پرویز مشرف کون تھا

پاکستان جیسے ملک میں افواج پاکستان کا سابق کمانڈر انچیف اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہمیشہ آزاد رہتا ہے

Abdulqhasan@hotmail.com

پاکستان جیسے ملک میں افواج پاکستان کا سابق کمانڈر انچیف اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہمیشہ آزاد رہتا ہے اور جہاں تک ملک سے باہر آنے جانے کا تعلق ہے تو اس کے لیے اس کے پاس بس آمد و رفت کا خرچہ ہونا چاہیے ویسے وہ بھی نہ ہو تب بھی اس کے لیے ٹکٹ کا بندوبست کوئی مشکل نہیں ہے۔

میرے آپ جیسے کتنے ہی پاکستانی اس اعزاز کے لیے تیار ہیں اور بیرون ملک اول تو اس کے پاس اس کے کسی پسندیدہ ملک میں اس کا اپنا مکان وغیرہ ہو گا جیسے پرویز مشرف کا دبئی میں تھا اور اگر نہ بھی ہو تب بھی وہ کسی بھی پاکستانی کے ہاں مہمان بن جائے تو یہ اس پاکستانی کا اعزاز ہو گا۔ یہ چند سطریں میں نے پاکستانیوں کی عقل کا ماتم کرنے کے لیے لکھی ہیں جو ان دنوں یہ بحث کر رہے ہیں کہ پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانا چاہیے تھا یا نہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر وہ جانا چاہتا تھا تو اسے روکتا کون تھا۔ وہ فوج ابھی زندہ سلامت ہے اور اس کا سربراہ بھی بخیر و عافیت ہے۔ کسی غیر فوجی سویلین حکومت کی کیا مجال ہے کہ اس فوج کے سربراہ کی نقل و حرکت کو روک سکے خواہ وہ سابق اور ریٹائر ہی کیوں نہ ہو اس لیے یہ بحث نہایت احمقانہ ہے کہ کوئی کمانڈر انچیف ملک سے باہر کیوں گیا ہے۔ اگر اس کے خلاف عدالت میں کوئی مقدمہ ہے تو عدالتوں کو اتنا مضبوط بنائیں کہ کوئی ان کی حکم عدولی نہ کر سکے۔ دنیا میں ہوتا یہی ہے کہ کسی عدلیہ کا فیصلہ حرف آخر ہوتا ہے اور کسی عام شہری کی یہ مجال نہیں ہوتی کہ وہ اس کی خلاف ورزی کر سکے۔

جناب پرویز مشرف صاحب نے آئین توڑا، اس کی جگہ ایمرجنسی لگائی اور مارشل لاء نافذ کیا اور کوئی دوسرا خلاف آئین اقدام کیا تو یہی سمجھا گیا کہ آئین کے خلاف اتنا کچھ کرنے کے بعد جرنیل صاحب پر مقدمہ چلے گا اور پھر جو فیصلہ ہو گا دیکھیں گے لیکن جرنیل پرویز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور وہ پاکستان میں آزاد پھرتے رہے اور ایسے ہی پھرتے پھراتے ملک سے باہر چلے گئے۔ انھیں کسی نے باہر جانے سے نہیں روکا۔ ایئرپورٹ ان کے لیے کھلی تھی اور اب بھی ان کے بارے میں صرف بحث جاری ہے ان پر کسی پابندی کا ذکر نہیں کیا جا رہا۔


جنرل مشرف کے بارے میں اس بحث میں الجھے ہوئے ہم پاکستانی اپنا وقت ضایع کر رہے ہیں اور ہمیں یہ احساس تک نہیں کہ پرویز مشرف فوج کا سربراہ تھا اور فوج اپنے کسی سربراہ کو ان لوگوں کے ہاتھوں بے عزت نہیں ہونے دیتی جو کل تک اسے بار بار جھک کر سلام کرتے تھے۔ اس لیے ہمیں کسی طاقت ور کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے پہلے اپنے آپ کو اس کارروائی کے اہل ثابت کرنا ہو گا۔

اس وقت جو صورت حال ہے اس میں ہمارے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں ہے کہ ہم فوج کے سابق سربراہ کے خلاف اس کی کسی غلطی یا گستاخی پر اس سے بازپرس کر سکیں چنانچہ عزت اسی میں ہے کہ خاموش رہیں اور اپنی سبکی نہ کرائیں۔ ہم ہر وقت ایک دشمن کی نگاہوں میں ہیں جو ہماری ہر کمزوری پر نگاہ رکھتا ہے بلکہ اب تو وہ ہمارے ہاں بڑے نامی گرامی جاسوس بھی بھیج رہا ہے اور ہم ان جاسوسوں کا تعارف کرا رہے ہیں۔ کسی عالمی فورم پر اس کی شکایت نہیں کر رہے جب کہ دنیا کے کسی بھی قانون کے تحت دوسرے ملک میں جاسوس نہیں بھیجے جا سکتے۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم اپنے دشمن سے اس قدر مرعوب بلکہ خوفزدہ کیوں ہیں۔ اپنی حفاظت اور قومی عزت کو بچانے کے لیے ہمارے پاس سب کچھ ہے اور ہمارے عوام میں اپنے تحفظ کی طاقت بھی ہے لیکن پھر بھی ہم بھارت کی خوشامد سے باز نہیں آتے جب کہ اسی بھارت کے خلاف ہم جنگیں بھی لڑتے ہیں، اپنے شہیدوں کو نشان حیدر جیسے اعزاز بھی دیتے ہیں اور دعویٰ رکھتے ہیں کہ ہم ایک آزاد اور خودمختار قوم ہیں لیکن جب بھارت پر برتری یا اس کے سامنے اپنی اہمیت جتانے کا وقت آتا ہے تو ہم کچھ اور ہوتے ہیں۔ اس سوال پر ماہرین کا تجزیہ درکار ہے جو یہ دریافت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں کہ کیا قوم نے ہمیں بڑھ چڑھ کر ووٹ اس لیے دیے کہ ہم بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات رکھ سکیں یا ہمیں کوئی ایسی قوم تلاش کرنی پڑے گی جو اپنے دشمن کے ساتھ اچھے تعلقات کے لیے مری جا رہی ہو۔

بات سابق کمانڈر انچیف جنرل پرویز مشرف کی نقل و حرکت کی آزادی کے سوال سے شروع ہوئی تھی لیکن اس بحث میں سرتاپا غلطاں پاکستانیوں نے یہ نہیں سوچا کہ جرنیل صاحب فوج کے سربراہ تھے اور فوج ایک منظم ادارہ ہے جو اپنے ریٹائر افسروں کو بھی زیادہ نہیں تو نیم افسر ضرور سمجھتا ہے اور جب سوال فوج کے اعلیٰ ترین عہدیدار کا ہو تو وہ اگر نیم افسر بھی ہو گا تو پھر بھی کتنے ہی حاضر نوکری افسروں سے بالا ہو گا۔

ہم پاکستانی بڑی حد تک ایک احمق قوم ہیں، اتنے ڈھیر سارے مارشل لاؤں کے باوجود ابھی تک فوج کی حیثیت پر شک کرتے ہیں جب کہ وہی ہوتا ہے جو فوج چاہتی ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ ایک ریٹائر فوجی سربراہ بھی مارشل لاء لگا سکتا ہے اور ہمیں ایک نئی بحث میں الجھا کر خود عیش کر سکتا ہے کہ کسی ریٹائرڈ جرنیل کو مارشل لاء لگانے کا اختیار ہے یا نہیں جب تک قوم کوئی فیصلہ کرے گی تب تک ہمارا پہلے سے ریٹائرڈ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر دوبارہ ریٹائر ہو رہا ہو گا ہمیں کسی نئی بحث میں الجھانے کے بعد! تو پہلے کوئی یہ تو بتائے کہ پرویز مشرف کون تھا۔
Load Next Story