پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانا وقت کی ضرورت ہے

پاکستان اور افغانستان دونوں دہشت گردی کا شکار ہیں دونوں ممالک کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ سرحدوں کو محفوظ بنائیں

پاکستان کی وفاقی حکومت ، خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اس صورت حال کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے ۔ فوٹو : فائل

افغان طالبان کے سربراہ ملا منصور کی ہلاکت کے بعد پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں کو مزید محفوظ بنانے کی ضرورت شدت سے سامنے آئی ہے' دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے ایسا کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے موثر اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں' دوسرا اہم مسئلہ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی وطن واپسی ہے' بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 15لاکھ افغان مہاجر رہ رہے ہیں جب کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں30لاکھ کے لگ بھگ افغان مہاجرین موجود ہیں' انھیں وطن واپس بھجوانا وقت کا تقاضا ہے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز پاک افغان بارڈر طورخم میں پاکستانی اور افغان حکام کے درمیان فلیگ میٹنگ ہوئی جس میں دونوں ممالک کے درمیان بارڈر کی صورتحال پر بات چیت کی گئی ہے۔ ادھر خبر کے مطابق پاکستان کی طرف سے افغان مہاجرین کو دی گئی ڈیڈ لائن بھی ختم ہو رہی ہے جس کے حوالے سے افغان حکام نے پاکستانی حکام کو رمضان کے باعث عیدالفطر کے دسویں روز تک نرمی کرنے کا کہا گیا ہے جس پر حکام اس سلسلے میں وفاقی حکومت کے ساتھ رابطہ کریں گے۔ ادھر یہ بھی اطلاع ہے کہ اب طورخم سے پاکستان آنے والے افغان شہری پاکستان کا ویزہ لیے بغیرپاکستان میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔راہداری پرمٹ صرف پاکستان میں سرحدی علاقے سے ملحق20کلو میٹر کے اندر بسنے والے مخصوص قبائل کو جاری کیا جائے گا تاہم بعد میں انھیں بھی ویزے اور پاسپورٹ کا پابند بنا دیا جائے گا۔

پاکستان اور افغانستان دونوں دہشت گردی کا شکار ہیں' دونوں ممالک کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ سرحدوں کو محفوظ بنائیں اور ایک دوسرے کے ملک میں آنے جانے کے لیے مسلمہ بین الاقوامی قوانین کا نفاذ کریں۔ اب ماضی کی کوتاہیوں کا ازالہ کیا جانا چاہیے' افغانستان میں اس وقت منتخب حکومت قائم ہے' افغانستان کی حکومت کو امریکا اور دیگر مغربی ممالک سے اربوں ڈالر کی امداد مل رہی ہے' وہاں تعمیراتی سرگرمیاں بھی جاری ہیں' ایسی صورت حال میں افغانستان کی حکومت کو پاکستان میں مقیم اپنے شہریوں کی وطن واپسی کو خوش دلی سے قبول کرنا چاہیے۔


اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود ایسے لوگوں کو بھی ان علاقوں سے نکالنا ہو گا جن ڈیورنڈ لائن کے اس پار سے آئے ہیں۔ پاکستان میں انتظامی اعتبار سے یہ بڑا مسئلہ ہے کہ قبائلی علاقوں کے لوگ چونکہ پاکستان بھر میں بلاروک ٹوک آ جا سکتے ہیں' اس سہولت سے ڈیورنڈ لائن کے اس پار بسنے والے افغان قبائلی بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ افغانستان کے لوگ پہلے پاکستانی قبائلی علاقے میں آتے ہیں' یہاں سے انھیں شناخت ملتی ہے اور وہ سیٹلڈ ایریاز میں آ کر کہتے ہیں کہ وہ پاکستانی قبائلی علاقے سے آئے ہیں' یہاں سے ان کا سفر پاکستان کے دیگر شہروں کی طرف شروع ہو جاتا ہے۔

اس صورت حال سے نمٹنے کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ کم از کم دس سال کے لیے پاک افغان بارڈر کو پیدل یا بس اور گاڑی وغیرہ سے کراس کرنے پر پابندی عائد کردی جائے۔صرف ہوائی سفر کی اجازت ہونی چاہیے۔ پاک افغان سرحد سے صرف وہی ٹرانسپورٹ گزرے جو ٹرانزٹ ٹریڈ کے زمرے میں آتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر قسم کی نقل و حرکت بند کر دی جائے۔اس طریقے سے افغان شہریوں کی پاکستان میں آمد بہت محدود ہو جائے گی اور وہاں سے دہشت گردوں کا داخلہ بھی تقریباً نا ممکن ہو جائے گا۔افغانستان کو بھی اس کا وہی فائدہ ہو گا جو پاکستان کو ہو گا یعنی پاکستان کی جانب سے افغانستان جانے والوں کی تعداد بھی بہت محدود ہو جائے گی اور پاکستانی قبائلی علاقوں سے کوئی دہشت گرد یا جنگجو افغانستان میں داخل نہیں ہو سکے گا۔دونوں ملکوں کی حکومت کو ان امور پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

ڈیورنڈ لائن کی آئینی یا قانونی پوزیشن پر دونوں ملک مذاکرات کریں لیکن سرحد کو محفوظ بنانے کے اقدامات کو اس معاملے سے منسلک نہ کریں۔اس میں دونوں ملکوں کی بھلائی ہے۔ پاکستان میں موجود افغان مہاجروں کے بارے میں یہ اطلاعات بھی ہیں کہ وہ یہاں سے کچھ مدت کے لیے افغانستان چلے جاتے ہیں ' وہاں اپنا کاروبار کر رہے ہیں' کچھ عرصے کے بعد یہ ایک طرح سے چھٹیاں گزارنے دوبارہ پاکستان چلے آتے ہیں' یہاں بطور مہاجر جو انھیں فوائد ملتے ہیں ' وہ بھی وصول کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لیے انتہائی تشویشناک ہے۔ پاکستان کی وفاقی حکومت ، خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اس صورت حال کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے ۔
Load Next Story