ تھی؟
واہ واہ بقول کسے ... ملٹی پرپز اور کثیر الفوائد منصوبے بنانا تو کوئی ان سے سیکھے، گرینری کی گرینری اور ساتھ ہی روٹی نشہ اور مکان بھی ... میں نے تو صرف ''دید'' مانگی تھی، سخی لڑکی نے ساتھ میں بوسہ بھی دے دیا اور تم مجھے پھول دیتے ہوئے ''ہنس'' پڑے، میں پھول سے زیادہ تیرے ہنسنے کا ممنون ہوں اب کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہے جنت کا ماحول ہے جہاں کسی نشئی کو ضرورت ہوئی ایک دو پلاسٹک کے گملے اتار لیے اور کام ہو گیا اس کی جگہ نئے گملے لگانے سے انتظامیہ کا بھی بھلا ہو جاتا ہے اور گملے پھول بیچنے والوں کا بھی کیا زبردست ''تربوز'' ہے۔