نیا سیزن

ہم آج ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود کیا ہیں بااثر ملکوں کے خوشامدی ہر پاکستانی کو اپنی عزت کا شاید کچھ احساس ہے

Abdulqhasan@hotmail.com

یہ کالم لکھنے کو تو میں لکھ رہا ہوں لیکن اس کا مرکزی خیال میرا نہیں میرے ایک گھریلو ملازم نے ٹی وی پر لیڈروں کی ایک ملاقات اور ان کی گپ شپ دیکھ کر کہا کہ یہ حضرات جن کو میں یہاں بارہا چائے پلا چکا ہوں مجھے یقین ہے کہ یہ جو بات بھی کر رہے ہیں ہماری یعنی ہم عوام کی بات نہیں کر رہے لیکن یہ سب ہمارے لیڈر ہیں اور ہمارے مسائل کو اپنی ذمے داری سمجھتے ہیں اور اس کا بارہا ذکر بھی کرتے ہیں کیونکہ انھوں نے آنے والے الیکشن میں ہمارا ووٹ لینا ہوتا ہے لیکن ووٹ لینے کے بعد ان کے ہوس کے گوناگوں نمونوں میں ایک تو وہ ہے جس کے بارے میں چند دن پہلے انھوں نے کہا کہ ہمیں اپنی اسمبلی کی اس ممبری کا معاوضہ اتنا کم ملتا ہے کہ ہمیں اس کی رسید پر دستخط کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔

اس لیے ہماری یہ تنخواہ بڑھائی جائے اور ہمیں اس شرمندگی سے بچایا جائے جو ہمیں ہر مہینے لاحق ہو جاتی ہے۔ میں آپ کو بتا دوں کہ جن لوگوں کو ہم کسی اسمبلی کا ووٹ دیتے ہیں وہ اگر کامیاب ہو جاتے ہیں تو انھیں اس کامیابی کی تنخواہ بھی ملتی ہے جس کا وہ شکوہ کرتے ہیں کہ بہت کم ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ ان کا یہ شکوہ صرف اس تنخواہ کی کمی کا نہیں ہو گا بلکہ انھوں نے شاید یہ بھی بتایا ہو گا کہ ان ووٹوں پر ہم نے کتنا خرچ کیا ہے جس کا ہمیں یہ حقیر سا معاوضہ مل رہا ہے۔

میں یہاں مسلمانوں کے ان نمایندوں کا ذکر نہیں کروں گا جن پر ان کی معافی کی منت سماجت کے باوجود یہ نمایندگی ان پر ٹھونس دی گئی اور جب ان نمایندوں میں سے ایک پر نمایندگی کا یہ بوجھ پڑا تو ان سے کہا گیا کہ اب آپ کو اپنی دکان بند کرنی پڑے گی کہ حکومت چلانے سے اتنا وقت ہی نہیں بچے گا کہ آپ کوئی اور کام کر سکیں اس لیے اخراجات کے لیے آپ کی تنخواہ مقرر کر دیتے ہیں جواب میں خلیفہ وقت نے کہا کہ ان دنوں مدینے کے ایک مزدور کی جو تنخواہ چل رہی ہے وہی مقرر کر دیں اس پر ان کی کابینہ نے کہا کہ یہ تو بہت کم ہے اس میں آپ کی گزر بسر نہیں ہو سکے گی اس پر اس وقت کی سب سے بڑی حکومت کے حکمران نے کہا کہ پھر ہم مدینہ شہر کے مزدور کی تنخواہ بڑھا دیتے ہیں میری تنخواہ خود بخود ہی بڑھ جائے گی۔ میں تاریخ کا یہ ناقابل یقین واقعہ پہلے ہی بیان کر چکا ہوں ایسے واقعات کو بار بار نقل کرنے کا مقصد کسی کو غیرت دلانا ہوتا ہے۔


ایک اور واقعہ۔ یہ عمر بن عبدالعزیز کا واقعہ ہے عید آئی تو بچوں کے لیے نئے کپڑے نہیں تھے۔ انھوں نے ماں سے ذکر کیا جو خود ایک شہزادی تھی اس نے شوہر کو یاد دلایا تو وہ بیت المال کے سربراہ کے پاس پہنچے اور ایک مہینے کی تنخواہ ایڈوانس دینے کی درخواست کی۔ بیت المال کے سربراہ نے کہا کہ جناب آپ مالک ہیں سارا بیت المال آپ کا ہے جتنی رقم چاہے لے لیں لیکن اس کی واپسی کی ضمانت دے دیں کہ آپ تب تک زندہ سلامت رہیں گے اور قومی بیت المال اس رقم سے محروم نہیں ہو جائے گا یہ شرط سن کر خلیفہ وقت خاموش ہو گیا اور گھر جا کر بیوی سے کہا کہ تم کوئی بندوبست کرو مجھے تو یہ جواب ملا ہے۔ ان کی بیوی فاطمہ بادشاہ عبدالمالک کی بیٹی تھی اور عمر بن عبدالعزیز کے ساتھ دونوں کی محبت کی شادی تھی جو بیٹیوں کو عید پر نئے کپڑے نہ دے سکے لیکن حکومتی نظم و نسق کا یہ حال تھا کہ بادشاہ کو عید پر بیٹیوں کے لیے نئے کپڑے نہ مل سکے۔

یہ ہمارے حکمران تھے جن کے انصاف اور عدل کی مثال دی جاتی ہے اور ان کی ایسی ہی خصوصیات تھیں کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کے مالک تھے اور دشمن ان کی خوشامد کرتے تھے کہ وہ ان سے ناراض نہ ہوں لیکن ہم آج ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود کیا ہیں بااثر ملکوں کے خوشامدی ہر پاکستانی کو اپنی عزت کا شاید کچھ احساس ہے۔ میں کسی لیڈر کا بیان پڑھ رہا تھا کہ بھارت کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہماری مجبوری ہے نہ معلوم وہ بھارت کون ہے اور اس کے ساتھ تعلقات کیا ہیں جو ہماری مجبوری ہیں البتہ ہمارے وزیراعظم نے اپنا عہدہ سنبھالنے پر بھارت کے ساتھ جس کاروبار اور تجارتی تعلقات کا ذکر کیا تھا وہ پاکستانیوں کو یاد رکھنا چاہیے اور یہ بھی کہ انھوں نے اپنے وزیراعظم کو دل کھول کر ووٹ اس لیے دیے کہ وہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کریں گے۔ ہندو بنیا اور پاکستانی نسلی تاجر دونوں کا قارورہ ملتا ہے۔

بات تو لیڈروں اور عوام کی شروع ہوئی تھی جس کی نشاندہی میرے ایک ملازم نے کی تھی کیونکہ وہ پاکستان کے عام لوگوں میں سے ہے جسے ان بڑوں کی خاطر تواضع کرنی پڑتی ہے کیونکہ وہ میرے ہاں کام کرتا ہے اور مجھے احساس ہے کہ وہ اس پر شرمندہ ہے کیونکہ اسے ان لوگوں کی خاطر تواضع کرنی ہوتی ہے جس سے وہ خوش نہیں وہ دوسرے نوکروں میں اپنی بغاوت کے زہریلے خیالات پھیلاتا رہتا ہے میں نے اسے سمجھایا کہ تم نے اور تمہارے ان دوستوں نے زندگی بھر ملازمت بھی کرنی ہے اس لیے یہ عذاب خوشی سے برداشت کرو۔

اس نے میری اس بات کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہم سب نہایت دیانت محنت اور وفاداری کے ساتھ کام کرتے ہیں اس کا اجر وہ تنخواہ نہیں جو آپ دیتے ہیں بلکہ اس کا اجر ہماری دیانت داری کا ثمر ہے جو ہمیں مل کر رہے گا۔ میں نے اسے دلیل کے ذریعے نہیں بس ویسے ہی چپ ہو جانے کے لیے کہا اور وہ بدلتے موسم کے لیے میرے جوتے تلاش کرنے لگ گیا شام تک ان کی پالش کی ان کو صاف کیا اور ایک قطار میں رکھ دیا۔ میں نے بڑی مشکل سے اور اصرار کے ساتھ ایک چپل اسے دے دی اور ہم دونوں کا نیا سیزن شروع ہو گیا۔
Load Next Story