فنکار اچھوت یا شودر نہیں ہیں
اس نے تو آج تک خود کو حکومت بھی ثابت نہیں کیا۔ ایک نقار خانہ ہے
barq@email.com
KARACHI:
ویسے تو ہم پکے پکے ''نہ مانوں'' قسم کے لوگوں میں سے ہیں، خصوصاً ''حکومتوں'' اور پھر بالخصوص اپنے صوبے ''خیر پخیر'' کی حکومتوں کے بارے میں تو اتنے بدظن ہیں کہ اگر یہ کہیں کہ سورج مشرق سے نکلتا ہے تو ہم فوراً منہ پھیر کر اسے مغرب میں تلاش کرنے لگتے ہیں جیسے علامہ بریانی عرف برڈ فلو کو چشم گل چشم عرف قہر خداوندی سے کسی اچھے ''کہنے یا کرنے'' کی توقع نہیں ہے ویسے ہی ہم نے بھی اپنے صوبے میں اتنے بڑے بڑے ''جھوٹے'' بھگتے ہیں کہ سچ کے بارے میں ہمیں پورا یقین ہو گیا ہے کہ اٹک پار کرنے کی ہر گز ہر گز اجازت نہیں ہے جیسے کبھی کبھی پنجاب والے یک جہتی کا اظہار کرنے کے لیے گندم اور آٹے پر پابندی لگا دیتے ہیں، وہ تو صرف کچھ دن کی بات ہوتی ہے لیکن سچ یا یوں کہیں کہ ''سرکاری سچ'' پر مستقل پابندی لگی ہوئی ہے۔
ویسے یہ سرکاری سچ بجائے خود ویسی ہی اصطلاح ہے جیسے کوئی میٹھا کریلا، کالا سفید، سیاسی دیانت کہے، مطلب یہ کہ ہمارے صوبے خیر پخیر میں کسی حکومت سے بھلائی کی توقع تو ہمیں ہر گز نہیں ہوتی البتہ بری سے بری برائی کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں اور یہ جو موجودہ انصاف کا ترازو ہے۔
اس نے تو آج تک خود کو حکومت بھی ثابت نہیں کیا۔ ایک نقار خانہ ہے جس میں اپنے نقارے تو بج ہی رہے ہیں ،کبھی کبھی ادھر دور کسی مقام سے بھی ''توپ'' داغتی رہتی ہے، لیکن گزشتہ دنوں اس حکومت (اب تو ماننا ہی پڑے گا) نے ایک ایسا کام کر دکھایا کہ ہمارے ہاتھ میں جو ترازو ہے وہ اچانک اوپر نیچے ہونے لگا، بلکہ قطعی الٹ پلٹ ہو گیا، جو پلڑا اوپر تھا وہ اچانک زمین سے آن لگا اور نیچے والا پلڑا اوپر جا کر معلق ہو گیا۔
موجودہ حکومت نے قطعی خلاف توقع گزشتہ دنوں اس ملک و ملت کے معتوب ترین، راندہ درگاہ اور گردن زدنی لوگوں یعنی شاعروں، صورت گروں اور فن کاروں کی ایسی زبردست حوصلہ افزائی اور قدر دانی کی جس کی کوئی مثال ہماری گزشتہ سیاسی و سرکاری تاریخ میں نہیں ملتی، اس سے ہم اتنے متاثر ہوئے کہ ایک تو اچانک یہ شعر ورد زبان ہو گیا کہ
نکل کر دیر و کعبہ سے اگر ملتا نہ مے خانہ
تو ٹھکرائے ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے
ظاہر ہے کہ اب اگر موجودہ حکومت ''سات خون'' بھی کر ڈالے تو ہم کچھ نہیں کہیں گے، کیوں کہ ہماری پوری تاریخ میں اور بالخصوص گزشتہ چند دہائیوں کی تاریخ میں ان لوگوں کو سوائے ذلت و خواری دربدری اور کس مپرسی کے اور کچھ بھی نہیں ملا ہے، حالانکہ یہی وہ لوگ ہیں جو معاشرے میں خوشی بانٹتے ہیں، پیار و محبت کی تبلیغ کرتے ہیں اور نفرتوں کو مٹاتے ہیں ۔
کسی کو اگر خوشی نہیں دیتے تو دکھ بھی نہیں دیکھتے، خیر کی طرف بلاتے ہیں، صحیح راستہ دکھاتے ہیں اور معاشرے کے ہونٹوں پر سرخی اور مسکراہٹ بکھیرتے ہیں لیکن نہ جانے کیوں اور کیسے کچھ عرصے سے ہمارے ہاں کچھ اتنے نازک کچے اور ٹچ می ناٹ قسم کے ''ایمان'' آنے لگے ہیں اور بدقسمتی سے ان کی پیداوار بھی بہت زیادہ ہو گئی ہے کہ کسی ساز کی آواز، کسی شعر کی بھنک، کسی خاتون کی تصویر، نسوانی آواز، نسوانی قدموں کی آہٹ سے بھی چکنا چور ہو جاتے ہیں حالانکہ یہی ایمان انسانی خون کے بہنے، یتیموں اور بیواؤں کی فریاد اور بے گناہوں کے قتل عام پر ٹس سے مس بھی نہیں ہوتے، اربوں کروڑوں حرام ڈکار کچھ بھی نہیں ہوتے لیکن کسی بھی ساز یا ریڈیو یا ٹی وی کی ہلکی سی آواز پر بھی بپھر جاتے ہیں۔ یہ ہم ان لوگوں کی بات نہیں کر رہے ہیں ۔
جن کو دہشت گرد کا ٹائٹل دیا گیا ، ان کے بارے میں ہمیں کچھ بھی پتہ نہیں ہے کہ کون ہیں کہاں سے آئے ہیں کون لایا ہے اور کیا کرتے ہیں اور جب جانتے ہی نہیں تو ان کے بارے میں رائے زنی کا حق بھی نہیں رکھتے بلکہ ہم ان لوگوں کی بات کرتے ہیں جو ''فن'' سے متعلق ہر چیز کو کفر سمجھتے ہیں ۔گانا پسند نہیں کرتے لیکن اسی گانے کی دھن پر جھومتے بھی ہیں، خیر اپنا اپنا خیال اور نظریہ ہے، ہر کسی کو پسند اور ناپسند کا حق ہونا چاہیے لیکن اپنی پسند کو دوسروں پر تھونپا قطعی غلط ہوتا ہے اور یہ غلط ہمارے ہاں ایک عرصے سے ہو رہا ہے اور اسے ''جزو ایمان'' سمجھا جاتا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں یہ چند عشرے خاص طور پر ایمان داروں اور خدمت گاروں کے ادوار میں شاعروں، صورت گروں اور فن کاروں پر بڑے گراں گزرے ہیں، صرف ہر قسم کے حقوق و مراعات ہی سے نہیں بلکہ تحفظ اور امان سے بھی محروم رہے ہیں اگر صرف محرومی کی حد تک بات رہتی تو بھی غنیمت تھا کیوں کہ یہ اپنی روزی روٹی کسی نہ کسی طرح کما ہی لیتے لیکن ان پر بلا تخصیص گردن زدنی کا حکم بھی صادر ہوا تھا ۔کچھ پانا تو دور اپنے ہر حق سے محروم کر دیے گئے، بے چارے سب کچھ چھوڑ کر ''جان بچی سو لاکھوں پائے'' کے مرحلے سے گزرتے رہتے، کچھ تو ''بھاگنے'' میں کامیاب ہو گئے۔
کچھ داڑھیوں کی آڑ میں خود کو چھپا رہے تھے، بہت زیادہ برا خواتین کے ساتھ ہوا تھا کیوں کہ ایماندار اپنے ساتھ جو چھوٹی موٹی عرف لاجونتی عرف ٹچ می ناٹ قسم کا ایمان لے کر آئے تھے، اسے خواتین کے وجود ان کی آواز بلکہ ان کی آہٹ تک سے شدید خطرہ لاحق ہو گیا تھا، ہر قسم کے ساز سے اس پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے حتیٰ ان کو پڑھنے پر بھی بلیک وارنٹ جاری ہو گیا اور تو اور بے چارے نائی، درزی اور جوتا ساز تک خطرناک مجرموں میں شمار ہوتے تھے۔
ہر قسم کے ہالوں کو تالے لگ گئے، دنیا کے سب سے بڑے اور عالم گیر ''مفتی'' اور ایمان دار اول حضرت اورنگزیب عالم گیر جب باپ اور بھائیوں کا فتنہ دبانے میں کامیاب ہوئے تو اس کے حکم پر آلات موسیقی کو بھی زمین میں دبانے کا کام شروع ہو گیا، مجاہد و ایمان دار اول نے حکم دیا کہ ذرا گہرا گڑھا کھود کر اس خطرہ ایمان کو دفن کیا جائے تاکہ کبھی باہر نہ آسکے، عالم گیر مفتی اورنگزیب عالم گیر سے ایک غلطی ہوئی تھی یا شاید اس کے دل میں کوئی نرم گوشہ تھا کہ اس نے صرف ''آلات'' دفن کیے فن کار دفن نہیں کیے لیکن ہمارے ایمان داروں سے ایسی کوئی بھول چوک نہیں ہوئی، انھوں نے آلات کے بجائے فن کاروں کو زندہ درگور کیا یعنی پرابلم کو جڑ سے ختم کرنے کی سعی کی تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری، اس کے بعد خدمت گاروں کا دور آیا، بلی کے بھاگوں چھینگا ٹوٹا تھا۔
اسی لیے جس کا جہاں بس چلا وہیں لوٹ مچا دی، حالانکہ خدمت گاروں کو اٹھانے پھیلانے اور اس مقام تک پہنچانے میں سب سے زیادہ ہاتھ انھی بدنصیب شاعروں، فن کاروں اور صورت گروں کا تھا، یہاں ایمان کا مسئلہ تو نہیں تھا لیکن اپنے اور اپنوں کے گھڑے برتن بھرنے کا مسئلہ بہت شدید تھا۔ کچھ جھولیاں بے شک بھری گئیں بہت زیادہ بھری گئیں لیکن چن چن کر وہ جھولیاں جن میں چھید ہی چھید تھے، بارے ایک لمبا عرصہ محرومی کس مپرسی اور اپنے ہی وطن میں دربدری کا گزارنے کے بعد ان کی بھی پوچھ ہوئی موجودہ حکومت نے دل کھول کر ان کی قدر دانی کی، ہمیں یاد ہے کہ ایسی ہی ایک تقریب خدمت گاروں کے دور میں بھی برپا ہوئی۔
وزیراعلیٰ ہاؤس میں ان بدبختوں کو کاغذ کے خالی خولی سندات پکڑا دیے گئے تھے لیکن اس مرتبہ بھی اگرچہ اسی وزیراعلیٰ ہاؤس میں ویسی ہی تقریب ہوئی مگر خالی خولی سندات کی جگہ اچھے خاصے مرغن چیک بھی دیے گئے، اس موقعے پر آیندہ کے لیے بھی اچھے اچھے منصوبے پیش کیے گئے جس سے نہ صرف شاعروں اور فن کاروں کی بھی بھلائی ہو جائے گی بلکہ ثقافت کو بھی فروغ مل جائے گا، کم از کم شاعروں، ادیبوں، فن کاروں اور ہنر مندوں کو اس بات کا احساس تو دلا ہی دیا گیا کہ وہ بھی اس ملک کے معزز شہری ہیں شودر یا اچھوت نہیں ہیں۔
ویسے تو ہم پکے پکے ''نہ مانوں'' قسم کے لوگوں میں سے ہیں، خصوصاً ''حکومتوں'' اور پھر بالخصوص اپنے صوبے ''خیر پخیر'' کی حکومتوں کے بارے میں تو اتنے بدظن ہیں کہ اگر یہ کہیں کہ سورج مشرق سے نکلتا ہے تو ہم فوراً منہ پھیر کر اسے مغرب میں تلاش کرنے لگتے ہیں جیسے علامہ بریانی عرف برڈ فلو کو چشم گل چشم عرف قہر خداوندی سے کسی اچھے ''کہنے یا کرنے'' کی توقع نہیں ہے ویسے ہی ہم نے بھی اپنے صوبے میں اتنے بڑے بڑے ''جھوٹے'' بھگتے ہیں کہ سچ کے بارے میں ہمیں پورا یقین ہو گیا ہے کہ اٹک پار کرنے کی ہر گز ہر گز اجازت نہیں ہے جیسے کبھی کبھی پنجاب والے یک جہتی کا اظہار کرنے کے لیے گندم اور آٹے پر پابندی لگا دیتے ہیں، وہ تو صرف کچھ دن کی بات ہوتی ہے لیکن سچ یا یوں کہیں کہ ''سرکاری سچ'' پر مستقل پابندی لگی ہوئی ہے۔
ویسے یہ سرکاری سچ بجائے خود ویسی ہی اصطلاح ہے جیسے کوئی میٹھا کریلا، کالا سفید، سیاسی دیانت کہے، مطلب یہ کہ ہمارے صوبے خیر پخیر میں کسی حکومت سے بھلائی کی توقع تو ہمیں ہر گز نہیں ہوتی البتہ بری سے بری برائی کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں اور یہ جو موجودہ انصاف کا ترازو ہے۔
اس نے تو آج تک خود کو حکومت بھی ثابت نہیں کیا۔ ایک نقار خانہ ہے جس میں اپنے نقارے تو بج ہی رہے ہیں ،کبھی کبھی ادھر دور کسی مقام سے بھی ''توپ'' داغتی رہتی ہے، لیکن گزشتہ دنوں اس حکومت (اب تو ماننا ہی پڑے گا) نے ایک ایسا کام کر دکھایا کہ ہمارے ہاتھ میں جو ترازو ہے وہ اچانک اوپر نیچے ہونے لگا، بلکہ قطعی الٹ پلٹ ہو گیا، جو پلڑا اوپر تھا وہ اچانک زمین سے آن لگا اور نیچے والا پلڑا اوپر جا کر معلق ہو گیا۔
موجودہ حکومت نے قطعی خلاف توقع گزشتہ دنوں اس ملک و ملت کے معتوب ترین، راندہ درگاہ اور گردن زدنی لوگوں یعنی شاعروں، صورت گروں اور فن کاروں کی ایسی زبردست حوصلہ افزائی اور قدر دانی کی جس کی کوئی مثال ہماری گزشتہ سیاسی و سرکاری تاریخ میں نہیں ملتی، اس سے ہم اتنے متاثر ہوئے کہ ایک تو اچانک یہ شعر ورد زبان ہو گیا کہ
نکل کر دیر و کعبہ سے اگر ملتا نہ مے خانہ
تو ٹھکرائے ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے
ظاہر ہے کہ اب اگر موجودہ حکومت ''سات خون'' بھی کر ڈالے تو ہم کچھ نہیں کہیں گے، کیوں کہ ہماری پوری تاریخ میں اور بالخصوص گزشتہ چند دہائیوں کی تاریخ میں ان لوگوں کو سوائے ذلت و خواری دربدری اور کس مپرسی کے اور کچھ بھی نہیں ملا ہے، حالانکہ یہی وہ لوگ ہیں جو معاشرے میں خوشی بانٹتے ہیں، پیار و محبت کی تبلیغ کرتے ہیں اور نفرتوں کو مٹاتے ہیں ۔
کسی کو اگر خوشی نہیں دیتے تو دکھ بھی نہیں دیکھتے، خیر کی طرف بلاتے ہیں، صحیح راستہ دکھاتے ہیں اور معاشرے کے ہونٹوں پر سرخی اور مسکراہٹ بکھیرتے ہیں لیکن نہ جانے کیوں اور کیسے کچھ عرصے سے ہمارے ہاں کچھ اتنے نازک کچے اور ٹچ می ناٹ قسم کے ''ایمان'' آنے لگے ہیں اور بدقسمتی سے ان کی پیداوار بھی بہت زیادہ ہو گئی ہے کہ کسی ساز کی آواز، کسی شعر کی بھنک، کسی خاتون کی تصویر، نسوانی آواز، نسوانی قدموں کی آہٹ سے بھی چکنا چور ہو جاتے ہیں حالانکہ یہی ایمان انسانی خون کے بہنے، یتیموں اور بیواؤں کی فریاد اور بے گناہوں کے قتل عام پر ٹس سے مس بھی نہیں ہوتے، اربوں کروڑوں حرام ڈکار کچھ بھی نہیں ہوتے لیکن کسی بھی ساز یا ریڈیو یا ٹی وی کی ہلکی سی آواز پر بھی بپھر جاتے ہیں۔ یہ ہم ان لوگوں کی بات نہیں کر رہے ہیں ۔
جن کو دہشت گرد کا ٹائٹل دیا گیا ، ان کے بارے میں ہمیں کچھ بھی پتہ نہیں ہے کہ کون ہیں کہاں سے آئے ہیں کون لایا ہے اور کیا کرتے ہیں اور جب جانتے ہی نہیں تو ان کے بارے میں رائے زنی کا حق بھی نہیں رکھتے بلکہ ہم ان لوگوں کی بات کرتے ہیں جو ''فن'' سے متعلق ہر چیز کو کفر سمجھتے ہیں ۔گانا پسند نہیں کرتے لیکن اسی گانے کی دھن پر جھومتے بھی ہیں، خیر اپنا اپنا خیال اور نظریہ ہے، ہر کسی کو پسند اور ناپسند کا حق ہونا چاہیے لیکن اپنی پسند کو دوسروں پر تھونپا قطعی غلط ہوتا ہے اور یہ غلط ہمارے ہاں ایک عرصے سے ہو رہا ہے اور اسے ''جزو ایمان'' سمجھا جاتا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں یہ چند عشرے خاص طور پر ایمان داروں اور خدمت گاروں کے ادوار میں شاعروں، صورت گروں اور فن کاروں پر بڑے گراں گزرے ہیں، صرف ہر قسم کے حقوق و مراعات ہی سے نہیں بلکہ تحفظ اور امان سے بھی محروم رہے ہیں اگر صرف محرومی کی حد تک بات رہتی تو بھی غنیمت تھا کیوں کہ یہ اپنی روزی روٹی کسی نہ کسی طرح کما ہی لیتے لیکن ان پر بلا تخصیص گردن زدنی کا حکم بھی صادر ہوا تھا ۔کچھ پانا تو دور اپنے ہر حق سے محروم کر دیے گئے، بے چارے سب کچھ چھوڑ کر ''جان بچی سو لاکھوں پائے'' کے مرحلے سے گزرتے رہتے، کچھ تو ''بھاگنے'' میں کامیاب ہو گئے۔
کچھ داڑھیوں کی آڑ میں خود کو چھپا رہے تھے، بہت زیادہ برا خواتین کے ساتھ ہوا تھا کیوں کہ ایماندار اپنے ساتھ جو چھوٹی موٹی عرف لاجونتی عرف ٹچ می ناٹ قسم کا ایمان لے کر آئے تھے، اسے خواتین کے وجود ان کی آواز بلکہ ان کی آہٹ تک سے شدید خطرہ لاحق ہو گیا تھا، ہر قسم کے ساز سے اس پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے حتیٰ ان کو پڑھنے پر بھی بلیک وارنٹ جاری ہو گیا اور تو اور بے چارے نائی، درزی اور جوتا ساز تک خطرناک مجرموں میں شمار ہوتے تھے۔
ہر قسم کے ہالوں کو تالے لگ گئے، دنیا کے سب سے بڑے اور عالم گیر ''مفتی'' اور ایمان دار اول حضرت اورنگزیب عالم گیر جب باپ اور بھائیوں کا فتنہ دبانے میں کامیاب ہوئے تو اس کے حکم پر آلات موسیقی کو بھی زمین میں دبانے کا کام شروع ہو گیا، مجاہد و ایمان دار اول نے حکم دیا کہ ذرا گہرا گڑھا کھود کر اس خطرہ ایمان کو دفن کیا جائے تاکہ کبھی باہر نہ آسکے، عالم گیر مفتی اورنگزیب عالم گیر سے ایک غلطی ہوئی تھی یا شاید اس کے دل میں کوئی نرم گوشہ تھا کہ اس نے صرف ''آلات'' دفن کیے فن کار دفن نہیں کیے لیکن ہمارے ایمان داروں سے ایسی کوئی بھول چوک نہیں ہوئی، انھوں نے آلات کے بجائے فن کاروں کو زندہ درگور کیا یعنی پرابلم کو جڑ سے ختم کرنے کی سعی کی تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری، اس کے بعد خدمت گاروں کا دور آیا، بلی کے بھاگوں چھینگا ٹوٹا تھا۔
اسی لیے جس کا جہاں بس چلا وہیں لوٹ مچا دی، حالانکہ خدمت گاروں کو اٹھانے پھیلانے اور اس مقام تک پہنچانے میں سب سے زیادہ ہاتھ انھی بدنصیب شاعروں، فن کاروں اور صورت گروں کا تھا، یہاں ایمان کا مسئلہ تو نہیں تھا لیکن اپنے اور اپنوں کے گھڑے برتن بھرنے کا مسئلہ بہت شدید تھا۔ کچھ جھولیاں بے شک بھری گئیں بہت زیادہ بھری گئیں لیکن چن چن کر وہ جھولیاں جن میں چھید ہی چھید تھے، بارے ایک لمبا عرصہ محرومی کس مپرسی اور اپنے ہی وطن میں دربدری کا گزارنے کے بعد ان کی بھی پوچھ ہوئی موجودہ حکومت نے دل کھول کر ان کی قدر دانی کی، ہمیں یاد ہے کہ ایسی ہی ایک تقریب خدمت گاروں کے دور میں بھی برپا ہوئی۔
وزیراعلیٰ ہاؤس میں ان بدبختوں کو کاغذ کے خالی خولی سندات پکڑا دیے گئے تھے لیکن اس مرتبہ بھی اگرچہ اسی وزیراعلیٰ ہاؤس میں ویسی ہی تقریب ہوئی مگر خالی خولی سندات کی جگہ اچھے خاصے مرغن چیک بھی دیے گئے، اس موقعے پر آیندہ کے لیے بھی اچھے اچھے منصوبے پیش کیے گئے جس سے نہ صرف شاعروں اور فن کاروں کی بھی بھلائی ہو جائے گی بلکہ ثقافت کو بھی فروغ مل جائے گا، کم از کم شاعروں، ادیبوں، فن کاروں اور ہنر مندوں کو اس بات کا احساس تو دلا ہی دیا گیا کہ وہ بھی اس ملک کے معزز شہری ہیں شودر یا اچھوت نہیں ہیں۔