یہ جرگے کہاں سے آتے ہیں

بے جان کیوں نہیں ہو جاتا اور ایسی زندگی سے کیا لینا ہے جس میں اسلام تو دور دور تک نہ ہو عام سی انسانیت بھی نہ ہو۔

Abdulqhasan@hotmail.com

میرا قلم یہ اقرار کرنے پر تیار نہیں کہ ایسا واقعہ اس ملک میں بھی ہو سکتا ہے۔ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہیں اور اس نام کی رٹ لگانے سے باز نہیں آتے کہ اس طرح اور اس ورد سے اس ملک میں وہ برکت پیدا ہو گی جو کسی مسلمان ملک میں لازم ہے لیکن وہ برکت تو کجا اس ملک میں تو وہ عام سی شائستگی بھی دکھائی نہیں دیتی جس کا اس کے نام سے دور دور کا تعلق بھی نہیں ہے اور جسے بولتے یا لکھتے ہوئے کسی پاکستانی مسلمان کا دل کانپ جاتا۔ وہ پاکستانی شہری تو کجا اس کا بے جان قلم بھی شرم میں ڈوب نہیں جاتا اور ہاتھ پاؤں ڈھیلے نہیں چھوڑ دیتا، بے جان کیوں نہیں ہو جاتا اور ایسی زندگی سے کیا لینا ہے جس میں اسلام تو دور دور تک نہ ہو عام سی انسانیت بھی نہ ہو۔

یہ پاکستان کے ایک پرفضا شہر کا قصہ ہے جو ایبٹ آباد کے نام سے معروف ہے اور جس کے ایک نواحی علاقے مکول پائیں میں ایک بے گناہ عنبرین نامی لڑکی کو دردناک موت سے دوچار نہ کر دیا ہو۔ اس لڑکی کو اپنی سہیلی صائمہ کی مدد کرنے پر سزا نہ دی ہو یعنی اسے زندہ جلا نہ دیا ہو۔ اس لڑکی کی ماں سمیت 14 ملزموں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ایبٹ آباد کے ڈی پی او خرم شہزاد نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ 23 اپریل کو ایک جرگہ کے حکم پر اس لڑکی کو زندہ جلا دیا گیا۔ بتایا گیا کہ مکول کی ایک لڑکی صائمہ جو عنبرین کی دوست تھی اس نے گھر سے بھاگ کر پسند کی شادی کر لی اور کراچی چلی گئی۔

عنبرین نے اپنی سہیلی کے بھاگنے اور شادی کرنے میں اس کی مدد کی۔ اس علاقے کے چند اوباش لڑکوں نے ایک گروپ بنا رکھا تھا۔ اس گروپ نے 28 اپریل کو ایک جرگہ بلایا اس میں پیش پیش ولیج کونسل کا کونسلر پرویز کی قیادت میں ایک گروپ بنایا ہوا تھا جنھوں نے 28 اپریل کو ایک جرگہ بلایا جس میں متعدد افراد شامل تھے۔ انھوں نے یہ فیصلہ سنایا کہ عنبرین کو عبرت کا نشانہ بنایا جائے تا کہ آیندہ کوئی لڑکی پسند کی شادی کر کے گھر سے نہ بھاگے۔ اس ساری صورتحال کا عنبرین کی ماں کو علم تھا لیکن وہ اس بدمعاش گروپ کے سامنے بے بس تھی۔ اس نے رات کے وقت خاموشی سے لڑکی کو ان درندوں کے حوالے کر دیا۔

اس بدمعاش گروپ نے 29 اپریل کو لڑکی کو ادویات دے کر بے ہوش کیا اور پھر گلے میں اسی کا دوپٹہ ڈال کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ تمام ثبوت مٹانے کے لیے عنبرین کو سزا کے طور پر جرگے کے رکن محمد نصیر کی سوزوکی وین میں بٹھا کر گاڑی سمیت جلا دیا گیا کیونکہ اسی گاڑی میں صائمہ مکول سے ایبٹ آباد فرار ہوئی تھی۔ عنبرین کو مردہ حالت میں ڈونگا گلی میں گاڑی سمیت جلا دیا گیا جب کہ اس کے ساتھ دیگر کھڑی گاڑیاں بھی جل کر تباہ ہو گئیں۔ عنبرین کو سوزوکی وین کی پچھے والی سیٹ پر باندھا گیا تا کہ آگ لگنے سے گاڑی کا سلنڈر پھٹ جائے اور تمام ثبوت مٹ جائیں۔

سارے گاؤں والے واقعہ سے آگاہ تھے تاہم کوئی گواہ بننے کو تیار نہیں تھا۔ پولیس کو کامیابی ایک کال سے ملی جو نصیر کے فون سے ہوئی۔ بدھ کی رات سے ملزموں کو پکڑنے کا سلسلہ شروع ہوا اور آخری ملزم گزشتہ صبح 8 بجے گرفتار کیا گیا۔ گرفتار ہونے والوں میں جرگے کے 11 ارکان، لڑکی کی ماں اور 2 سہولت کار شامل ہیں جب کہ جرگے کے 2 ارکان پرویز ولد گل زمان اور واجد عرف بولا کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ ڈی پی او نے کہا کہ نام نہاد جرگہ علاقہ عمائدین پر نہیں بلکہ علاقے کے جرائم پیشہ افراد پر مشتمل تھا۔


لڑکی کی ماں بے قصور ہے اس نے خوف کی وجہ سے پولیس کو کچھ نہیں بتایا تاہم وہ بھی پولیس کی حراست میں ہے۔ 14 ملزموں کو دہشت گردی کی عدالت میں پیش کر کے 14 روزہ ڈیمانڈ حاصل کر لیا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے عنبرین کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ملزموں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنے بیان میں جرگہ کے حکم پر عنبرین کا قتل شرمناک مثال قرار دیا اور کہا کہ معصوم عنبرین کے وحشی قاتلوں کو کوئی معافی نہیں ملنی چاہیے۔ عدالت ملزموں کو سخت سزا دے کر مثال قائم کرے۔

مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا مشتاق غنی نے کہا کہ مکول میں لڑکی کو جلانے کے واقعہ کی تحقیقات جاری ہیں۔ تفتیش کے بعد مزید حقائق سامنے آ جائینگے۔ لگتا ہے کہ واقعہ کا ماسٹر مائنڈ کونسلر ہے کیونکہ اسی نے لفنگوں پر مشتمل جرگہ تشکیل دیا۔ انھوں نے کہا کہ ایسے واقعات ہماری روایات کے خلاف ہیں۔ جرگہ سزائیں نہیں سنا سکتے۔ لڑکی کے قتل کے مقدمے میں دہشتگردی کی دفعات شامل کی جائیں گی اور ذمے داروں کو نشان عبرت بنا دینگے۔ ایم پی اے آمنہ سردار کہتی ہیں عنبرین کا قتل جرگے کے کہنے پر نہیں ہوا بلکہ صائمہ کے خاندان نے کیا۔ واضح رہے کہ گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والی صائمہ کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔

خبر کی تفصیلات تو بہت ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں یہ غیرقانونی جرگے کہاں سے آئے ہیں جو انسانوں کی زندگی اور موت کے فیصلے کرتے ہیں۔ یہ واردات تازہ ترین ہے ورنہ جرگے کے کئی فیصلے اخباروں میں چھپ چکے ہیں اور حکومت نے یہ معلوم نہیں کیا کہ یہ متوازی حکومت کیسے چل رہی ہے جو زندگی اور موت کے فیصلے کرتی ہے۔ کہاں ہے ہمارا آئین اور کہاں ہے ہماری انتظامیہ اور پولیس جس کے علم میں سب کچھ ہوتا ہے مگر وہ لاتعلق ہو جاتی ہے اور ہمارے سیاستدان نہیں معلوم کون سی سیاست میں مصروف رہتے ہیں جس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

جرگوں کے زندگی اور موت کے فیصلے پولیس کی دست اندازی کے مقدمے ہیں اور ہمارے وزراء اور بڑے بااختیار لوگ خدا جانے کیوں ایسی قاتلانہ وارداتوں سے لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ یہ جرگے ایک ناقابل فہم ادارے ہیں جو قانون اور آئین سے بالاتر کارروائی کرتے ہیں۔ ان دنوں ہمارے سیاست دان بہت سرگرم ہیں اور ان سے پوچھا جائے کہ وہ عوام کی حفاظت کے لیے کیا کر رہے ہیں اور کیا انھیں ان جرگوں کا علم ہے۔

 
Load Next Story