وہ کیا کریں کہ جنہیں انتظار کرنا ہے

ملک میں سرکاری سرپرستی میں تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی معمول بن گئی

harfetaza@yahoo.com

انسان اپنے برے بھلے اعمال لے کر دنیا سے رخصت ہوجائے تو احباب و اقربا چند آنسو بہا کر اور اتنی ہی مٹھی مٹی قبر پہ ڈال کے صبر کرلیتے ہیں،بعض تو شکر بھی کرتے ہیں۔ہاں کوئی جان سے پیارا بیٹھے بٹھائے گم شدہ ہوجائے تو سمجھ نہیں آتا کہ اس پہ رویا جائے یا اس کے لیے رویا جائے۔لاپتہ افراد کے خاندان باری باری ہر دو عمل سے گذرتے اور زندہ رہتے ہیں کہ سانس کی ڈوری ایک آس سے بندھی ہوتی ہے۔

جب اینریک پینا نیتو نے دسمبر 2012 میں میکسیکو کے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا تو ان کو ورثے میں ایک ایسا ملک ملا جو منشیات کے خلاف جنگ کے نتیجے میں تقریبا ادھ موا ہو چکا تھا۔ گذشتہ چھ سال کے عرصے میں ساٹھ ہزار سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔منشیات کے خلاف یہ جنگ ان کے پیش رو فلپ کاڈیرون کے دور میں شروع ہوئی تھی۔جس کے نتائج خاصے خوفناک نکلے۔ یہ جنگ نہ صرف یہ کہ اپنے مقاصد میں ناکام ہوئی بلکہ اس نے ملک کی سکیورٹی فورسز کو لامحدود اختیارات دے کر ایسے بے قابو جن میں بدل دیا جو راستے میں آنے والی ہر شے کواپنی خوراک سمجھ کر نگل جاتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قانون کے محافظ خود دہشت کی علامت بن گئے۔

ملک میں سرکاری سرپرستی میں تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی معمول بن گئی اور ہر وہ شخص جس پہ ریاست کو کسی قسم کا بھی شبہ ہوتا راتوں رات اٹھا لیا جاتا پھر اس کا کچھ پتا نہ چلتا کہ وہ پیدا بھی ہوا تھا یا نہیں۔ منشیات کے خلاف یہ جنگ جو ایک عالمی مہم کا حصہ تھی زور شور سے جاری رہی اور اپنے ہی لوگ لاپتہ ہوتے رہے۔ فلپ کاڈیرون نے کبھی مان کے ہی نہ دیا کہ ان کی فورسز کیا گل کھلا رہی ہیں البتہ آخر وقت میں انھوں نے تسلیم کیا کہ ہاں ایسے چند واقعات ہوئے ہیں جن پہ اتنا شور مچانے کی ضرورت نہیں۔ لوگ لاپتہ ہوتے رہتے ہیں اور جب نہیں ہوئے تھے تو کونسا تیر مار لیتے تھے۔ انھوں نے ایسے چند واقعات کی نیم دلانہ تحقیقات کا بھی تکلف کیا۔البتہ فوج یا پولیس کے کسی ذمے دار کو اس سلسلے میں سزا دینے سے پہلو تہی کرگئے۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اس دوران میکسیکو میں صرف2007 ء میں ڈھائی سو سے زائد افراد لاپتہ ہوئے جن میں سے ڈیڑھ سو کے متعلق یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی ماورائے عدالت کاروائی کا شکار ہوئے۔ ان اداروں میں ملک کی فوج، بحریہ اور پولیس سب شامل ہیں جب کہ ان واقعات کے ذمے دار افسران خود منشیات کے کاروبار اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث گروپوں کی سرپرستی کررہے تھے۔ یہ لاپتہ افراد ان ہزاروں افراد کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں جو گزشتہ چھ سالوں کے دوران سابق صدر کے دور حکومت میں لاپتہ ہوئے۔میکسیکو کی وزارت داخلہ کی ایک حالیہ دستاویز کے مطابق ایسے افراد کی تعداد کم سے کم پچیس ہزار ہے۔یہ کوئی جنگی قیدی نہیں تھے یہ تمام جرائم پیشہ بھی نہیں تھے ، یہ بس تھے اور ریاست کو پسند نہیں تھے۔سو وہ نہیں رہے۔

ان کے خاندان جن میں سے وہ اکثر کے کفیل تھے، انصاف کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے لیکن انصاف ہوتا تو اس کی نوبت کیوں آتی۔ان تمام واقعات میں سرکاری اداروں کی کاروائی کا انداز ایک جیسا تھا۔وہ کسی بھی فرد کو بغیر کسی اریسٹ آڈر کے اٹھا لاتے۔کبھی یہ کاروائی ہنستے کھیلتے گھروں میں افراد خانہ کے سامنے ہوتی کبھی کسی چیک پوسٹ پہ، دفتر میں،کسی پبلک مقام پہ یا جہاں کہیں بھی وہ ہاتھ لگ جائیں۔ سکیورٹی اداروں کے یہ اہلکار سرکاری وردی میں ہوتے اورگرفتار شدگان کو سرکاری گاڑی میں ٹھونس کر جائے وقوعہ سے جائے عبرت و عقوبت تک منتقل کرتے ۔ بعد میں جب اہل خانہ ہیڈ کوارٹر سے ان کی خیریت معلوم کرنے کے لیے رابطہ کرتے تو ان سے کہا جاتا کہ ہوش میں ہو؟

کونسا بندہ کیسا بندہ؟ سنبھال کے رکھا کرو اپنے بچے۔ ادھر ادھر رکھ کے بھول جاتے ہو پھر منہ اٹھائے ہم سے پوچھنے آجاتے ہو۔کچھ کیسز میں جہاں اہل خانہ کو علم ہی نہ ہوتا کہ ان کا لخت جگر گھر کیوں نہیں آیا وہ رپورٹ درج کروانے پولیس اسٹیشن پہنچ جاتے جہاں انھیں یہ قانونی نکتہ سمجھایا جاتا کہ صبح کا بھولا اگر بہتر گھنٹے تک گھر نہ آئے تو اسے بھولا ہی سمجھو اس سے پہلے وہ قانون کی نظر میں بس بھولا بھٹکا ہی ہے جو کبھی بھی گھر لوٹ سکتا ہے یا پھر انھیں مژدہ سنایا جاتا کہ جی آپ کا لاڈلاسکیورٹی اداروں نے کچھ دنوں کے لیے رکھ لیا ہے مناسب کارروائی کے بعد یا تو اسے عدالت بھیج دیا جائے گا یا معصوم ہوا تو آپ کے حوالے کردیا جائے گا۔


ہم نے اس کا اچار ڈالنا ہے۔ یہ بتانا ضروری نہیں کہ سکیورٹی ادارے ایسے ہر ملزم کو فوری طور پہ قانونی کارروائی کے لیے عدالت بھیجنے کے پابند ہوتے ہیں تاکہ ان پہ فرد جرم عائد کرکے مقدمہ چلایا جاسکے نہ یہ بتانا ضروری ہے کہ ان میں سے اکثر کبھی واپس نہ آسکے۔یہ مقدمے اول تو درج ہی نہ ہوتے اور اگر ہو بھی جاتے تو مسلسل لیت لعل اور ٹال مٹول کا شکار ہو جاتے۔ اس کے علاوہ اس جبری گمشدگی کا شکار افراد کو بغیر کسی تفتیش کے کسی نہ کسی جرائم پیشہ گروہ سے منسلک کر دیا جاتا۔یہ کہانی ہر اس خاندان کو سنائی جاتی جو کسی طرح قانون کی مدد حاصل کرنے پہ مصر ہوجاتا۔باقیوں کے لیے یہ زحمت کرنے کی ضرورت نہ تھی۔

لاپتہ فرد کو معاشرے اور خاندان کی نظر میں مجرم ٹھہرانے کا حربہ اتنا کامیاب تھا کہ غمزدہ خاندان کو اس کی بازیابی سے زیادہ اس کی معصومیت ثابت کرنے کی فکر لاحق ہوجاتی جب کہ اس کا کوئی مجرمانہ پس منظر بھی نہ ہوتا۔چونکہ ملک منشیات کے خلاف حالت جنگ میں تھا اس لیے پہلا اور موثر ترین الزام منشیات کی اسمگلنگ یا اس میں ملوث کسی گروہ سے ملزم کا رابطہ ہی ہوتا تھا۔اس کے بعد کسی کو کچھ پوچھنے کی نہ ہمت ہوتی نہ اجازت۔کچھ صورتوں میں یہ تسلیم ہی نہ کیا جاتا کہ ایسا کوئی فرد ایجنسیوں نے اٹھایا ہے۔

وہ خاندان کو بتاتے کہ کشیدہ تعلقات سے دلگیر شخص خود ہی ادھر ادھر چلا گیا ہے جب دھکے کھائے گا تو خاندان کی قدر معلوم ہوگی۔ایسے افراد کی تلاش کے سلسلے میں اہل خانہ کی معاونت جس نیم دلی اور مجرمانہ غفلت کے ساتھ کی جاتی اس نے رفتہ رفتہ انھیں اس پہ مجبور کردیا کہ وہ ایسی کسی کوشش کا حصہ ہی نہ بنیں جس میں خود انھیں ہی کوفت اٹھانی پڑے۔اس کے علاوہ یہ سکیورٹی ادارے لاپتہ افراد کے اہل خانہ سے تگڑا تاوان وصول کرنے میں بھی ملوث تھے البتہ یہ وصولی کسی تیسرے فرد یا جرائم پیشہ گروہ کے ذریعے کی جاتی تھی۔

یہ اور بات تھی کہ تاوان دینے والوں کو بخوبی علم ہوتا تھا کہ وہ اپنے پیارے کی بحفاظت واپسی کی قیمت کسی سرکاری ادارے کو دے رہے ہیں۔وہ خاندان جن کے گھر کے افراد کو براہ راست فوج یا پولیس نے اٹھایا ہوتا تھا سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیوں کے ساتھ خاموشی سے بیٹھ جانے پہ مجبور کردیے جاتے تھے۔اس طرح نہ صرف اس خاندان میں دہشت بیٹھتی تھی بلکہ ان دوسرے لوگوں میں بھی جن کے افراد مستقبل قریب میں اٹھائے جانے کا امکان تھا۔یہ سب اس میکسیکو میں ہو رہا تھا جو لاپتہ افراد سے متعلق ہر فرد کی حفاظت کے بین الاقوامی قانون کا پابند ہے۔

لاپتہ افراد ، جو اپنے پیچھے ایک نہ ختم ہونے والا انتظار چھوڑ جاتے ہیں، صرف میکسیکو سے تعلق نہیں رکھتے۔ یہ کہانی جس کی معلوم ابتدا 1941 میں ہٹلر کے بدنام زمانہ Night and Fog Decree سے ہوئی جس کے تحت ہر سیاسی مخالف کو بلا امتیاز لاپتہ کردیا جاتا تھا، آج لاطینی امریکا کے پیراگوئے، ہنڈراس اور میکسیکو سے لے کر ایشیا کے پاکستان ، افغانستان اور بھارت تک پھیل گئی ہے۔کہیں یہ افراد ریاست کی طرف سے مسلط کردہ منشیات کے خلاف جنگ کا ایندھن بن جاتے ہیں تو کہیں نائن الیون کے بعد دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پہ لاپتہ ہوجاتے ہیں پھر ان کی کوئی خبر نہیں ملتی کہ وہ زند ہ بھی ہیں یا نہیں ان کے پیچھے ان کی بیویاں بچے شوہر والدین اور بہن بھائی روز مرتے اور روز جیتے ہیں۔

مجھے یہ کالم ایسے وقت میں لکھنا پڑ رہا ہے جب گیلانی خاندان اپنے جگر گوشے کی بحفاظت واپسی کا جشن منا رہا ہے اور میرا ان باکس ایسی ای میلز سے بھرا ہوا ہے جس میں دلگیر خاندانوں کے نوحے، ماتم ہیں اور ایک نہ ختم ہونے والا انتظار ہے۔کیا میں انھیں یہ بتاؤں کہ جب وہ انھیں واپس لانا چاہتے ہیں تو تین ممالک کے عسکری اداروں کے تعاون سے ، سرحد پار سے بھی بخیر و عافیت کھینچ لاتے ہیں یا یہ کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کی قیمت سب پہ برابر تقسیم نہیں ہوئی؟
Load Next Story