پانچ حروف کا ایک جناتی لفظ

جس نے غریب کی زندگی کے ہر حق کو اپنے پاؤں کے نیچے دبا رکھا ہے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

کرپشن پانچ حروف سے بننے والا ایک چھوٹا سا لفظ ہے لیکن اس کے پھیلاؤکا عالم یہ ہے کہ دنیا کا کوئی ملک اس کی برکتوں سے خالی نہیں ہے، اس بلائے عظیم کو قابوکرنے کے لیے سخت قوانین اور انصاف کا ایک کڑا نظام موجود ہے، لیکن کرپشن ان کے درمیان سینہ تان کرکھڑا کہہ رہا ہے، بگاڑ لو اگرکچھ بگاڑنا چاہتے ہو، عام سادہ لوح انسان حیرت سے اس عفریت کی منہ زوری کو دیکھ رہا ہے۔

جس نے غریب کی زندگی کے ہر حق کو اپنے پاؤں کے نیچے دبا رکھا ہے۔ مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں میں اس عفریت کے خلاف قانون کسی حد تک متحرک نظر آتے ہیں لیکن پسماندہ ملکوں میں قانون اور انصاف کو موم کی ناک بناکر رکھ دیا گیا ہے اور پاکستان کی اشرافیہ اس موم کی ناک کو اپنی مرضی اور مفادات کے تابع رکھنا چاہتی ہے اور وہ بڑی حد تک اپنے اس مشن میں کامیاب ہے۔

اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں سے لے کر سابق حکمرانوں اور حزب اختلاف کے محترمین تک سب اس حمام میں برہنہ کھڑے نظر آتے ہیں اور موجودہ و سابق حکمرانوں کے خلاف بھاری بھرکم کرپشن کے الزامات میں مقدمات ''زیر سماعت'' ہیں اور ملزمان عدالتوں میں کھڑے ہوکر وکٹری کے نشانات اس لیے دکھاتے ہیں کہ وہ ان موم کی ناک کے اسرار سے واقف ہیں اور ویسے بھی ہمارے قانون اور انصاف کے نظام میں باپ اگر کسی ظلم کے خلاف کوئی شکایت انصاف کے نظام میں لے جاتا ہے تو اس کی شنوائی کا نمبر اس کے پوتوں کے دور ہی میں آتا ہے۔

ہمارے اعلیٰ سطح کے ملزمان چونکہ انصاف کی اس اسمارٹنس کو جانتے ہیں اور اپنی برادری کی طاقت سے بھی واقف ہیں لہٰذا انھیں عدالتوں میں کھڑے ہوکر وکٹری کے نشان بنانے میں کوئی خوف یا شرمندگی نہیں ہوتی۔ جس نظام میں کرپشن کے حوالے سے عدلیہ ایک خط لکھوانے میں برسوں لگا دیتی ہے اور سعی بسیار کے بعد خط لکھوایا جاتا ہے تو وہ راستے میں اس طرح گم ہوجاتا ہے کہ اس کا پتہ کرنے کی کسی میں ہمت نہیں ہوتی اور یہ خط مغلیہ دورکے عشاق کا خط بن کر رہ جاتا ہے۔

آج اس پرانے موضوع پر قلم اٹھانے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ بلوچستان کے وزارت خزانہ سے منسلک ایک سابق سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کی کرپشن کی ایک ایسی اچھوتی کہانی منظر عام پر آئی ہے جن کے گھر سے 65 کروڑ 24 ہزار ڈالر 15 ہزار پونڈ کی کرنسی کے علاوہ سوٹ کیسوں بھری کروڑوں کی پاکستانی کرنسی برآمد ہوئی جس کا مجموعی حجم ڈیڑھ ارب روپے بتایا جا رہا ہے ، زیورات اس سے الگ ہیں۔ یہ کرپشن ایک سیکریٹری خزانہ کی ہے تو اوپرکا کیا حال ہوگا ۔


اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اعلیٰ شخصیات کے خلاف اربوں کی کرپشن کے الزامات ہیں اور ان کے خلاف مقدمات بھی زیرسماعت ہیں لیکن ان کی حرمت ان کی عزت وآبرو ان کا دبدبہ ان کی سیاسی سرگرمیاں دھڑلے سے جاری ہیں اوراس ملک کے یتیم 20 کروڑ عوام ان تماشوں کو حیرت سے دیکھ رہے ہیں اور انھیں یہ احساس تک نہیں کہ یہ اربوں کھربوں کی رقم ان کی دن رات کی محنت کی کمائی ہے جو اگر کرپشن کی نذر نہیں ہوتی تو انھیں دو وقت کی روٹی کا محتاج نہیں ہونا پڑتا۔ہمارے سیاستدان بلاشبہ اس قسم کی برائیوں کے خلاف جہاد کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس سیاسی اور غیر منظم جہاد کا مقصد عوام کو ان کے چھینے ہوئے حق دلانا نہیں بلکہ کرپٹ حکمرانوں کی جگہ لے کر ان کی روایت ہی پر عمل کرتا ہے۔

اس سیاسی جہاد کو بااثر بنانے کے لیے ہر دو فریق عوام کی بھیڑ جمع کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ عوام ہمارے ساتھ ہیں لیکن یہ حضرات غالباً نہیں جانتے کہ 20 کروڑ مظلوموں کی خاموش اکثریت تیل اور تیل کی دھار دیکھ رہی ہے اور جیسے ہی انھیں موقع ملے گا وہ ان ظالموں پر بھوکے شیروں کی طرح ٹوٹ پڑیں گے۔ کرپشن کی ایک بدترین شکل بینکوں سے لیے ہوئے اربوں کے قرض معاف کرانا ہے، ہماری بیوروکریسی سیاستدانوں حکمرانوں کی اس قدر وفادار ہے کہ وہ کرپشن کی ہر صورت میں بچاؤ کے ایسے پہلو تلاشی کرلیتی ہے کہ کرپشن قانونی بن جاتی ہے ہماری اشرافیہ نے دوکھرب کی جو قرضوں کی کرپشن کی ہے اس کے لیے بھی قانونی بچت کے کئی پہلو تلاش کرلیے گئے ہیں۔

کرپشن کی سماجی لعنت کے خلاف اگر صرف قانون اور انصاف پر بھروسہ کرکے بیٹھا گیا تو کرپشن آنے والی کئی نسلوں تک اشرافیہ کی لونڈی بنی رہے گی دنیا میں کئی ملکوں میں کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ برازیل بھی سرمایہ دارانہ نظام کی پھیلائی ہوئی اس گند کا شکار ہے۔

1995 میں برازیل میں ایک ایسا شخص برازیل کا صدر منتخب ہوا جو کرپشن کے مضر اثرات سے واقف تھا، یہ صدر فرینڈوکار دو سو ماہر تعلیم بھی تھے اور ماہر عمرانیات بھی، انھوں نے کرپشن کی روک تھام کے لیے محتسب اور پبلک پراسیکیوٹر کے عہدے قائم کیے اور قانون اور انصاف کے اداروں کو سیاسی دباؤ سے نجات دلا کر اس قدر آزاد اور خودمختار بنایا کہ یہ ادارے کرپشن کے خلاف کارروائیوں میں آزاد ہوگئے۔2003 میں جب فرینڈو کی جگہ لولاداسلووا صدر منتخب ہوئے تو انھوں نے بھی کرپشن کے خلاف سابق صدرکی مہم جاری رکھی، کرپشن کو قابو کرنے میں تین شخصیات پر میس ماگنس، سرگیو مورو اور دلتان دلاگوئل نے نہایت اہم کردار ادا کیا، دو صدور اور تین جینین شخصیات کی کوششوں سے برازیل اب کرپشن سے پاک ملک بنتا جا رہا ہے اور اس کی معیشت تیزی سے ترقی کرتی جا رہی ہے ۔

کہا جا رہا ہے کہ برازیل اکیسویں صدی کی معاشی سپر پاورز میں شامل ہوجائے گا۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اور بین الاقوامی برادری سانپ کو مارنے کے بجائے سانپ کی لکیر کو پیٹ رہے ہیں۔

کرپشن پاکستان میں ہندوستان میں امریکا میں یا روس اور چین میں اس لیے اس کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں کہ کرپشن کوئی اپنا الگ وجود نہیں رکھتی بلکہ یہ اس بدبخت ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے جس کی ابتداء ہی کرپشن سے ہوتی ہے ۔ آپ کرپشن کے خلاف کتنے ہی سخت قوانین بنالیں اسے ہرگز مکمل طور پر ختم نہیں کرسکتے جب تک سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ پانامہ لیکس کے جال میں اگرچہ پھنسا ہوا ہے لیکن اس کی پیشانی پر بل تک نہیں آئے کیونکہ وہ جس نظام میں زندہ ہے اس میں کرپشن کے احتساب سے بچاؤکے سو راستے ہیں لگا لے زور قانون اور انصاف۔
Load Next Story