سیاستدانوں کا دل اور چھوٹو
آج کے اخباروں میں دو ایسی خبریں چھپی ہیں کہ ان پر اعتبار نہیں آ رہا
Abdulqhasan@hotmail.com
آج کے اخباروں میں دو ایسی خبریں چھپی ہیں کہ ان پر اعتبار نہیں آ رہا ایک خبر یہ ہے کہ جناب وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنے دل کا معائنہ کرایا ہے۔ ڈاکٹروں نے زیادہ احتیاط کرتے ہوئے ان کے ٹیسٹ لیبارٹری کو بھجوائے ہیں جن کے بعد ہمارے وزیراعظم کے دل کی صحت کا جائزہ لیا جائے گا اور پھر کسی علاج کا فیصلہ ہو گا۔ دوسری خبر بھی تعجب انگیز ہے لیکن پہلے وزیراعظم کے دل کا معاملہ۔ ہمارے سیاسی دانشوروں نے سیاستدانوں کی حالت اور عوام کے بارے میں ان کے رویے دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سیاستدانوں کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔
کچھ کے خیال میں پتھر کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے اور چند دوسرے دانشوروں کے خیال میں پتھر کی جگہ چمڑے کا ایک لوتھڑا ضرور ہوتا ہے جسے دل کہنا مشکل ہے مگر اس کے محل وقوع کے لحاظ سے اسے دل ہی کہا جا سکتا ہے۔ اگر ڈاکٹر حضرات اسے دل قرار دیتے ہیں تو ان کی بات ماننی پڑتی ہے وہ دلوں کے احوال زیادہ جانتے ہیں لیکن سیاسی دانشوروں نے جو کہا ہے وہ بھی غلط نہیں ہے کہ سیاستدانوں کے سینے میں دل نہیں ہوتا کیونکہ کسی دل میں عام لوگوں کے بارے میں جو جذبات پیدا ہوتے ہیں وہ سیاستدانوں کے دلوں میں پیدا نہیں ہوتے بلکہ بعض اوقات تو صورت حال بڑی دگرگوں ہوتی ہے۔
بھٹو صاحب ایک جلوس کی شکل میں ایئرپورٹ سے لاہور شہر آ رہے تھے وہ جس ٹرک پر سوار تھے اتفاق سے بطور رپورٹر مجھے بھی اس میں سواری کا موقع مل گیا۔ ناچتے گاتے کارکنوں کے ہجوم میں جب بھٹو صاحب ریگل چوک پر پہنچے تو یہاں ٹرک رک گیا کہ ہجوم نے راستے بند کر دیے تھے۔ بھٹو صاحب اپنے کارکنوں کے جذبات میں جھوم رہے تھے۔ انھوں نے اپنے ساتھ کھڑے ایک لیڈر سے کہا کہ اگر ان کارکنوں پر گولی چل جائے اور دو چار شہید ہو جائیں تو سیاست نہ جانے کہاں تک پہنچ جائے۔
میرے ساتھ میاں محمود علی قصوری کے صاحبزادے عمر قصوری بھی کھڑے تھے جو بھٹو صاحب کے کارکن بنے ہوئے تھے انھوں نے اپنے لیڈر کی زبان سے اپنے جانثار کارکنوں کے بارے میں جب یہ خیالات سنے تو وہ ٹرک سے اتر گئے اور ہجوم میں غائب ہو گئے۔ میں تو رپورٹر تھا اور مجھے سب کچھ سننا تھا اور میں وہاں موجود رہا۔ عمر نے مجھے دور سے ہاتھ ہلا کر اپنی سیاست پر ماتم کیا اور بھٹو صاحب کی طرف اشارے کیے جو ظاہر ہے کہ ناپسندیدہ تھے۔ بہرکیف یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے سیاستدانوں کے بارے میں یہ بات سچ ثابت کر دی کہ ان کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور وہ معصوم عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔ سیاستدانوں کے ایسے رویے کی چند اور مثالیں بھی میں نے دیکھی ہیں مگر ان کے ذکر کا کیا فائدہ۔ سیاستدان سیاست سے باز نہیں آ سکتے اور ان کے پیروکار ان پر جان نچھاور کرتے رہتے ہیں سیاستدانوں کے سینے میں دل کا معاملہ ڈاکٹروں کے حوالے کیونکہ وہی جانتے ہیں کہ سیاستدانوں کے سینے میں جو دل ہوتا ہے وہ کس نسل اور جنس کا ہوتا ہے۔
اسی لاہور کی ایک اور خبر جو اس دن کے اخباروں میں چھپی ہے۔ وہ کسی ڈاکو کے بارے میں ہے جو چھوٹو نام سے ایک گینگ بنا کر دندنا رہا ہے اور پنجاب کی مشہور پولیس اس کے سامنے بے بس ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ اب فوج بھی اس گروہ کو قابو کرنے کے لیے آ گئی ہے۔ دو تصویریں چھپی ہیں ایک تصویر چھوٹو گینگ کے سربراہ غلام حسین کی ہے جو جدید اسلحہ کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔
اس کے برابر میں دوسری تصویر محترم آئی جی صاحب مشتاق سکھیرا کی ہے جو شہید ہونے والے جوان کی میت پر بھول رکھ رہے ہیں فاتحہ خوانی کے بعد یہ واپس اپنے دفتر یا کسی دوسری جگہ چلے جائیں گے۔ میں ان دو تصویروں کے علاوہ ایک اور تصویر کی تلاش میں تھا یہ تصویر جناب وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی تھی جو انھیں چھوٹو صاحب کے خلاف آپریشن میں ناکامی پر اتروانی تھی کیونکہ پنجاب میں ان کے علاوہ اور کون ہے جو چھوٹو قسم کے ڈاکوؤں کو قابو کرنے کا ذمے دار ہے البتہ ایک خبر ضرور چھپی ہے کہ چھوٹو کے خلاف آپریشن کی ناکامی پر وزیراعلیٰ سخت برہم ہیں اور ذمے دار حکام کی سرزنش کر رہے ہیں۔
گویا ناکام پولیس والوں کی سرزنش ہی کافی تھی چھوٹو بدستور اپنے مسلح اقتدار میں ہے اور پنجاب حکومت کو للکار رہا ہے۔ وہ کام جو پنجاب کا ایک ایس ایچ او کر سکتا ہے وہ کام اب پنجاب پولیس نہیں کر سکی۔ ایک زمانہ تھا جب پولیس کے کئی زبردست قسم کے افسر میرے واقف تھے اور اپنے کارنامے سنایا کرتے تھے۔ اب پولیس کے یہ یاد گار زمانہ لوگ چلے گئے اور تصویریں اتروانے والے آ گئے لیکن بہر کیف ہمیں اپنے تحفظ کے لیے انھیں سے رجوع کرنا ہے اور ان سے گزارش ہے کہ چونکہ میرا ڈرائیور چھٹی پر ہے اور میں بے بس ہوں اس لیے میری مدد کریں اور کالم لے جائیں۔
کچھ کے خیال میں پتھر کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے اور چند دوسرے دانشوروں کے خیال میں پتھر کی جگہ چمڑے کا ایک لوتھڑا ضرور ہوتا ہے جسے دل کہنا مشکل ہے مگر اس کے محل وقوع کے لحاظ سے اسے دل ہی کہا جا سکتا ہے۔ اگر ڈاکٹر حضرات اسے دل قرار دیتے ہیں تو ان کی بات ماننی پڑتی ہے وہ دلوں کے احوال زیادہ جانتے ہیں لیکن سیاسی دانشوروں نے جو کہا ہے وہ بھی غلط نہیں ہے کہ سیاستدانوں کے سینے میں دل نہیں ہوتا کیونکہ کسی دل میں عام لوگوں کے بارے میں جو جذبات پیدا ہوتے ہیں وہ سیاستدانوں کے دلوں میں پیدا نہیں ہوتے بلکہ بعض اوقات تو صورت حال بڑی دگرگوں ہوتی ہے۔
بھٹو صاحب ایک جلوس کی شکل میں ایئرپورٹ سے لاہور شہر آ رہے تھے وہ جس ٹرک پر سوار تھے اتفاق سے بطور رپورٹر مجھے بھی اس میں سواری کا موقع مل گیا۔ ناچتے گاتے کارکنوں کے ہجوم میں جب بھٹو صاحب ریگل چوک پر پہنچے تو یہاں ٹرک رک گیا کہ ہجوم نے راستے بند کر دیے تھے۔ بھٹو صاحب اپنے کارکنوں کے جذبات میں جھوم رہے تھے۔ انھوں نے اپنے ساتھ کھڑے ایک لیڈر سے کہا کہ اگر ان کارکنوں پر گولی چل جائے اور دو چار شہید ہو جائیں تو سیاست نہ جانے کہاں تک پہنچ جائے۔
میرے ساتھ میاں محمود علی قصوری کے صاحبزادے عمر قصوری بھی کھڑے تھے جو بھٹو صاحب کے کارکن بنے ہوئے تھے انھوں نے اپنے لیڈر کی زبان سے اپنے جانثار کارکنوں کے بارے میں جب یہ خیالات سنے تو وہ ٹرک سے اتر گئے اور ہجوم میں غائب ہو گئے۔ میں تو رپورٹر تھا اور مجھے سب کچھ سننا تھا اور میں وہاں موجود رہا۔ عمر نے مجھے دور سے ہاتھ ہلا کر اپنی سیاست پر ماتم کیا اور بھٹو صاحب کی طرف اشارے کیے جو ظاہر ہے کہ ناپسندیدہ تھے۔ بہرکیف یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے سیاستدانوں کے بارے میں یہ بات سچ ثابت کر دی کہ ان کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور وہ معصوم عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔ سیاستدانوں کے ایسے رویے کی چند اور مثالیں بھی میں نے دیکھی ہیں مگر ان کے ذکر کا کیا فائدہ۔ سیاستدان سیاست سے باز نہیں آ سکتے اور ان کے پیروکار ان پر جان نچھاور کرتے رہتے ہیں سیاستدانوں کے سینے میں دل کا معاملہ ڈاکٹروں کے حوالے کیونکہ وہی جانتے ہیں کہ سیاستدانوں کے سینے میں جو دل ہوتا ہے وہ کس نسل اور جنس کا ہوتا ہے۔
اسی لاہور کی ایک اور خبر جو اس دن کے اخباروں میں چھپی ہے۔ وہ کسی ڈاکو کے بارے میں ہے جو چھوٹو نام سے ایک گینگ بنا کر دندنا رہا ہے اور پنجاب کی مشہور پولیس اس کے سامنے بے بس ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ اب فوج بھی اس گروہ کو قابو کرنے کے لیے آ گئی ہے۔ دو تصویریں چھپی ہیں ایک تصویر چھوٹو گینگ کے سربراہ غلام حسین کی ہے جو جدید اسلحہ کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔
اس کے برابر میں دوسری تصویر محترم آئی جی صاحب مشتاق سکھیرا کی ہے جو شہید ہونے والے جوان کی میت پر بھول رکھ رہے ہیں فاتحہ خوانی کے بعد یہ واپس اپنے دفتر یا کسی دوسری جگہ چلے جائیں گے۔ میں ان دو تصویروں کے علاوہ ایک اور تصویر کی تلاش میں تھا یہ تصویر جناب وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی تھی جو انھیں چھوٹو صاحب کے خلاف آپریشن میں ناکامی پر اتروانی تھی کیونکہ پنجاب میں ان کے علاوہ اور کون ہے جو چھوٹو قسم کے ڈاکوؤں کو قابو کرنے کا ذمے دار ہے البتہ ایک خبر ضرور چھپی ہے کہ چھوٹو کے خلاف آپریشن کی ناکامی پر وزیراعلیٰ سخت برہم ہیں اور ذمے دار حکام کی سرزنش کر رہے ہیں۔
گویا ناکام پولیس والوں کی سرزنش ہی کافی تھی چھوٹو بدستور اپنے مسلح اقتدار میں ہے اور پنجاب حکومت کو للکار رہا ہے۔ وہ کام جو پنجاب کا ایک ایس ایچ او کر سکتا ہے وہ کام اب پنجاب پولیس نہیں کر سکی۔ ایک زمانہ تھا جب پولیس کے کئی زبردست قسم کے افسر میرے واقف تھے اور اپنے کارنامے سنایا کرتے تھے۔ اب پولیس کے یہ یاد گار زمانہ لوگ چلے گئے اور تصویریں اتروانے والے آ گئے لیکن بہر کیف ہمیں اپنے تحفظ کے لیے انھیں سے رجوع کرنا ہے اور ان سے گزارش ہے کہ چونکہ میرا ڈرائیور چھٹی پر ہے اور میں بے بس ہوں اس لیے میری مدد کریں اور کالم لے جائیں۔