’’ایک میان میں 2 تلواریں‘‘ پاکستان کرکٹ کا شیرازہ بکھیرنے لگیں
2’سربراہوں‘ سے ملک میں کھیل ’بدنام‘ ہوگیا،ایک دائیں تو دوسرا بائیں جانب جانا چاہتا ہے، وقار یونس
2’سربراہوں‘ سے ملک میں کھیل ’بدنام‘ ہوگیا،ایک دائیں تو دوسرا بائیں جانب جانا چاہتا ہے، وقار یونس- فوٹو: فائل
''ایک میان میں 2 تلواریں''پاکستان کرکٹ کا شیرازہ بکھیرنے لگیں، سبکدوش ہیڈکوچ وقار یونس نے کہاکہ 2'سربراہوں' میں پاکستانی کرکٹ 'بدنام' ہو رہی ہے، ایک کھیل کو دائیں تو دوسرا بائیں جانب لے جانا چاہتا ہے۔
بورڈ کو یہ حقیقت معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کرکٹ کیلیے ہے کرکٹ اس کیلیے نہیں، یہاں پر ٹیموں کو منتظمین سے 'بھیک' مانگنا پڑتی ہے، تبدیلی کی آس پر کام جاری رکھا، معاملات بہتر بنانا چاہے مگر کامیابی نہیں ملی، ٹیم میں نوجوان کھلاڑیوں کو شامل کرنے کی کوشش کچھ 'قوتوں' نے ناکام بنا دی، شاہد آفریدی کا بڑا مسئلہ تحمل مزاجی کا نہ ہونا ہے، پلیئرز اور بورڈ کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کیلیے ہائی پرفارمنس منیجر کے عہدے کی تشکیل بہت ضروری ہے، انھوں نے ان خیالات کا اظہار ویب سائٹ ''کرک انفو'' کوانٹرویو میں کیا۔
ورلڈ ٹوئنٹی 20 میں ٹیم کی شرمناک پرفارمنس کے بعد مستعفی ہونے والے ہیڈ کوچ وقار یونس اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اپنی حالیہ 2سالہ مدت میں صورتحال کو بہتر بنانے میں کردار ادا نہیں کرسکے، انھوں نے اس کی بڑی وجہ انتظامی سطح پر واضح سمت کا تعین نہ ہونے کو گردانا،سابق پیسر نے چیئرمین شہریار خان اور ایگزیکٹیو کمیٹی چیئرمین نجم سیٹھی کی صورت میں بورڈ پر 2 سربراہوں کی حکمرانی کو بھی ایک بڑا مسئلہ قرار دیا جو کھیل کو دو یکسر مختلف سمت میں لے جانا چاہتے ہیں۔
وقار یونس نے کہاکہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت ایک فیملی کے دوسربراہ ہیں اور اس سے صورتحال میں بہتری کی توقع نہیں رکھی جا سکتی، اس کی وجہ سے صرف کوچ ہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر کھیل کا بھی نقصان ہورہا ہے، دونوں سربراہان کی الگ الگ سمت ہیں،انھیں اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت اور یہی سب سے زیادہ اہم ہے۔
وقاریونس نے پاکستان کرکٹ بورڈ کو اس کے اصل اغراض و مقاصد یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ اسے پاکستان میں کرکٹ کو فروغ دینے کیلیے قائم کیا گیا، اس کے برعکس نہیں کرنا چاہیے، میں پہلے بھی یہ کہہ چکاکہ بورڈ میں جولوگ بیٹھے ہیں انھیں ٹیم اور کوچنگ اسٹاف کے پاس آنا چاہیے، اس سے معاملات بہتر ہوں گے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ کرکٹ ٹیم اور کھیل کے لیے ہیں، کرکٹ ٹیم ان کے لیے نہیں ہے۔ وقار یونس نے ایک تلخ حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں ایسا کلچر رائج ہو چکا جس میں کرکٹ ٹیموں کو بورڈ حکام سے چیزوں کیلیے 'بھیک' مانگنا پڑتی ہے۔
سابق کوچ سے سوال کیا گیا کہ جب صورتحال ایسی ہی دگرگوں تھی تو وہ اپنی ذمہ داری سے چمٹے کیوں رہے، اس پر انھوں نے کہاکہ میں نے تبدیلی کی امید پر کام جاری رکھا مگر وہ نہیں کرپایا جوکرنا چاہتا تھا، میں نے ہمیشہ نوجوان کھلاڑیوں کو سپورٹ کیا، انھیں ٹیم میں لانے کی حمایت کرتا رہا مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا، ایسی قوتیں موجود ہیں جنھوں نے مجھے ایسا کرنے ہی نہیں دیا، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ میں پہلے چھوڑ کر کیوں نہیں چلا گیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے اپنے آئیڈیاز پر یقین تھا کہ میں خرابیوں پر قابو پانے میں کامیاب ہوجاؤں گا، اس کیلیے آپ کو سسٹم میں رہنے کی ضرورت ہوتی ہے، میں نے کوشش بھی کی مگر کامیاب نہیں ہوسکا۔
شاہد خان آفریدی کے حوالے سے وقار نے کہاکہ آفریدی کی بطور کپتان ناکامی سب نے دیکھ لی، ان کا اصل مسئلہ ٹمپرامنٹ ہے، وہ چیزوں کی نشاندہی کیلیے زیادہ دیر ٹک کر بیٹھ سکتے نہ ہی ان کو سمجھ کر عملدرآمد کرسکتے ہیں، ان کے برعکس میرے مصباح الحق سے تعلقات اس لیے بہتر رہے کہ ان کا ٹمپرامنٹ بہت زیادہ ہے، وہ گھنٹوں کرکٹ پر بات کرسکتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ بطور کپتان آپ کو کوچ سے بہت سی چیزیں سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
وقار نے مزید کہا کہ میں نے آفریدی سے تعلقات بہتر رکھنے چاہے مگرخفیہ رپورٹ افشا ہونے سے وہ متاثر ہوئے۔ وقار یونس نے مزید کہا کہ میں نے اپنے رپورٹ میں ہائی پرفارمنس منیجر کی پوسٹ تشکیل دینے کی سفارش کردی ہے،وہ بورڈ اور پلیئرز میں پل کا کردار ادا کرسکتا ہے، اسے صرف کرکٹنگ معاملات سنبھالنے پر مامور ہونا چاہیے،اس کیلیے کسی غیرملکی کی بھی خدمات لی جا سکتی ہیں۔
بورڈ کو یہ حقیقت معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کرکٹ کیلیے ہے کرکٹ اس کیلیے نہیں، یہاں پر ٹیموں کو منتظمین سے 'بھیک' مانگنا پڑتی ہے، تبدیلی کی آس پر کام جاری رکھا، معاملات بہتر بنانا چاہے مگر کامیابی نہیں ملی، ٹیم میں نوجوان کھلاڑیوں کو شامل کرنے کی کوشش کچھ 'قوتوں' نے ناکام بنا دی، شاہد آفریدی کا بڑا مسئلہ تحمل مزاجی کا نہ ہونا ہے، پلیئرز اور بورڈ کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کیلیے ہائی پرفارمنس منیجر کے عہدے کی تشکیل بہت ضروری ہے، انھوں نے ان خیالات کا اظہار ویب سائٹ ''کرک انفو'' کوانٹرویو میں کیا۔
ورلڈ ٹوئنٹی 20 میں ٹیم کی شرمناک پرفارمنس کے بعد مستعفی ہونے والے ہیڈ کوچ وقار یونس اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اپنی حالیہ 2سالہ مدت میں صورتحال کو بہتر بنانے میں کردار ادا نہیں کرسکے، انھوں نے اس کی بڑی وجہ انتظامی سطح پر واضح سمت کا تعین نہ ہونے کو گردانا،سابق پیسر نے چیئرمین شہریار خان اور ایگزیکٹیو کمیٹی چیئرمین نجم سیٹھی کی صورت میں بورڈ پر 2 سربراہوں کی حکمرانی کو بھی ایک بڑا مسئلہ قرار دیا جو کھیل کو دو یکسر مختلف سمت میں لے جانا چاہتے ہیں۔
وقار یونس نے کہاکہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت ایک فیملی کے دوسربراہ ہیں اور اس سے صورتحال میں بہتری کی توقع نہیں رکھی جا سکتی، اس کی وجہ سے صرف کوچ ہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر کھیل کا بھی نقصان ہورہا ہے، دونوں سربراہان کی الگ الگ سمت ہیں،انھیں اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت اور یہی سب سے زیادہ اہم ہے۔
وقاریونس نے پاکستان کرکٹ بورڈ کو اس کے اصل اغراض و مقاصد یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ اسے پاکستان میں کرکٹ کو فروغ دینے کیلیے قائم کیا گیا، اس کے برعکس نہیں کرنا چاہیے، میں پہلے بھی یہ کہہ چکاکہ بورڈ میں جولوگ بیٹھے ہیں انھیں ٹیم اور کوچنگ اسٹاف کے پاس آنا چاہیے، اس سے معاملات بہتر ہوں گے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ کرکٹ ٹیم اور کھیل کے لیے ہیں، کرکٹ ٹیم ان کے لیے نہیں ہے۔ وقار یونس نے ایک تلخ حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں ایسا کلچر رائج ہو چکا جس میں کرکٹ ٹیموں کو بورڈ حکام سے چیزوں کیلیے 'بھیک' مانگنا پڑتی ہے۔
سابق کوچ سے سوال کیا گیا کہ جب صورتحال ایسی ہی دگرگوں تھی تو وہ اپنی ذمہ داری سے چمٹے کیوں رہے، اس پر انھوں نے کہاکہ میں نے تبدیلی کی امید پر کام جاری رکھا مگر وہ نہیں کرپایا جوکرنا چاہتا تھا، میں نے ہمیشہ نوجوان کھلاڑیوں کو سپورٹ کیا، انھیں ٹیم میں لانے کی حمایت کرتا رہا مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا، ایسی قوتیں موجود ہیں جنھوں نے مجھے ایسا کرنے ہی نہیں دیا، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ میں پہلے چھوڑ کر کیوں نہیں چلا گیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے اپنے آئیڈیاز پر یقین تھا کہ میں خرابیوں پر قابو پانے میں کامیاب ہوجاؤں گا، اس کیلیے آپ کو سسٹم میں رہنے کی ضرورت ہوتی ہے، میں نے کوشش بھی کی مگر کامیاب نہیں ہوسکا۔
شاہد خان آفریدی کے حوالے سے وقار نے کہاکہ آفریدی کی بطور کپتان ناکامی سب نے دیکھ لی، ان کا اصل مسئلہ ٹمپرامنٹ ہے، وہ چیزوں کی نشاندہی کیلیے زیادہ دیر ٹک کر بیٹھ سکتے نہ ہی ان کو سمجھ کر عملدرآمد کرسکتے ہیں، ان کے برعکس میرے مصباح الحق سے تعلقات اس لیے بہتر رہے کہ ان کا ٹمپرامنٹ بہت زیادہ ہے، وہ گھنٹوں کرکٹ پر بات کرسکتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ بطور کپتان آپ کو کوچ سے بہت سی چیزیں سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
وقار نے مزید کہا کہ میں نے آفریدی سے تعلقات بہتر رکھنے چاہے مگرخفیہ رپورٹ افشا ہونے سے وہ متاثر ہوئے۔ وقار یونس نے مزید کہا کہ میں نے اپنے رپورٹ میں ہائی پرفارمنس منیجر کی پوسٹ تشکیل دینے کی سفارش کردی ہے،وہ بورڈ اور پلیئرز میں پل کا کردار ادا کرسکتا ہے، اسے صرف کرکٹنگ معاملات سنبھالنے پر مامور ہونا چاہیے،اس کیلیے کسی غیرملکی کی بھی خدمات لی جا سکتی ہیں۔