نوشتۂ دیوار

برٹرینڈرسل نے حضرت موسی ٰ کو تفویض کردہ دس خدائی احکامات کے جواب میں جو دس لبرل ’’احکامات‘ پیش کیے تھے

برٹرینڈرسل نے حضرت موسی ٰ کو تفویض کردہ دس خدائی احکامات کے جواب میں جو دس لبرل ''احکامات' پیش کیے تھے ان میںساتواں نکتہ یہ تھا کہ کبھی نہایت مضحکہ خیز خیال کے اظہار سے مت گھبراؤ کہ آج جو باتیں معمول بن گئی ہیں وہ کل مضحک اور ناقابل قبول سمجھی جاتی تھیں۔ بزرگوار کو علم ہوتا کہ اس کے فکری شاگردوں نے محض اسی ایک نکتے سے خاطر خواہ نتائج حاصل کرلیے ہیں تو وہ خوامخواہ باقی نو نکات میں سر نہ کھپاتا۔

The way of life کے مصنف امریکی اسکالر Carson Holloway امریکا میں بڑھتے ہوئے لبرل ازم اور انحطاط پذیر اخلاقی اقدار کے بارے میں خوفناک حدتک سنجیدہ ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ لبرل ازم کا سب سے بڑا جھوٹ یہ یقین دہانی ہے کہ اگر آپ اپنی اخلاقیات پہ قائم رہنا چاہتے ہیں تو شوق سے رہیں کوئی آپ کو نہیں روکے گا۔یہ وہ دھوکا ہے جو لبرل ازم آپ کواس لیے دیتا ہے کہ بظاہر آپ کی اخلاقیات میں کوئی ڈرامائی تبدیلی نظر نہ آئے لیکن درحقیقت بہت کچھ بدل چکا ہو۔یہ سارا کھیل ساٹھ اور ستر کی دہائی میں شروع ہوا جب کچھ خاص مقاصد کے لیے صنفی انقلاب برپا کیا گیا۔

اس کے لیے اس جنسی تعلق کو جو شادی جیسے مقدس ادارے تک محدود تھا،پھیلا کر ہر اس جگہ پہنچا دیا گیا جہاں دو افراد اپنی مرضی سے جب چاہیں اسے بنا سکیں، سوسائٹی کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔یاد رہے یہ وہی صنفی انقلاب ہے جس کی فکری آبیاری فرائڈ، لارنس اور رائک نے کی۔ جب ایک کلچر کے مقابلے میں کاونٹر کلچر متعارف کروایا گیا جس کی بنیاد ہی رائج اخلاقیات کے رد پہ تھی۔

جب Hugh Hefner نے پلے بوائے میگزین کی اشاعت شروع کی اور شکاگو میں پہلا پلے بوائے کلب کھولا 1959 میں ڈی ایچ لارنس کا نہایت فحش مواد پہ مشتمل Lady Chatterley's Lover کا غیر تحریف شدہ ایڈیشن شایع کرنے کی کوشش کی گئی جس پہ باقاعدہ قانونی کاروائی ہوئی اور یہ اشاعت روکنی پڑی۔اس کے تین سال بعد ہنری ملر کا Tropic of Cancer پیرس میں چھاپا گیا اور نیویارک اسمگل ہوا کیونکہ وہاں اس کی اشاعت پہ پابندی تھی۔

نیویارک میں اس ناول کو فروخت کرنیوالے کتب فروشوں کے خلاف قانونی کاروائی ہوئی حتی کہ امریکی سپریم کورٹ نے مداخلت کرکے معاملہ سلجھایالیکن صرف دو سال بعد ہی حالات اتنے بدل گئے کہ جب John Cleland کا ناول Fanny Hill کی اشاعت پہ پابندی کے خلاف اپیل کی گئی تو سپریم کورٹ کا فیصلہ اس کے حق میں آیا۔یہ فیصلہ درحقیقت امریکی معاشرے کی اخلاقی اقدار کے تابوت کا پہلا کیل تھا۔ اس کے الفاظ تھے: جنس انسانی زندگی کی سب سے بڑی اور پراسرار قوت محرکہ ہے اور ادب میں اس کے اظہار کا حق امریکی آئین دیتا ہے۔

یہ چند ایک مثالیں تھیں کہ کس طرح معاشرے میں جنسی انارکی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پھیلائی گئی ۔ہر بار یہی جھوٹ بولا گیا کہ اس سے کوئی قیامت نہیں آجائے گی یہ کوئی بڑی تبدیلی تو نہیں محض چند ایک جکڑ بندیاں ڈھیلی کرنا ہی تو ہے لیکن قیامت آگئی اور ہمیں خبر بھی نہ ہوئی۔جنسی آزادی کو فریقین کی باہمی رضامندی سے اس طرح نتھی کیا گیا کہ شادی ایک بے معنی ادارہ بن کے رہ گیا پھر نہ تو ہم جنس پرستی قبیح رہی نہ طوائف گیری۔آج کا امریکا اخلاقی اقدار کے لحاظ سے 1964 کے امریکا کے لیے بالکل اجنبی ہے۔


اگر اس زمانے کے لبرل اپنے کیے دھرے کے نتائج کے متعلق جھوٹ نہیں بول رہے تھے تو بے ایمانی ضرور کر رہے تھے اس دکاندار کی طرح جو اپنے سودے کے نقائص کبھی بیان نہیں کرتا۔ہمارے ساتھ لبرل ازم کے نام پہ گزشتہ پچاس سالوں سے دھوکہ ہو رہا ہے اور ابھی تو نتائج پوری طرح منکشف بھی نہیں ہوئے اور نہ ہونگے کیونکہ آزادی بھی تو ایک ارتقا پذیر عمل ہے جو بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اس کا انجام کیا ہوگا اور یہ کہاں جا کر رکے گی ،کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ جنسی لبرل ازم جس پہ کوئی قدغن نہ ہو کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ آپ کو علم نہیں کہ آپ کے بچے بڑے ہوکر کس قسم کے افراد بنیں گے اور آنیوالی نسل کی اقدار کیسی ہونگی؟کوئی ذمے دار شخص اس کی حمایت نہیں کر سکتا۔Holloway اپنی اس فکر مندی میں تنہا نہیں ہیں۔

امریکی معاشرے کے سنجیدہ طبقات جو اخلاقی اقدار پہ یقین رکھتے ہیں اس حوالے سے اتنے ہی فکر مند ہیں۔ان میں سے اکثریت اس بات پہ یقین رکھتی ہے کہ یہ اخلاقی انحطاط راتوں رات نہیں آیا بلکہ غیر محسوس طریقے سے ایک مسلسل اور دھیمے عمل کے ذریعے لایا گیا ہے۔ Daniel Lapinجو امریکا کے مشہور مذہبی اسکالر ہیں اپنی کتاب The Real War Of America میں لکھتے ہیں۔میں اکثر اس موضوع پہ ملک بھر میں بات کرتا ہوں۔ایک بار مجھ سے کہا گیا کہ مذہبی قوتیں اپنی اقدار ہمارے حلق میں ٹھونسنا چاہتی ہیں۔میں نے کہا ٹھیک ہے لیکن کیا سیکولر قوتیں بھی ایسا ہی نہیں کر رہیں؟جب وہ پبلک اسکولوں میں دس سالہ بچوں میں جنسی عمل کی تعلیم دے رہی ہیں اور ساتھ ہی محفوظ جنسی عمل کی مصنوعات تقسیم کر رہی ہیں؟

کیا تم نے اسے سگریٹ نوشی جتنا ہی عام اور نارمل نہیں بنا دیا؟کیا تم فحاشی اور بے راہ روی کو تفریح بنا کر ہمارے ٹی وی لاونج میں نہیں لے آئے؟ دیانتداری سے فیصلہ کرو کہ کیا تم نے اپنی سیکولر اخلاقیات ہم مذہبی امریکیوں کے حلق میں نہیں ٹھونس دیں؟میں تسلیم کرتا ہوں کہ تم ہماری امریکا کے لیے مذہبی روایات کی خواہش کو دفاعی پوزیشن پہ لے آئے ہو اور جب تم حملہ آور ہوتے ہو تو دفاع تو کرنا پڑتا ہے پھر اشتعال انگیزی کا الزام کیوں؟ یہ تو سیلف ڈیفینس ہے۔تمہیں ڈر ہے کہ مذہبی اقدار تم پہ حاوی ہو جائیں گی اور مجھے ڈر ہے کہ ہم ہار جائینگے اور یہ بہت برا ہوگا کیونکہ یہ صرف ہماری ہار نہیں ہو گی۔ Richard F. Ames بھی ایسے ہی فکر مند محقق اور اسکالر ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکا بے شک دنیا کے رہنما ملکوں میں سے ایک ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ بے راہ روی اور بداخلاقی میں بھی امریکا ہی آگے ہے۔عظیم اقوام دنیا کے سامنے عظیم مقاصد اور کردار پیش کرتی ہیں لیکن جب ان کی اقدار اور اخلاقی معیارات انحطاط پذیر ہونے لگیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے دن گنے جا چکے ہیں۔جب خاندان مضبوط ہوتا ہے اور والدین خدا کے بتائے اصولوں پہ زندگی گذارتے ہیں تو قوم بھی مضبوط ہوتی ہے لیکن جب معاشرہ اخلاقی اقدار کو چھوڑ دیتا ہے تو قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ اسی فیصد امریکی خود کو مذہبی سمجھتے ہیں پھر بھی اس بات پہ متفق ہیں کہ معاشرہ تیزی سے تباہ ہوچکا ہے۔

کیا وجہ ہے کہ اسی فیصد مذہبی امریکیوں کے ہوتے یہ نوبت آگئی ہے جب کہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کی بنیاد بائبل کی تعلیمات پہ تھی؟مانا کہ امریکا ایک سیاسی طور پہ مذہبی ریاست نہیں رہی لیکن مذہب اس کی جڑوں میں پانی کی طرح رہا ہے۔اب ہماری قوم دس خدائی احکامات کو چھوڑ کر تیزی سے بداخلاقی کی طرف جارہی ہے اکثر امریکیوں کے نزدیک اب شادی کے بغیر جنسی تعلق اور ہم جنس پرستی سے آگے بڑھ کر کثیر جنسی میں بھی کوئی قباحت نہیں رہی۔ آخر خدا محض فزکس اور کیمسٹری کے اصولوں کا خدا تو نہیں ہے وہ انسانی زندگی کے تمام پہلووں کا خدا ہے جسے نظر انداز کر کے ہم سنگین نتائج بھگت رہے ہیں۔Thomas Dale DeLay جو امریکی ایوان نمایندگان کے سابق ممبر رہے ہیں اپنے ایک حالیہ انٹرویو میںاس دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم امریکیوں نے من حیث القوم خدا کو دیس نکالا دے دیا ہے۔

ہمارے اجداد مذہبی لوگ تھے ایک وقت تھا جب ان کا ایک خدا ہوا کرتا تھا اور وہ اپنی رہنمائی کے لیے اسے پکارتے تھے انھیں علم تھا کہ خدا اور انجیل کے پاس ان کے آلام و مصائب کا علاج موجود ہے۔ انھوں نے قدیم مسیحیت کے اصولوں کو قوم کی تشکیل کے لیے استعمال کیا۔ان ہی کی وجہ سے امریکا عظیم ہے لیکن اس عظمت کو ٹھوکر اس لیے لگی کہ ہم نے اپنا رخ خدا سے پھیر لیا جوابا خدا نے بھی یہی کیا۔آرکنساس کے سابق گورنر Mike Huckabee جو صدارتی امیدوار بھی رہ چکے ہیں ۔

ان سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھ گئے۔فرماتے ہیں جب دس احکامات موجود ہیں تو کسی اور قانون کی کیا ضرورت ہے۔ہماری آزادی کسی خلا میں وجود نہیں رکھتی یہ اس وقت ہی برقرار رہ سکتی ہیں جب اخلاقیات اس کی رہنمائی کے لیے موجود ہوں اور اس کام کے لیے ہمارا مذہب کافی ہے۔ برا ہو ان امریکی مولویوں اور مذہب کی رٹ لگائے رکھنے والے سیاسی دانشوروں کا، جب جب وطن عزیز ترقی اور لبرل ازم کا ایک اور سنگ میل طے کرتا ہے جانے کہاں کہاں سے ڈرانے آجاتے ہیں کھل کے جینے بھی نہیں دیتے۔دقیانوسی کہیں کے!
Load Next Story