او آئی سی اور مسلم امہ
استنبول میں جاری اسلامی سربراہی کانفرنس کامقصد امت مسلمہ کو درپیش مسائل کی نشاندہی کرنا اور ان کا مناسب حل ڈھونڈنا ہے
مسلم ممالک تمام تر وسائل اور افرادی قوت رکھنے کے باوجود اپنے ہاں داخلی سطح پر جنم لینے والے مسائل حل کرنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ فوٹو : فائل
ترکی کے شہر استنبول میں ہونے والے دو روزہ تیرھویں اسلامی سربراہ اجلاس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر ممنون حسین نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہیے، پاکستان کشمیری بھائیوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد جاری رکھے گا، پاکستان چاہتا ہے کہ آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست قائم کی جائے جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو، دہشت گردی مسلم امہ کے لیے ایک خطرے کے طور پر ابھری ہے جس سے نمٹنے کے لیے اسلامی دنیا کو مل کر کام کرنا ہو گا، دہشت گردی کا تعلق کسی مذہب ، رنگ یا نسل سے نہیں یہ بین الاقوامی مسئلہ ہے جس کے خاتمہ کے لیے دنیا کو مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔
تاریخی ناانصافیاں اور نو آبادیاتی طرز عمل بھی دہشت گردی کو تقویت پہنچا رہے ہیں جس کے لیے مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کا حل ناگزیر ہے، دین کے مقدس نام پر خونریزی کرنے والوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جا سکتا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر طیب اردگان نے کہا کہ عالمی برادری دہشت گرد تنظیموں کے خلاف نظریہ بدلے' کارروائی تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ہونی چاہیے۔ خادم حرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے کہا کہ ہم امت اسلامیہ کے مسائل کا حل نکالنے کا مطالبہ کرتے ہیں جن میں مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل تلاش کرنا سرفہرست ہے۔
اس کے علاوہ ہم جنیوا کے فیصلوں اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق شام اور یمن کے بحران کا خاتمہ اور لیبیا میں سیاسی بحران کے خاتمے کے سلسلے میں موجودہ کوششوں کی سپورٹ چاہتے ہیں۔
آج درحقیقت ہمیں اس بات کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے کہ ہم دہشت گردی کی آفت کے خلاف لڑنے کے لیے ساتھ کھڑے ہوجائیں نوجوان نسل کو اس شدید حملے سے بچائیں جس کی زد میں وہ ہے، جو زمین پر دین کے نام پر فساد پھیلا رہے ہیں، ہم نے دہشت گردی کے خلاف اسلامی فوجی اتحاد تشکیل دے کر سنجیدہ قدم اٹھا لیا ہے، آج عالم اسلام کو درپیش تنازعات اور بحرانوں کے ضمن میں متعدد اسلامی ملکوں کو اپنے امور میں مداخلت، فتنوں کے بھڑکائے جانے، تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ، فرقہ وارانہ اور مسلک پرستانہ نعروں کی گونج کا سامنا ہے۔
استنبول میں ہونے والی تیرھویں اسلامی سربراہی کانفرنس کا مقصد امت مسلمہ کو درپیش مسائل کی نشاندہی کرنا اور ان کا مناسب حل ڈھونڈنا ہے۔ کانفرنس کا موضوع ''اتحاد و یکجہتی برائے امن و انصاف'' ہے جس کا مقصد منفی قوتوں کو ناکام بناکر مسلم امہ کا مستقبل محفوظ بنانا ہے۔ جہاں اس وقت پوری اسلامی دنیا کو دہشت گردی کے چیلنج کا سامنا ہے وہاں عراق' شام' لیبیا اور یمن میں جنم لینے والی افراتفری' خلفشار کے خاتمے کے ساتھ ساتھ مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر کا حل ڈھونڈنا ہے۔ ترک صدر طیب اردگان نے مسلم امت کے اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مسلم ممالک کے سربراہان مملکت اور حکومت تمام تر اختلافات بھلا کر دہشت گردی کے خلاف متحد ہو جائیں' فرقہ واریت اور دہشت گردی کے انسداد کے لیے مشترکہ کوششیں ہونی چاہئیں۔
آج عالم اسلام کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو متعدد اسلامی ممالک کو داخلی سطح پر اپنے امور میں مداخلت' فرقہ واریت' تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ جیسے مسائل کا سامنا ہے، مسلم ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے مسلح ملیشیاؤں کو مذہب کے نام پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ مسلح ملیشیا مسلم ممالک میں تقسیم پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ امن و امان کے مسائل جنم دے رہی ہیں جس سے معاشی عدم استحکام میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔مسلم ممالک تمام تر وسائل اور افرادی قوت رکھنے کے باوجود اپنے ہاں داخلی سطح پر جنم لینے والے مسائل حل کرنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔
شام' لیبیا' یمن' عراق اور فلسطین کے مسائل کے حل کے معاملے پر مسلم ممالک میں کہیں بھی اتحاد نظر نہیں آتا' جب ان ممالک میں شکست و ریخت کا عمل شروع ہوا تو تب بھی مسلم ممالک انھیں روکنے میں ناکام رہے اور اب بھی ان کے پاس ان مسائل کے حل کا کوئی عملی ایجنڈا موجود نہیں اور وہ انتشار کا شکار مسلم ممالک کو اس کیفیت سے نکالنے کے لیے خود آگے بڑھ کر کچھ کرنے کے بجائے اقوام متحدہ کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
اخباری اطلاعات کے مطابق استنبول میں اسلامی سربراہی اجلاس کا اختتامی اعلامیہ کانفرنس کے آغاز سے پہلے ہی لیک ہو گیا جس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی پرتشدد کارروائیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ بھارت مزاحمت اور دہشت گردی میں فرق سمجھے۔ اسلامی ممالک کے سربراہوں کے اجلاس نشستند' گفتند اور برخاستند تک محدود ہونے کے بجائے متحد ہو کر مسلم امہ کو درپیش مسائل حل کرنے کی عملی کوششوں پر منتج ہوں تو بہتری کی امید کی جا سکتی ہے ورنہ یہ مسائل کم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔
تاریخی ناانصافیاں اور نو آبادیاتی طرز عمل بھی دہشت گردی کو تقویت پہنچا رہے ہیں جس کے لیے مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کا حل ناگزیر ہے، دین کے مقدس نام پر خونریزی کرنے والوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جا سکتا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر طیب اردگان نے کہا کہ عالمی برادری دہشت گرد تنظیموں کے خلاف نظریہ بدلے' کارروائی تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ہونی چاہیے۔ خادم حرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے کہا کہ ہم امت اسلامیہ کے مسائل کا حل نکالنے کا مطالبہ کرتے ہیں جن میں مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل تلاش کرنا سرفہرست ہے۔
اس کے علاوہ ہم جنیوا کے فیصلوں اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق شام اور یمن کے بحران کا خاتمہ اور لیبیا میں سیاسی بحران کے خاتمے کے سلسلے میں موجودہ کوششوں کی سپورٹ چاہتے ہیں۔
آج درحقیقت ہمیں اس بات کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے کہ ہم دہشت گردی کی آفت کے خلاف لڑنے کے لیے ساتھ کھڑے ہوجائیں نوجوان نسل کو اس شدید حملے سے بچائیں جس کی زد میں وہ ہے، جو زمین پر دین کے نام پر فساد پھیلا رہے ہیں، ہم نے دہشت گردی کے خلاف اسلامی فوجی اتحاد تشکیل دے کر سنجیدہ قدم اٹھا لیا ہے، آج عالم اسلام کو درپیش تنازعات اور بحرانوں کے ضمن میں متعدد اسلامی ملکوں کو اپنے امور میں مداخلت، فتنوں کے بھڑکائے جانے، تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ، فرقہ وارانہ اور مسلک پرستانہ نعروں کی گونج کا سامنا ہے۔
استنبول میں ہونے والی تیرھویں اسلامی سربراہی کانفرنس کا مقصد امت مسلمہ کو درپیش مسائل کی نشاندہی کرنا اور ان کا مناسب حل ڈھونڈنا ہے۔ کانفرنس کا موضوع ''اتحاد و یکجہتی برائے امن و انصاف'' ہے جس کا مقصد منفی قوتوں کو ناکام بناکر مسلم امہ کا مستقبل محفوظ بنانا ہے۔ جہاں اس وقت پوری اسلامی دنیا کو دہشت گردی کے چیلنج کا سامنا ہے وہاں عراق' شام' لیبیا اور یمن میں جنم لینے والی افراتفری' خلفشار کے خاتمے کے ساتھ ساتھ مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر کا حل ڈھونڈنا ہے۔ ترک صدر طیب اردگان نے مسلم امت کے اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مسلم ممالک کے سربراہان مملکت اور حکومت تمام تر اختلافات بھلا کر دہشت گردی کے خلاف متحد ہو جائیں' فرقہ واریت اور دہشت گردی کے انسداد کے لیے مشترکہ کوششیں ہونی چاہئیں۔
آج عالم اسلام کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو متعدد اسلامی ممالک کو داخلی سطح پر اپنے امور میں مداخلت' فرقہ واریت' تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ جیسے مسائل کا سامنا ہے، مسلم ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے مسلح ملیشیاؤں کو مذہب کے نام پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ مسلح ملیشیا مسلم ممالک میں تقسیم پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ امن و امان کے مسائل جنم دے رہی ہیں جس سے معاشی عدم استحکام میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔مسلم ممالک تمام تر وسائل اور افرادی قوت رکھنے کے باوجود اپنے ہاں داخلی سطح پر جنم لینے والے مسائل حل کرنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔
شام' لیبیا' یمن' عراق اور فلسطین کے مسائل کے حل کے معاملے پر مسلم ممالک میں کہیں بھی اتحاد نظر نہیں آتا' جب ان ممالک میں شکست و ریخت کا عمل شروع ہوا تو تب بھی مسلم ممالک انھیں روکنے میں ناکام رہے اور اب بھی ان کے پاس ان مسائل کے حل کا کوئی عملی ایجنڈا موجود نہیں اور وہ انتشار کا شکار مسلم ممالک کو اس کیفیت سے نکالنے کے لیے خود آگے بڑھ کر کچھ کرنے کے بجائے اقوام متحدہ کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
اخباری اطلاعات کے مطابق استنبول میں اسلامی سربراہی اجلاس کا اختتامی اعلامیہ کانفرنس کے آغاز سے پہلے ہی لیک ہو گیا جس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی پرتشدد کارروائیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ بھارت مزاحمت اور دہشت گردی میں فرق سمجھے۔ اسلامی ممالک کے سربراہوں کے اجلاس نشستند' گفتند اور برخاستند تک محدود ہونے کے بجائے متحد ہو کر مسلم امہ کو درپیش مسائل حل کرنے کی عملی کوششوں پر منتج ہوں تو بہتری کی امید کی جا سکتی ہے ورنہ یہ مسائل کم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔