ہمارے یہ نمائندے

جمہوریت میں تمام اختیارات ان نمائندوں کے پاس ہوتے ہیں جنھیں ہم منتخب کرتے ہیں

Abdulqhasan@hotmail.com

پانامہ لیکس کو ہمارے ایک نیک صفت سیاست دان اور جماعت اسلامی کے امیر محترم سراج الحق نے اللہ کی لاٹھی قرار دیا ہے جو چوروں اچکوں پر پڑے گی اور کسی کو معاف نہیں کرے گی۔ اس لاٹھی کی اصل ضرب تو جب شروع ہو گی تو ملک اس کی سختی اور شور سے گونج اٹھے گا اور کوئی راز باقی نہیں رہ جائے گا لیکن فی الحال یہ لاٹھی قدرے تکلف سے کام لے رہی ہے، شاید یہ بِگڑوں کو درست ہونے کا موقع دے رہی ہے لیکن ہمارے ہاں بگاڑ ماشاء اللہ اتنا زیادہ پیدا ہو چکا ہے کہ حیران کن بن گیا ہے اور اس کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ اسے ان لوگوں نے پیدا کیا ہے جو کسی بھی بگاڑ کو ختم کرنے کا فرض سنبھالے ہوتے ہیں۔

ہمارے منتخب نمائندے یہ اختیار رکھتے ہیں کہ اپنی تنخواہ اور دیگر مراعات جتنی چاہیں بڑھا لیں چنانچہ اپنے ایک رکن اسمبلی کی تحریک پر انھوں نے اپنی تنخواہیں وغیرہ دس گنا تک بڑھا لی ہیں۔ میڈیا میں اگرچہ یہ سب چھپ چکا ہے لیکن میں اسے دوبارہ بیان نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ اسے پڑھ کر میرا جو حال ہوا ہے وہ میں آپ کو نہیں بیان کرنا چاہتا مثلاً ایک رکن اسمبلی کی بنیادی تنخواہ 36 ہزار چار سو 23 روپے ہے لیکن اس میں اضافہ کر کے اسے دو لاکھ کر دیا گیا ہے۔ یوٹیلیٹی الاؤنس 50 ہزار، ٹرانسپورٹ الاؤنس 50 ہزار اور دفتر کی تزئین و آرائش کے لیے ماہانہ ایک لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔

چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر کی تنخواہ چار لاکھ ماہانہ، ڈپٹی اسپیکر اور ڈپٹی چیئرمین کی تین لاکھ، ہر رکن پانچ سال میں ایک مرتبہ تین لاکھ آئی ٹی الاؤنس لے سکے گا۔ علاوہ ازیں کئی مراعات ایسی ہیں جو ان حضرات کے ووٹروں کے تصور میں بھی نہیں آ سکتیں۔ سوائے حیرت کے ان کے حلقہ انتخاب کے حصے میں اور کچھ نہیں آتا اور رعب داب کا یہ عالم ہے کہ کسی سے ناراض ہوں تو اس کے منہ میں جوتا ڈال کر اس سے معافی طلب کرتے ہیں یعنی انسانیت ان کی لغت میں ہے ہی نہیں یعنی کسی نہ کسی طرح ایک بار اسمبلی کے رکن منتخب ہو جائیں پھر اسمبلی کی باقی ماندہ زندگی غیر معمولی موج کے ساتھ بسر کریں۔ تاریخ میں پڑھ کر تو اندازہ نہیں ہوا تھا لیکن اب تاریخ کو دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ کسی زمانے میں فرعون کیا ہوتا تھا۔ جو اب ایک اصطلاح بن چکا ہے کہ تو بڑا فرعون بنا پھرتا ہے۔

انسانی تاریخ فرعونوں سے بھری پڑی ہے اور ان کی فرعونیت کو چیلنج کرنے والوں سے بھی ہمیں فرعونوں کی کہانیوں میں عبرت بھی ملتی ہے اور غصہ بھی۔ ہماری اسمبلی کے اراکین نے خود ہی اپنی تنخواہوں میں جو اضافہ کر لیا ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ لوگ کچھ ان پڑھ بھی تھے کہ یہ اپنی تنخواہوں وغیرہ میں زیادہ اضافہ نہ کر سکے اور نہ ان کو معلوم تھا کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں اور اپنی تنخواہیں اور دیگر مراعات جتنی چاہیں بڑھا سکتے ہیں لیکن ہندسوں کی تعداد میں وہ کچھ ان پڑھ نکلے۔ اب بھی ان کو جو آمدنی ہو گی وہ پوری قوم ادا کرے گی کیونکہ قوم نے ان کو ووٹ دے کر اپنے ہاتھ توڑ لیے ہیں ورنہ یہ دھاندلی نہیں ہو سکتی تھی۔


ہماری اسی قومی اسمبلی میں سینیٹ بھی ہے جسے اعلیٰ ادارہ کہا جاتا ہے اس کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ یہ تنخواہیں سینیٹ کی حد تک زیادہ ہیں بلکہ ناجائز ہیں۔ یہ قوم اس قومی نمائندے جناب ربانی کی شکرگزار ہو گی جنھوں نے ان ناقابل تصور حد تک زیادہ تنخواہوں سے اختلاف کیا ہے اور ان میں اضافے کو ناجائز کہا ہے۔

جناب ربانی جس مکتب سے آئے ہیں اس کی تعلیم کا تقاضا تھا کہ وہ پاکستانیت کا ثبوت دیں اور قوم کے سامنے انصاف کی ایک آواز بلند کریں۔ ہزاروں سے لاکھوں تک اضافہ حیران کن ہے اور اس لحاظ سے شرمناک بھی کہ یہ اضافہ ان لوگوں نے خود ہی کر لیا ہے۔ انھیں اس کا اختیار تھا قانونی نہ اخلاقی۔ بہرکیف اسے بھی ہم پاکستانی ایک سیاسی لیڈر کے بقول خدا کی لاٹھی سمجھیں مگر یہ وہ لاٹھی ہے جو بے آواز نہیں ہے۔ اس کی آواز دور دور تک سنی گئی ہے۔ لیکن یہ لاٹھی سزا کا ایک آلہ تو نہیں ہے جس کی گونج ہماری قوم کے ہر فرد تک پہنچ گئی ہے۔

میں اخبارات میں جب اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں اس اضافہ کا پڑھ رہا تھا خصوصاً یہ بات کہ یہ اضافہ اسمبلی نے نہیں اراکین نے خود ہی کر لیا ہے تو دکھ کے ساتھ ساتھ حیرت زدہ بھی تھا کہ کل کلاں ہمارے یہ منتخب نمائندے کوئی بھی فیصلہ کر سکتے ہیں جو قانونی طور پر نافذ ہو گا۔ جو لوگ اس قدر خودمختاری کا نمونہ پیش کر سکتے ہیں وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں اور ہم یہ سب دیکھتے رہ جائیں گے، کچھ کر نہیں سکیں گے۔

جمہوریت میں تمام اختیارات ان نمائندوں کے پاس ہوتے ہیں جنھیں ہم منتخب کرتے ہیں اور یہ ایک خوبصورت عمل ہے کہ عوام اپنی پسند کے اور دیکھے بھالے لوگ اسمبلیوں میں بھیجیں جو ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں لیکن عوام کے یہ نمائندہ اگر اپنی تنخواہوں کے اضافے میں مصروف ہو جائیں اور عوام کے مفاد کو بھول جائیں تو پھر اس کا علاج وہی ہے جو پاکستان میں ہوا کرتا ہے اور جس پر ہم ہمیشہ ناراض رہتے ہیں۔
Load Next Story