کنب تعلیم و صحت کے شعبے کی زبوں حالی

مریضوں سے ڈاکٹرز کا رویہ مسیحا کے بجائے پولیس جیسا ہے

15سے زاید اساتذہ اور 100سے زاید طلبا و طالبات نقل کرتے پکڑے گئے ۔ فوٹو : فائل

محکمۂ صحت و تعلیم وہ ادارے ہیں جو انسان کی ذہنی نشو و نما کے ساتھ انہیں معیاری زندگی گزارنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ اگر ایک نظر سندھ کے ان اداروں پر ڈالی جائے تو محکمۂ صحت کا اربوں روپے بجٹ ہے مگر سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کے لیے ادویات ناپید ہیں، ڈاکٹرز تن خواہیں قومی خزانے سے لیتے ہیں مگر کام صرف اپنے نجی کلینکس میں کرتے ہیں۔

کنب اسپتال شہر کا واحد سرکاری اسپتال ہے، جس میں ایک ہی ڈاکٹر اس کا کرتا دھرتا ہے۔ مریض ادویات کو ترستے ہیں، اسپتال میں آلٹرا ساؤنڈ مشین اور بلڈ ٹیسٹ کی تمام مشینیں تو ہیں، مگر اسپتال میں کبھی ٹیسٹ نہیں ہوتے۔ مریضوں سے ڈاکٹرز کا رویہ مسیحا کے بجائے پولیس جیسا ہے۔ گزشتہ 10 برس کا ریکارڈ دیکھا جائے تو ایک بھی ڈیلیوری آپریشن نہیں ہوسکا ہے۔ شہری صحت کی سہولیات سے یک سر محروم ہیں۔ کئی برس سے اسپتال کا بجٹ کہاں جاتا ہے۔۔۔؟ کچھ پتا نہیں۔

سرکاری اسکولوں میں تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ کئی اسکول بند پڑے ہیں۔ غریب لوگ اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے بجائے مختلف گیراجوں میں چھوڑ دیتے ہیں، جہاں وہ محنت مزدوری کرتے ہیں۔ جب کہ ملک میں چائلڈ لیبر پر پابندی ہے۔ کاپی کلچر نے بھی تعلیم کی تباہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ نویں اور دسویں جماعت کے امتحانات کے دوران کوٹ ڈیجی تحصیل میں بڑے پیمانے پر نقل کا بازار گرم رہا۔ امتحانی مراکز کے باہر عام نوجوانوں کا ہجوم اور امتحانی مراکز کے اندر بھی کاپی عام ہوتی رہی۔ اس سلسلے میں اسسٹنٹ کمشنر کوٹ ڈیجی حق نواز شر نے کوٹ ڈیجی تحصیل کے امتحانی مراکز پر چھاپے مارے، جس میں 15 سے زاید اساتذہ اور 100 سے زاید طلبا و طالبات کو نقل کراتے اور کرتے ہوئے پکڑا گیا۔


ایکسپریس سے گفت گو کرتے ہوئے اسسٹنٹ کمشنر کوٹ ڈیجی حق نواز شر نے کہا کہ کاپی کلچر مافیا تعلیم کی تباہی کا ذمے دار ہے۔ کاپی کرنا اور کرانا دونوں ہی جرم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے تعلیم کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جائیں، سندھ کے تمام اسکول جو بند پڑے ہیں وہ ہنگامی بنیادوں پر کھول دیے جائیں، اساتذہ کو نوکری ایمان داری سے کرنے کا پابند بنایا جائے، اساتذہ تنظیموں پر پابندی عاید کی جائے تاکہ تمام اساتذہ صرف اپنے تعلیمی فرائض ادا کرسکیں۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری اسکولوں کا یہ حال ہے کہ اساتذہ کے اپنے بچے پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں کیوںکہ سرکاری اسکولوں میں تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری اسکولوں کے ٹیچر حضرات ماہانہ 50 ہزار روپے سے زاید تن خواہیں وصول کررہے ہیں، مگر پھر بھی اپنی ڈیوٹی ایمان داری سے نہیں کررہے جو عوام سے بڑی زیادتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فی الفور تعلیم کی بہتری اور صحت کے محکموں میں کالی بھیڑوں کے خلاف سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ وہ کاپی کلچر مافیا کو کبھی برداشت نہیں کریں گے، یہ بچے ہماری قوم کے بچے ہیں، انہیں تعلیم دینا ہم سب کا اولین فرض ہے اور وہ اس سلسلے میں اپنی ذمے داری بہ ہر صورت ادا کریں گے ۔

(رپورٹ : ہریش کمار)
Load Next Story