کابل خودکش حملہ دہشت گردوں کی سرکوبی کی جائے
پاکستان ایک عرصے سے خطے میں قیام امن کے لیے سرگرداں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ مین کا کردار ادا کر رہا ہے
معاملات سے پہلوتہی برت کر افغانستان نے افغان طالبان کو مضبوطی فراہم کی ہے فوٹو: رائٹرز/فائل
ISLAMABAD:
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں خفیہ ادارے کے مرکزی دفتر کے باہر ہونے والے خودکش حملے میں خواتین اور بچوں سمیت 30 افراد ہلاک اور 327 زخمی ہوگئے۔ افغان وزارت داخلہ کے مطابق حملے کے بعد مسلح افراد سے سیکیورٹی اداروں کی جھڑپ بھی ہوئی۔ واضح رہے دھماکے کے مقام کے قریب افغان وزارت دفاع، فوجی کمپائونڈز اور امریکی سفارتخانہ واقع ہیں۔
اس قدر حساس مقام پر دہشت گردوں کا حملہ ظاہر کرتا ہے کہ افغانستان میں دہشت گرد مضبوط ہو رہے ہیں۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے اس دھماکے کی ذمے داری قبول کی گئی۔ یاد رہے کہ طالبان نے افغان امن عمل کی بحالی کے لیے 4 ملکی کمیٹی کی امن کاوشوں کے بعد گزشتہ ہفتے افغان حکومت اور امریکی اتحادی افواج کے خلاف نئے حملوں کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔ اس مرحلے پر یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ 4 ملکی کمیٹی جو امن عمل کی خواہاں ہے، اس کی کاوشیں ناکام کیوں ہیں؟ اگر افغان طالبان کے حملے یونہی جاری رہتے ہیں تو امن مذاکرات کی حیثیت کیا ہوگی؟ وزیراعظم نوازشریف نے کابل میں دہشت گردی کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے واقعے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر افغانستان کے صدر اشرف غنی سے گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان ایک عرصے سے خطے میں قیام امن کے لیے سرگرداں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ مین کا کردار ادا کر رہا ہے لیکن ساتھ ہی پاکستان کی افغان حکومت سے شکایت رہی ہے کہ وہ نہ صرف مطلوب دہشت گردوں کی پاکستان حوالگی سے گریزاں ہے بلکہ اپنے ملک میں دہشت گرد گروہوں کو پنپنے کا موقع فراہم کررہا ہے۔ پاکستان کی مخلصانہ و پرامن کوششوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنے اور ہٹ دھرمی کا صلہ اب افغان حکومت کو سرکش طالبان کے حملوں کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔
افغان حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ پاکستان نے افغان طالبان پر بھی زور دیا ہے کہ وہ تشدد کا راستہ ترک کرکے مذاکرات شروع کریں۔ افغان طالبان کی قیادت کو واضح پیغام پہنچایا گیا ہے کہ مذاکرات سے انکار کی انھیں بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ حالیہ حملے کے بعد افغان حکومت کو اپنی سابقہ روش ترک کرنا ہوگی، معاملات سے پہلوتہی برت کر افغانستان نے افغان طالبان کو مضبوطی فراہم کی ہے، جس کے نتائج اب افغانستان کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ صائب ہوگا کہ افغانستان امن عمل کے دوران پاکستان کی سفارشات پر عمل پیرا ہو۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں خفیہ ادارے کے مرکزی دفتر کے باہر ہونے والے خودکش حملے میں خواتین اور بچوں سمیت 30 افراد ہلاک اور 327 زخمی ہوگئے۔ افغان وزارت داخلہ کے مطابق حملے کے بعد مسلح افراد سے سیکیورٹی اداروں کی جھڑپ بھی ہوئی۔ واضح رہے دھماکے کے مقام کے قریب افغان وزارت دفاع، فوجی کمپائونڈز اور امریکی سفارتخانہ واقع ہیں۔
اس قدر حساس مقام پر دہشت گردوں کا حملہ ظاہر کرتا ہے کہ افغانستان میں دہشت گرد مضبوط ہو رہے ہیں۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے اس دھماکے کی ذمے داری قبول کی گئی۔ یاد رہے کہ طالبان نے افغان امن عمل کی بحالی کے لیے 4 ملکی کمیٹی کی امن کاوشوں کے بعد گزشتہ ہفتے افغان حکومت اور امریکی اتحادی افواج کے خلاف نئے حملوں کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔ اس مرحلے پر یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ 4 ملکی کمیٹی جو امن عمل کی خواہاں ہے، اس کی کاوشیں ناکام کیوں ہیں؟ اگر افغان طالبان کے حملے یونہی جاری رہتے ہیں تو امن مذاکرات کی حیثیت کیا ہوگی؟ وزیراعظم نوازشریف نے کابل میں دہشت گردی کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے واقعے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر افغانستان کے صدر اشرف غنی سے گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان ایک عرصے سے خطے میں قیام امن کے لیے سرگرداں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ مین کا کردار ادا کر رہا ہے لیکن ساتھ ہی پاکستان کی افغان حکومت سے شکایت رہی ہے کہ وہ نہ صرف مطلوب دہشت گردوں کی پاکستان حوالگی سے گریزاں ہے بلکہ اپنے ملک میں دہشت گرد گروہوں کو پنپنے کا موقع فراہم کررہا ہے۔ پاکستان کی مخلصانہ و پرامن کوششوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنے اور ہٹ دھرمی کا صلہ اب افغان حکومت کو سرکش طالبان کے حملوں کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔
افغان حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ پاکستان نے افغان طالبان پر بھی زور دیا ہے کہ وہ تشدد کا راستہ ترک کرکے مذاکرات شروع کریں۔ افغان طالبان کی قیادت کو واضح پیغام پہنچایا گیا ہے کہ مذاکرات سے انکار کی انھیں بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ حالیہ حملے کے بعد افغان حکومت کو اپنی سابقہ روش ترک کرنا ہوگی، معاملات سے پہلوتہی برت کر افغانستان نے افغان طالبان کو مضبوطی فراہم کی ہے، جس کے نتائج اب افغانستان کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ صائب ہوگا کہ افغانستان امن عمل کے دوران پاکستان کی سفارشات پر عمل پیرا ہو۔