عفو و درگزر سیرتُ النبیؐ کی روشنی میں

اسلام، امن و آشتی کی طرف راہ نمائی کرتا اور امن کا مذہب ہے۔

اسلام، امن و آشتی کی طرف راہ نمائی کرتا اور امن کا مذہب ہے۔ فوٹو: فائل

UPPER DIR:
حضرتِ سیِّدُنا اَنسؓ کا بیان ہے کہ میں نبی کریمؐ کے ہم راہ چل رہا تھا اور آپؐ ایک نَجرانی چادر اَوڑھے ہوئے تھے، جس کے کنارے موٹے اور کُھردرے تھے۔ اچانک ایک بَدو نے آپؐ کی چادر کو پکڑ کر اتنی زور سے کھینچا کہ آپؐ کی مبارک گردن پر چادر کی کنار سے خَراش آگئی۔ وہ کہنے لگا اﷲ کا جو مال آپؐ کے پاس ہے، آپؐ حکم دیجیے کہ اُس میں سے مجھے بھی کچھ مل جائے۔

رحمتِ عالَمؐ اُس کی طرف متوجّہ ہوئے اور مسکرا دیے پھر اُسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔ اسی طرح حضرت سیِّدُنا اُبی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا، جسے یہ پسند ہوکہ اُس کے لیے جنت میں محل بنایا جائے اور اُس کے درجات بلند کیے جائیں، تو اُسے چاہیے کہ جو اُس پر ظلم کرے یہ اُسے معاف کرے اور جو اُسے محروم کرے یہ اُسے عطا کرے اور جو اُس سے قطع تعلق کرے، یہ اُس سے تعلق کو جوڑے رکھے۔

اسلام، امن و آشتی کی طرف راہ نمائی کرتا اور امن کا مذہب ہے۔ ہم اپنی نماز ختم کرتے ہوئے جب سلام پھیرتے ہیں تو اپنے دائیں بائیں والوں کو امن کی دعا دیتے ہیں کہ تم پر سلامتی اور رحمت ہو۔ امن و امان، تحفظ، آشتی اور سکون کی دعاؤں کے ساتھ ہم اپنی عام زندگی کی طرف ایک بار پھر لوٹ رہے ہوتے ہیں۔

اسلام سختی، ظلم، یا شدت پسندی کا دین نہیں ہے۔ یہ عفو و درگزر اور تحمل کا پیام بر ہے۔ جیسا کہ بزرگان دین نے اپنی زندگی تحمل اور برداشت سکھانے میں صَرف کردی اور ان میں ہر ایک اپنے وقت کا محبت اور تحمل کا امام تھا۔ فخر کائنات ﷺ محبت اور الفت کا نمونہ تھے۔ جناب پیغمبرؐ نے غیرمسلموں کو بھی بُرا کہنے سے روکا ہے۔ قرآن کریم بڑی شدت سے عفو و درگزر اور تحمل پر زور دیتا ہے۔ ایک آیت میں نیک لوگوں کی صفت یوں بیان کی گئی ہے کہ '' وہ غصے کو پی جاتے ہیں، اور دوسروں کو معاف کر دیتے ہیں، اور اﷲ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔'' (آل عمران:134)

کسی بھی انسان کو اور خصوصا مسلمان کو تکلیف دینا انتہائی ناپسندیدہ کام ہے۔ اگر نادانی میں ایسا ہوجائے تو اﷲ اور اس مظلوم سے معافی کا طلب گار ہونا چاہیے، کیوںکہ مسلمانوں کو آپس میں ایک جسم کی مانند قرار دیا گیا ہے۔ مسلمان تو محبت و شفقت کا پیکر ہوتا ہے جو کسی بھی قسم کی نفرت انگیز اور دہشت گردی کی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتا۔

زندگی خدا تعالی کی طرف سے سب سے بڑی اور نمایاں رحمت ہے اور سچی اور ہمیشہ رہنے والی زندگی آخرت ہے۔ آقائے نام دار حضرت محمد ﷺ کے ہاتھوں میں رحم، ایک کنجی کی طرح تھا، جس کے ذریعے آپ ؐ نے ایسے قلوب کو کھولا جو سخت اور زنگ آلود ہو چکے تھے اور جنہیں کھولنے کا کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ سرکارِ رسالت مآب ﷺ کا ہی ارشاد ہے کہ مجھے لوگوں کے لیے زحمت بناکر نہیں، رحمت بناکر بھیجا گیا ہے۔

کوئی غیر مسلم، کسی وقت بھی اسلام قبول کرسکتا ہے اور کوئی بھی شخص کسی بھی وقت چاہے وہ کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو، اﷲ سے معافی مانگ سکتا ہے۔ پیغمبر خدا ؐ بچوں پر خصوصا مہربان تھے۔ جب کبھی وہ کسی بچے کو روتا دیکھتے تو اس کے ساتھ بیٹھ جاتے اور اس کی شکایت سنتے۔ آپؐ کو بچوں کی ماؤں سے زیادہ ان کا درد ہوتا تھا۔


آپؐ نے فرمایا '' میں نماز کے لیے کھڑا ہوجاتا ہوں اور اسے لمبی کرنا چاہتا ہوں، تو مجھے کسی بچے کی رونے کی آواز آتی ہے، جس کی وجہ سے نماز مختصر کرتا ہوں تاکہ اس کی ماں کی پریشانی کم ہو''۔ آپ ؐ کا فرمان ہے '' تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا''۔ جب حضرت سعد بن عبادہؓ بیمار ہوئے تو آپؐ عیادت کرنے ان کے گھر گئے۔

اپنے ایک وفادار صحابیؓ کی حالت دیکھ کر آپؐ سے رہا نہ گیا اور آپؐ کے آنسو جاری ہوگئے اور فرمایا '' خدا کسی کو آنسوؤں یا غم کی وجہ سے عذاب نہیں دیتا، بل کہ اس کی وجہ سے عذاب دیتا ہے اور آپؐ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ فرمایا ''۔ قبیلہ مقرن کے ایک شخص نے ایک مرتبہ اپنی لونڈی کو مارا۔ اس نے حضور اکرم ﷺ کو اطلاع دی۔ آپؐ نے مالک کو بلایا اور فرمایا '' تم نے ناحق اس کو مارا، اب اس کو آزاد کردو، ایک لونڈی کو آزاد کرنا آسان ہے، بہ نسبت اس کے کہ برائی کا بدلہ کل قیامت کو ملے۔'' رسول اکرمؐ نے ہمیشہ بیواؤں، یتیموں، غریبوں، مظلوموں اور معذوروں کی اعلان نبوت سے قبل بھی حفاظت اور مدد فرمائی۔

ایک مرتبہ حضرت ابوذرؓ، حضرت بلالؓ سے خفا ہوگئے اور کالی عورت کے بیٹے کہہ کر ان کی دل آزاری کی۔ حضرت بلالؓ، حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور روتے ہوئے واقعہ سنایا۔ آپؐ نے حضرت ابوذرؓ کو طلب کیا اور تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا، کیا ابھی بھی تمہارے اندر جاہلیت کی نشانی موجود ہے؟

اس پر اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے حضرت ابوذرؓ زمین پر لیٹ گئے اور فرمانے لگے، میں یہاں سے اپنا سر اس وقت تک نہیں اٹھاؤں گا، جب تک حضرت بلالؓ اپنا پاؤں اس پر نہیں رکھ دیتے، لیکن حضرت بلالؓ نے انہیں معاف کردیا اور اس طرح دونوں کی صلح ہوگئی۔ یہ وہ تعلق اور رشتہ تھا جو اسلام نے ان لوگوں میں پیدا کیا تھا، جو کبھی وحشی ہوا کرتے تھے۔

قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی ہے کہ '' اور اﷲ کے بندے وہ لوگ ہیں، جو زمین پر عجز و انکساری سے چلتے ہیں اور جب کوئی جاہل ان سے مخاطب ہوتا ہے، تو یوں کہتے ہیں، سلامتی ہو۔'' (الفرقان: 63)

'' اور جب وہ بیہودہ بات سنتے ہیں تو وہاں سے منہ پھیر کر چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لیے ہمارے اعمال اور تمہارے لیے تمہارے اعمال۔'' (القصص: 55)

ان آیات کا عمومی خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ جنہیں خدا کی عبدیت سے نوازا گیا ہے، جب ان کا بُرے لوگوں سے سامنا ہوتا ہے تو وہ کوئی بری بات نہیں کہتے، بل کہ درگزر کرتے ہوئے باعزت طریقے سے گزر جاتے ہیں۔
Load Next Story