ایک اور دھماکا
انگریز اپنی زبان میں اتنا علمی اور ادبی کام کر گئے کہ ان کے عالمی اقتدار کے خاتمے کے باوجود ان کی زبان کا عروج باقی ہے
Abdulqhasan@hotmail.com
PESHAWAR:
ہمارا یہ ہفتہ ہماری سیاست کا ایک یاد گار اور پرہجوم ہفتہ تھا کہ اس میں بھارت کا ایک اونچے درجے کا بدقسمت جاسوس ہمارے ہتھے چڑھ گیا اور اس معاملے میں بھارت کی بولتی بند ہو گئی۔ بھارت کا جاسوس ہی بولتا رہا اور اپنے کارنامے سناتا رہا۔ دوسرا بڑا واقعہ یہ ہوا کہ ہمارے پڑوسی ملک ایران کے صدر محترم ہمارے ہاں تشریف لائے۔ ہم نے ان سے بہت کچھ کہا جو ایک پڑوسی بھائی مجبوراً کہہ جاتا ہے۔
کچھ شکریے ادا کیے کچھ گلے کیے لیکن بات صحیح سمت میں چلتی رہی ہے۔ ایرانی صدر نے ایک بڑی ہی اہم بات کہی کہ فرقہ واریت یعنی شیعہ سنی مسئلہ ہمیں بڑھانا نہیں چاہیے۔ ہمارے ایرانی محترم مہمان نے علامہ محمد اقبال کی بے حد تعریف کی اور کہا کہ اقبال نے بارہ ہزار اشعار کہے جن میں سات ہزار فارسی زبان میں ہیں۔ اقبال نے معاشرے کی بیداری کے لیے جو علمی کام کیا ہے دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ فارسی اور اردو زبانیں ایک درخت کی دو شاخیں ہیں۔
آپ جب کبھی ایران جائیں تو آپ کا استقبال لاہور کے حوالے سے کیا جاتا ہے اور لاہور بھی جو اقبال کا شہر تھا اور ہے۔ شاید اسی لیے ایران میں اقبال کو 'اقبال لاہوری' کہا جاتا ہے اور اس کا فارسی کلام ایرانیوں کا پسندیدہ شعری اثاثہ ہے جسے وہ اپنا سمجھتے ہیں اور ہم پاکستانیوں کو بھی وہ کلام اقبال کے حوالے سے پہچانتے ہیں۔ جس شاعر نے اپنے بہترین کلام کے سات ہزار اشعار فارسی میں کہے ہوں وہ فارسی والوں کے لیے کتنا اہم اور کتنا عزیز ہو گا۔
ہم پاکستانی جس طرح اقبال کا اردو کلام اپنی روز مرہ کی گفتگو میں استعمال کرتے ہیں ایرانی اپنے عظیم شاعروں کے ساتھ اقبال کو بھی یاد کرتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ شاعری اور شعری فکر میں اقبال کو اپنے ہاں کے نامور شعراء کے برابر سمجھتے ہیں۔ مجھے یاد نہیں آ رہا کہ ایران کی کس عمارت دیوار پر میں نے حافظ سعدی اور ایران کے بعض دوسرے شعراء کے ساتھ اقبال کے اشعار بھی لکھے دیکھے۔ جیسے ہم اپنی تحریروں میں ایرانی شعراء کے حوالے دیتے ہیں بلکہ ہم نے تو دینی مدرسوں میں شیخ سعدی کی گلستان و بوستان نظامی گنجوی کا سکندر نامہ اور شیخ عطار کی مثنویاں باقاعدہ پڑھائی ہیں۔
ان کے سبق دیے ہیں اور ان میں امتحان بھی لیا ہے۔ ہماری بعض دینی کتابیں فارسی زبان میں تھیں۔ ہمارے علماء فارسی زبان کو اردو پر ترجیح دیتے تھے۔ زبانوں پر معاشرتی عروج و زوال بھی آتے تھے جیسے ادھر ایک عرصے سے انگریزی زبان کو بے پناہ عروج ملا ہوا ہے۔ اگر برطانوی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا تو ان کی زبان انگریزی کی سلطنت کا بھی یہی حال تھا۔
انگریز اپنی زبان میں اتنا علمی اور ادبی کام کر گئے کہ ان کے عالمی اقتدار کے خاتمے کے باوجود ان کی زبان کا عروج باقی ہے۔ فارسی زبان کے ذکر پر اردو اور انگریزی کا ذکر بھی ہو گیا اور بات ابھی جاری تھی کہ ٹی وی نے شور مچانا شروع کر دیا کہ لاہور کے ایک باغ اور سیر گاہ میں دھماکا ہوا ہے اور کوئی ستر سے زائد خواتین و حضرات اور بچے جاں بحق ہو گئے ہیں۔ چھٹی کا دن تھا سیر کے لیے بڑی تعداد موجود تھی۔
یہ قیامت جو ایک باغ میں برپا ہوئی اس سے پورے شہر میں فوری طور پر ماتم کی صف بچھ گئی۔ حکومت نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا اور ان ستر خاندانوں سے تعزیت کی۔ معلوم ہوا کہ یہ بھی ایک خود کش دھماکا تھا یعنی کسی 'نیک' آدمی نے جنت حاصل کرنے کے لیے یہ نسخہ استعمال کیا یعنی خود کشی کرو اور جنت میں چلے جاؤ جہاں آپ کے لیے محل تیار ہے اور اسے آباد کرنے کے لیے حوریں موجود ہیں جن کے ساتھ آپ کو عیاشی کرنی ہے۔
اسلام اتنا واضح اور اتنا صاف ستھرا مذہب ہے کہ اس میں ایسے توہمات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام کے دنیا بھر میں پھیل جانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ یہ ایک عام فہم تعلیمات والا مذہب ہے اس کی تعلیم میں کوئی الجھاؤ نہیں ہے لیکن آسان اور واضح نظریات والے کسی مذہب میں نظریاتی الجھن پیدا نہیں ہوتی اور اس کو بنیاد بنا کر فرقہ بازی نہیں کی جا سکتی جب کہ ہمارے ہاں ایک گروہ ایسا پیدا ہو گیا جو فرقہ واریت کا دعویٰ دار ہے اور اسی پر اس کی روٹی روزی چلتی ہے۔
پرانے زمانے میں جب تک صاف ذہن اور صاف دل علماء رہے جن کی زندگی کا مقصد اسلام کی ترویج تھی انھیں معلوم تھا کہ ایک ایسی تعلیم جو کسی طالبعلم کا ذریعہ روز گار نہ بن سکے وہ اپنے اثرات ختم کر لیتی ہے چنانچہ پرانے زمانے کے دینی مدرسوں میں علم طب کی تعلیم دی جاتی تھی جو دینی علوم اور عربی فارسی زبانوں میں موجود تھی اور دینی مدرسوں کے طلبہ کے لیے ایک آسان ذریعہ روز گار تھی چنانچہ دینی مدرسوں کے اکثر طلبہ طب کی سوجھ بوجھ بھی رکھتے تھے اور فارغ التحصیل ہو کر وہ اپنا مطب قائم کر لیتے تھے جو ایک خدمت بھی ہوتی تھی اور ذریعہ روز گار بھی چونکہ ان طبیبوں کی دینی تربیت ہوا کرتی تھی اس لیے وہ مریضوں سے فیس نہیں لیا کرتے تھے۔
ایک بہت بڑے طبی خاندان کا فرد جب فیس نہ لینے اور دیگر خدمات کا ذکر کر رہا تھا تو میں نے پوچھا کہ پھر وہ گزراوقات کس طرح کرتے تھے۔ ان کا جواب کہ ان کے زمانے میں نوابوں مہاراجوں کا عروج تھا جو ان طبیبوں کو بلاتے تھے ان کی خوب خدمت کر دیتے تھے اس طرح وہ سال بھر کا خرچہ نکال لیتے تھے۔
ویسے آجکل ہمارے ڈاکٹر حضرات جن کا میں بھی مریض ہوں ایک دن میں ہی سال بھر کا خرچ نکال لیتے ہیں لیکن اپنی اپنی قسمت۔ ڈاکٹروں سے مہنگی تعلیم پائی اور اس کے اخراجات اپنی پریکٹس سے وصول کیے۔ ایک بڑے ڈاکٹر کی زبانی میں نے سنا کہ مفت کیسے ڈاکٹری کروں میری ماں نے زیور بیچ کر مجھے پڑھایا ہے۔
ہمارا یہ ہفتہ ہماری سیاست کا ایک یاد گار اور پرہجوم ہفتہ تھا کہ اس میں بھارت کا ایک اونچے درجے کا بدقسمت جاسوس ہمارے ہتھے چڑھ گیا اور اس معاملے میں بھارت کی بولتی بند ہو گئی۔ بھارت کا جاسوس ہی بولتا رہا اور اپنے کارنامے سناتا رہا۔ دوسرا بڑا واقعہ یہ ہوا کہ ہمارے پڑوسی ملک ایران کے صدر محترم ہمارے ہاں تشریف لائے۔ ہم نے ان سے بہت کچھ کہا جو ایک پڑوسی بھائی مجبوراً کہہ جاتا ہے۔
کچھ شکریے ادا کیے کچھ گلے کیے لیکن بات صحیح سمت میں چلتی رہی ہے۔ ایرانی صدر نے ایک بڑی ہی اہم بات کہی کہ فرقہ واریت یعنی شیعہ سنی مسئلہ ہمیں بڑھانا نہیں چاہیے۔ ہمارے ایرانی محترم مہمان نے علامہ محمد اقبال کی بے حد تعریف کی اور کہا کہ اقبال نے بارہ ہزار اشعار کہے جن میں سات ہزار فارسی زبان میں ہیں۔ اقبال نے معاشرے کی بیداری کے لیے جو علمی کام کیا ہے دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ فارسی اور اردو زبانیں ایک درخت کی دو شاخیں ہیں۔
آپ جب کبھی ایران جائیں تو آپ کا استقبال لاہور کے حوالے سے کیا جاتا ہے اور لاہور بھی جو اقبال کا شہر تھا اور ہے۔ شاید اسی لیے ایران میں اقبال کو 'اقبال لاہوری' کہا جاتا ہے اور اس کا فارسی کلام ایرانیوں کا پسندیدہ شعری اثاثہ ہے جسے وہ اپنا سمجھتے ہیں اور ہم پاکستانیوں کو بھی وہ کلام اقبال کے حوالے سے پہچانتے ہیں۔ جس شاعر نے اپنے بہترین کلام کے سات ہزار اشعار فارسی میں کہے ہوں وہ فارسی والوں کے لیے کتنا اہم اور کتنا عزیز ہو گا۔
ہم پاکستانی جس طرح اقبال کا اردو کلام اپنی روز مرہ کی گفتگو میں استعمال کرتے ہیں ایرانی اپنے عظیم شاعروں کے ساتھ اقبال کو بھی یاد کرتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ شاعری اور شعری فکر میں اقبال کو اپنے ہاں کے نامور شعراء کے برابر سمجھتے ہیں۔ مجھے یاد نہیں آ رہا کہ ایران کی کس عمارت دیوار پر میں نے حافظ سعدی اور ایران کے بعض دوسرے شعراء کے ساتھ اقبال کے اشعار بھی لکھے دیکھے۔ جیسے ہم اپنی تحریروں میں ایرانی شعراء کے حوالے دیتے ہیں بلکہ ہم نے تو دینی مدرسوں میں شیخ سعدی کی گلستان و بوستان نظامی گنجوی کا سکندر نامہ اور شیخ عطار کی مثنویاں باقاعدہ پڑھائی ہیں۔
ان کے سبق دیے ہیں اور ان میں امتحان بھی لیا ہے۔ ہماری بعض دینی کتابیں فارسی زبان میں تھیں۔ ہمارے علماء فارسی زبان کو اردو پر ترجیح دیتے تھے۔ زبانوں پر معاشرتی عروج و زوال بھی آتے تھے جیسے ادھر ایک عرصے سے انگریزی زبان کو بے پناہ عروج ملا ہوا ہے۔ اگر برطانوی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا تو ان کی زبان انگریزی کی سلطنت کا بھی یہی حال تھا۔
انگریز اپنی زبان میں اتنا علمی اور ادبی کام کر گئے کہ ان کے عالمی اقتدار کے خاتمے کے باوجود ان کی زبان کا عروج باقی ہے۔ فارسی زبان کے ذکر پر اردو اور انگریزی کا ذکر بھی ہو گیا اور بات ابھی جاری تھی کہ ٹی وی نے شور مچانا شروع کر دیا کہ لاہور کے ایک باغ اور سیر گاہ میں دھماکا ہوا ہے اور کوئی ستر سے زائد خواتین و حضرات اور بچے جاں بحق ہو گئے ہیں۔ چھٹی کا دن تھا سیر کے لیے بڑی تعداد موجود تھی۔
یہ قیامت جو ایک باغ میں برپا ہوئی اس سے پورے شہر میں فوری طور پر ماتم کی صف بچھ گئی۔ حکومت نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا اور ان ستر خاندانوں سے تعزیت کی۔ معلوم ہوا کہ یہ بھی ایک خود کش دھماکا تھا یعنی کسی 'نیک' آدمی نے جنت حاصل کرنے کے لیے یہ نسخہ استعمال کیا یعنی خود کشی کرو اور جنت میں چلے جاؤ جہاں آپ کے لیے محل تیار ہے اور اسے آباد کرنے کے لیے حوریں موجود ہیں جن کے ساتھ آپ کو عیاشی کرنی ہے۔
اسلام اتنا واضح اور اتنا صاف ستھرا مذہب ہے کہ اس میں ایسے توہمات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام کے دنیا بھر میں پھیل جانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ یہ ایک عام فہم تعلیمات والا مذہب ہے اس کی تعلیم میں کوئی الجھاؤ نہیں ہے لیکن آسان اور واضح نظریات والے کسی مذہب میں نظریاتی الجھن پیدا نہیں ہوتی اور اس کو بنیاد بنا کر فرقہ بازی نہیں کی جا سکتی جب کہ ہمارے ہاں ایک گروہ ایسا پیدا ہو گیا جو فرقہ واریت کا دعویٰ دار ہے اور اسی پر اس کی روٹی روزی چلتی ہے۔
پرانے زمانے میں جب تک صاف ذہن اور صاف دل علماء رہے جن کی زندگی کا مقصد اسلام کی ترویج تھی انھیں معلوم تھا کہ ایک ایسی تعلیم جو کسی طالبعلم کا ذریعہ روز گار نہ بن سکے وہ اپنے اثرات ختم کر لیتی ہے چنانچہ پرانے زمانے کے دینی مدرسوں میں علم طب کی تعلیم دی جاتی تھی جو دینی علوم اور عربی فارسی زبانوں میں موجود تھی اور دینی مدرسوں کے طلبہ کے لیے ایک آسان ذریعہ روز گار تھی چنانچہ دینی مدرسوں کے اکثر طلبہ طب کی سوجھ بوجھ بھی رکھتے تھے اور فارغ التحصیل ہو کر وہ اپنا مطب قائم کر لیتے تھے جو ایک خدمت بھی ہوتی تھی اور ذریعہ روز گار بھی چونکہ ان طبیبوں کی دینی تربیت ہوا کرتی تھی اس لیے وہ مریضوں سے فیس نہیں لیا کرتے تھے۔
ایک بہت بڑے طبی خاندان کا فرد جب فیس نہ لینے اور دیگر خدمات کا ذکر کر رہا تھا تو میں نے پوچھا کہ پھر وہ گزراوقات کس طرح کرتے تھے۔ ان کا جواب کہ ان کے زمانے میں نوابوں مہاراجوں کا عروج تھا جو ان طبیبوں کو بلاتے تھے ان کی خوب خدمت کر دیتے تھے اس طرح وہ سال بھر کا خرچہ نکال لیتے تھے۔
ویسے آجکل ہمارے ڈاکٹر حضرات جن کا میں بھی مریض ہوں ایک دن میں ہی سال بھر کا خرچ نکال لیتے ہیں لیکن اپنی اپنی قسمت۔ ڈاکٹروں سے مہنگی تعلیم پائی اور اس کے اخراجات اپنی پریکٹس سے وصول کیے۔ ایک بڑے ڈاکٹر کی زبانی میں نے سنا کہ مفت کیسے ڈاکٹری کروں میری ماں نے زیور بیچ کر مجھے پڑھایا ہے۔