بلاول بھٹوزرداری کی منفرد پیشکش
ہماری نئی نسل اور خاص طور پر سیاسی سطح پر متحرک نوجوان مفاہمت کا پرچم سربلند رکھنے کے لیے پرجوش اور مستعد ہیں۔
یہ بات بلا خوف ِتردید کہی جاسکتی ہے کہ وطن عزیز کی نئی نسل ذہنی اور فکری اعتبار سے نہایت حقیقت پسند، دور اندیش اور صلح جو ہے۔
اس نسل نے ماضی کے تلخ اور اندوہناک واقعات سے یہ سبق حاصل کیا ہے کہ اگر مملکت ِخداداد کو عالمی برداری میں با وقار مقام دلانا مقصود ہے اور اس کو حقیقی معنوں میں ایک ترقی پسند، فلاحی، اسلامی اور مضبوط ریاست کے طور پر اپنا تشخص اجاگر کرنا ہے تو قومی سیاست میں باہمی احترام، مفاہمت اور صبر و تحمل کی روایت کو مستحکم کرنا ہو گا۔ اس کلچر کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی کہ سیاسی اختلافِ رائے کو ذاتی دشمنی تصور نہ کیا جائے اور سیاسی اختلافات کی خلیج کو اتنا وسیع نہ کیا جائے کہ بوقتِ ضرورت اس کو ختم نہ کیا جا سکے۔
واقفان حال گواہی دیں گے کہ قومی سیاست میں مفاہمت کے جذبے اور سوچ کی عملی ابتدا اس وقت ہوئی جب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی شہادت کے بعد پارٹی کی قائد اور شہید کی بیوہ، بیگم نصرت بھٹو نے جمہوریت کی بحالی اور آمریت کے خاتمے کے لیے ان سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے ساتھ اتحاد کیا جنہوں نے بھٹوحکومت کے خلاف نہ صرف تحریک چلائی تھی بلکہ ان میں سے بعض نے بھٹو صاحب کی زندگی کے خاتمے کا راستہ ہموارکر کے تاریخ میں خود کو رسواکرنے میں کوئی تامل نہیں کیا تھا۔ مفاہمت کے اسی جذبے اور سوچ کو بعد ازاں محترمہ بے نظیربھٹو شہید نے اپنے سیاسی تجربات و مشاہدات اور خاص طور پر جلا وطنی کے دور کے تناظر میں ایک سیاسی فلسفے میں تبدیل کر دیا جس کو بین الاقوامی سطح پر بجا طور پر پذیرائی حاصل ہوئی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی بے وقت اور المناک شہادت کے بعد جب 2008کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی اور اس کو وفاق میں اتحادی حکومت بنانے کا موقع میسر آیا تو اس نے اپنی شہید قائدکے فلسفہ مفاہمت کو مشعل راہ بنایا۔ پارٹی کی قیادت اور کارکنوں نے پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی رہنمائی میں اس فلسفے پر اس میثاق جمہوریت کی روح کے مطابق عمل کیا جس پر محترمہ بے نظیربھٹو اور پاکستان مسلم لیگ کے رہنمامیاں محمد نوازشریف نے دستخط کیے تھے۔ گزشتہ ساڑھے چارسال کے دوران مفاہمت کے اس فلسفے اور جذبے کی مدد سے قومی سیاست کے کئی اہم سنگ میل کامیابی سے عبور کیے گئے ہیں۔
یہ امر انتہائی خوشگوار، حوصلہ افزا اور قابل تحسین ہے کہ ہماری نئی نسل اور خاص طور پر سیاسی سطح پر متحرک نوجوان اس فلسفہ مفاہمت کا پرچم سربلند رکھنے کے لیے پرجوش اور مستعد ہیں۔ اس رجحان کی ایک مثال حال ہی میں اس وقت سامنے آئی جب اسلام آباد میں''مستقبل کے رہنماء'' کے موضوع کے تحت ایک تقریب میں اظہارخیال کرتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کے جواں سال چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے دو ٹوک اور واضح الفاظ میں قومی سلامتی اور تحفظ کے نصب العین کی خاطر اپنے سیاسی حریفوں کو تعاون کی منفرد پیشکش کی۔
اس موقع پر صدر مملکت آصف علی زرداری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ عوامی دانش کی عکاس اور اختیارات کا منبع ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ امن کے قیام تک جاری رہے گی۔ ہماری جنگ ملک کا امن تباہ کرنے والوں کے خلاف ہے۔ یہ ایک مائنڈ سیٹ اور ذہنیت ہے جس نے ہمارے ملک اور عوام پر جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ یہ جنگ امن کے قیام تک جاری رہے گی خواہ اس میں کتنا ہی وقت کیوں نہ لگے۔ صدر نے کہا کہ حالات نے انھیں ملک کا سب سے بڑا عہدہ اور سب سے بڑی سیاسی جماعت کی قیادت سونپی ہے تاہم انھوں نے اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو سونپ دیے۔
صدر نے شرکاء کوبتایا کہ امریکا کے ساتھ مجرموں کی حوالگی کا معاہدہ نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو آج عافیہ صدیقی امریکا کی جیل میں نہیں بلکہ پاکستان میں ہوتیں۔ انھوں نے نوجوانوں سے کہاکہ انھیں جن چیلنجوں کا سامنا ہے ان میں اس سوچ کا مقابلہ بھی کرنا ہے جس نے ملالہ پر حملہ کیا۔ صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ غیر متنازع لیڈر وہی ہوتاہے جو کوئی فیصلہ نہیں کرتا اور میں فیصلوں پر یقین رکھتاہوں۔ اس حوالے سے مجھ پر تنقید بھی ہوتی ہے جسے میں سنتا اور نظر انداز کرتا ہوں۔ صدر کے سیاسی اختیارات کے حوالے سے پارلیمنٹ فیصلہ کر چکی ہے کہ صدر کو سیاسی اختیارات حاصل ہونے چاہئیں جب کہ بقیہ اختیارات پارلیمنٹ کے پاس ہونے چاہئیں۔ ایوان صدر اور پارلیمنٹ دونوں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
قبل ازیں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان ڈرون حملوں کے خلاف ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ حملے پاکستان کی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ امریکا فوری طور پر ڈرون حملے بند کرے۔ اصغرخان کیس سے ثابت ہوا کہ پیپلزپارٹی کا مینڈیٹ چرایا گیا تھا۔ اختلافات کے باوجود پیپلزپارٹی نے مفاہمت کی سیاست کو فروغ دیا۔ اس وقت پاکستان حالت جنگ میں ہے اور اس بارے میں دو رائے نہیں ہونی چاہئیں۔ ملالہ یوسفزئی کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ملالہ کسی کی ایجنٹ نہیں بلکہ محب وطن پاکستانی ہیں اور اب وہ مزاحمت کی علامت بن چکی ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ ملک کے محفوظ مستقبل کی خاطر دہشتگردوں کامقابلہ کرنے کے لیے متحد ہو جائیں۔ وہ اختلافات بھلا کر اس مشترکہ دشمن کے خلاف متحد ہونے کے لیے تیار رہیں۔ ہمیں قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان کو طالبان کے خطرے سے بچانا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) ہمارے اتحاد کا حصہ رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ نواز شریف ملک میں جمہوریت کی حمایت کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔ آج کے نوازشریف 90کی دہائی والے سیاست دان نہیں ہیں۔ بلاول نے آیندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے عمران خان کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ ہم جماعت اسلامی سمیت دینی جماعتوں کے ساتھ اتفاق رائے قائم کر سکتے ہیں۔ ہم مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور ایم ایم اے کے ساتھ مل کر کرپشن کے خلاف کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ اسامہ بن لادن کے واقعہ کے بعد پی پی پی اور صدر پاکستان مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہوئے جب کہ نوازشریف عسکری اور انٹیلی جنس قیادت کو ہٹانے پر زور دے رہے تھے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے عسکری قیادت اور پاکستان کا دفاع کیا اور یوں سپریم کمانڈرکے منصب کی پاسداری کی۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ نوجوان ملک کا مستقبل ہیں۔ ہمیں ورثے میں قرضوں کا بھاری بوجھ ملا اور یہ قرض ان لوگوں نے ہمیں ورثے میں دیا جنہوں نے اپنی آسانی اور مفادات کی خاطر ہمارا مستقبل رہن رکھ دیا۔ نوجوان کل کا انتظار نہ کریں اور آج کے رہنما بنیں۔ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور ملالہ یوسف زئی کی قائم کردہ مثالوں کو مد نظر رکھیں اور ان کی پیروی کریں۔ بعض لوگ طالبان کی حمایت میں امن مارچ کی قیادت کر کے خوش ہوتے ہیں لیکن جب ان کی بہن کو طالبان نے گولی ماری تو وہ طالبان کی مذمت کی جرات نہ کر سکے۔
انھوں نے کہا کہ یہ جمہوریت کاحسن ہے کہ عوام اب اپنے رہنماء خود بن سکتے ہیں اور جسے چاہیں اس کو منتخب کر سکتے ہیں۔ وہ اپنے مقدر کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ ہماری چوائس بڑی آسان ہے یعنی یا تو ہم لاتعلق ہو کربیٹھ جائیں اور ایسے پاکستان کو گوارا کرتے رہیں جس میں ملالہ کو گولی کا نشانہ بنا دیا جائے، محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا جائے اور اسامہ بن لادن ہماری دہلیز پر پکڑا جائے اور یا پھر ہم اس تبدیلی کا حصہ بن جائیں جو ہم سب اس ملک میں دیکھنے کے آرزومند ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب قومی سیاست میں الیکشن 2013 کاچرچا عام ہے اور عوام ذہنی طور پر ایک مرتبہ پھر اپنے ووٹ کے ذریعے اپنی پسند کی قیادت کے انتخاب کے لیے تیار ہو رہے ہیں، پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت اور خاص طور پر اس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے خیالات فکر انگیز قرار دیے جا سکتے ہیں۔ خاص طور پر بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیشن کو کرپشن کے خاتمے کے لیے تعاون کی جو پیشکش کی ہے وہ ان کی سیاسی حقیقت پسندی، جرات مندی اور حب الوطنی کی عکاس ہے۔ توقع ہے کہ ان کی اس پیشکش کو محض سیاسی اختلاف ِرائے کے باعث نظراندازنہیں کیا جائے گا بلکہ اس کے پس منظر میں موجود اس طرز احساس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی جو نئی نسل کا طرہ امتیاز ہے اور جس کی ترجمانی بلاول بھٹو زرداری نے بروقت کی ہے۔
اس نسل نے ماضی کے تلخ اور اندوہناک واقعات سے یہ سبق حاصل کیا ہے کہ اگر مملکت ِخداداد کو عالمی برداری میں با وقار مقام دلانا مقصود ہے اور اس کو حقیقی معنوں میں ایک ترقی پسند، فلاحی، اسلامی اور مضبوط ریاست کے طور پر اپنا تشخص اجاگر کرنا ہے تو قومی سیاست میں باہمی احترام، مفاہمت اور صبر و تحمل کی روایت کو مستحکم کرنا ہو گا۔ اس کلچر کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی کہ سیاسی اختلافِ رائے کو ذاتی دشمنی تصور نہ کیا جائے اور سیاسی اختلافات کی خلیج کو اتنا وسیع نہ کیا جائے کہ بوقتِ ضرورت اس کو ختم نہ کیا جا سکے۔
واقفان حال گواہی دیں گے کہ قومی سیاست میں مفاہمت کے جذبے اور سوچ کی عملی ابتدا اس وقت ہوئی جب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی شہادت کے بعد پارٹی کی قائد اور شہید کی بیوہ، بیگم نصرت بھٹو نے جمہوریت کی بحالی اور آمریت کے خاتمے کے لیے ان سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے ساتھ اتحاد کیا جنہوں نے بھٹوحکومت کے خلاف نہ صرف تحریک چلائی تھی بلکہ ان میں سے بعض نے بھٹو صاحب کی زندگی کے خاتمے کا راستہ ہموارکر کے تاریخ میں خود کو رسواکرنے میں کوئی تامل نہیں کیا تھا۔ مفاہمت کے اسی جذبے اور سوچ کو بعد ازاں محترمہ بے نظیربھٹو شہید نے اپنے سیاسی تجربات و مشاہدات اور خاص طور پر جلا وطنی کے دور کے تناظر میں ایک سیاسی فلسفے میں تبدیل کر دیا جس کو بین الاقوامی سطح پر بجا طور پر پذیرائی حاصل ہوئی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی بے وقت اور المناک شہادت کے بعد جب 2008کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی اور اس کو وفاق میں اتحادی حکومت بنانے کا موقع میسر آیا تو اس نے اپنی شہید قائدکے فلسفہ مفاہمت کو مشعل راہ بنایا۔ پارٹی کی قیادت اور کارکنوں نے پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی رہنمائی میں اس فلسفے پر اس میثاق جمہوریت کی روح کے مطابق عمل کیا جس پر محترمہ بے نظیربھٹو اور پاکستان مسلم لیگ کے رہنمامیاں محمد نوازشریف نے دستخط کیے تھے۔ گزشتہ ساڑھے چارسال کے دوران مفاہمت کے اس فلسفے اور جذبے کی مدد سے قومی سیاست کے کئی اہم سنگ میل کامیابی سے عبور کیے گئے ہیں۔
یہ امر انتہائی خوشگوار، حوصلہ افزا اور قابل تحسین ہے کہ ہماری نئی نسل اور خاص طور پر سیاسی سطح پر متحرک نوجوان اس فلسفہ مفاہمت کا پرچم سربلند رکھنے کے لیے پرجوش اور مستعد ہیں۔ اس رجحان کی ایک مثال حال ہی میں اس وقت سامنے آئی جب اسلام آباد میں''مستقبل کے رہنماء'' کے موضوع کے تحت ایک تقریب میں اظہارخیال کرتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کے جواں سال چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے دو ٹوک اور واضح الفاظ میں قومی سلامتی اور تحفظ کے نصب العین کی خاطر اپنے سیاسی حریفوں کو تعاون کی منفرد پیشکش کی۔
اس موقع پر صدر مملکت آصف علی زرداری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ عوامی دانش کی عکاس اور اختیارات کا منبع ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ امن کے قیام تک جاری رہے گی۔ ہماری جنگ ملک کا امن تباہ کرنے والوں کے خلاف ہے۔ یہ ایک مائنڈ سیٹ اور ذہنیت ہے جس نے ہمارے ملک اور عوام پر جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ یہ جنگ امن کے قیام تک جاری رہے گی خواہ اس میں کتنا ہی وقت کیوں نہ لگے۔ صدر نے کہا کہ حالات نے انھیں ملک کا سب سے بڑا عہدہ اور سب سے بڑی سیاسی جماعت کی قیادت سونپی ہے تاہم انھوں نے اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو سونپ دیے۔
صدر نے شرکاء کوبتایا کہ امریکا کے ساتھ مجرموں کی حوالگی کا معاہدہ نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو آج عافیہ صدیقی امریکا کی جیل میں نہیں بلکہ پاکستان میں ہوتیں۔ انھوں نے نوجوانوں سے کہاکہ انھیں جن چیلنجوں کا سامنا ہے ان میں اس سوچ کا مقابلہ بھی کرنا ہے جس نے ملالہ پر حملہ کیا۔ صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ غیر متنازع لیڈر وہی ہوتاہے جو کوئی فیصلہ نہیں کرتا اور میں فیصلوں پر یقین رکھتاہوں۔ اس حوالے سے مجھ پر تنقید بھی ہوتی ہے جسے میں سنتا اور نظر انداز کرتا ہوں۔ صدر کے سیاسی اختیارات کے حوالے سے پارلیمنٹ فیصلہ کر چکی ہے کہ صدر کو سیاسی اختیارات حاصل ہونے چاہئیں جب کہ بقیہ اختیارات پارلیمنٹ کے پاس ہونے چاہئیں۔ ایوان صدر اور پارلیمنٹ دونوں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
قبل ازیں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان ڈرون حملوں کے خلاف ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ حملے پاکستان کی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ امریکا فوری طور پر ڈرون حملے بند کرے۔ اصغرخان کیس سے ثابت ہوا کہ پیپلزپارٹی کا مینڈیٹ چرایا گیا تھا۔ اختلافات کے باوجود پیپلزپارٹی نے مفاہمت کی سیاست کو فروغ دیا۔ اس وقت پاکستان حالت جنگ میں ہے اور اس بارے میں دو رائے نہیں ہونی چاہئیں۔ ملالہ یوسفزئی کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ملالہ کسی کی ایجنٹ نہیں بلکہ محب وطن پاکستانی ہیں اور اب وہ مزاحمت کی علامت بن چکی ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ ملک کے محفوظ مستقبل کی خاطر دہشتگردوں کامقابلہ کرنے کے لیے متحد ہو جائیں۔ وہ اختلافات بھلا کر اس مشترکہ دشمن کے خلاف متحد ہونے کے لیے تیار رہیں۔ ہمیں قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان کو طالبان کے خطرے سے بچانا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) ہمارے اتحاد کا حصہ رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ نواز شریف ملک میں جمہوریت کی حمایت کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔ آج کے نوازشریف 90کی دہائی والے سیاست دان نہیں ہیں۔ بلاول نے آیندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے عمران خان کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ ہم جماعت اسلامی سمیت دینی جماعتوں کے ساتھ اتفاق رائے قائم کر سکتے ہیں۔ ہم مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور ایم ایم اے کے ساتھ مل کر کرپشن کے خلاف کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ اسامہ بن لادن کے واقعہ کے بعد پی پی پی اور صدر پاکستان مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہوئے جب کہ نوازشریف عسکری اور انٹیلی جنس قیادت کو ہٹانے پر زور دے رہے تھے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے عسکری قیادت اور پاکستان کا دفاع کیا اور یوں سپریم کمانڈرکے منصب کی پاسداری کی۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ نوجوان ملک کا مستقبل ہیں۔ ہمیں ورثے میں قرضوں کا بھاری بوجھ ملا اور یہ قرض ان لوگوں نے ہمیں ورثے میں دیا جنہوں نے اپنی آسانی اور مفادات کی خاطر ہمارا مستقبل رہن رکھ دیا۔ نوجوان کل کا انتظار نہ کریں اور آج کے رہنما بنیں۔ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور ملالہ یوسف زئی کی قائم کردہ مثالوں کو مد نظر رکھیں اور ان کی پیروی کریں۔ بعض لوگ طالبان کی حمایت میں امن مارچ کی قیادت کر کے خوش ہوتے ہیں لیکن جب ان کی بہن کو طالبان نے گولی ماری تو وہ طالبان کی مذمت کی جرات نہ کر سکے۔
انھوں نے کہا کہ یہ جمہوریت کاحسن ہے کہ عوام اب اپنے رہنماء خود بن سکتے ہیں اور جسے چاہیں اس کو منتخب کر سکتے ہیں۔ وہ اپنے مقدر کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ ہماری چوائس بڑی آسان ہے یعنی یا تو ہم لاتعلق ہو کربیٹھ جائیں اور ایسے پاکستان کو گوارا کرتے رہیں جس میں ملالہ کو گولی کا نشانہ بنا دیا جائے، محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا جائے اور اسامہ بن لادن ہماری دہلیز پر پکڑا جائے اور یا پھر ہم اس تبدیلی کا حصہ بن جائیں جو ہم سب اس ملک میں دیکھنے کے آرزومند ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب قومی سیاست میں الیکشن 2013 کاچرچا عام ہے اور عوام ذہنی طور پر ایک مرتبہ پھر اپنے ووٹ کے ذریعے اپنی پسند کی قیادت کے انتخاب کے لیے تیار ہو رہے ہیں، پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت اور خاص طور پر اس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے خیالات فکر انگیز قرار دیے جا سکتے ہیں۔ خاص طور پر بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیشن کو کرپشن کے خاتمے کے لیے تعاون کی جو پیشکش کی ہے وہ ان کی سیاسی حقیقت پسندی، جرات مندی اور حب الوطنی کی عکاس ہے۔ توقع ہے کہ ان کی اس پیشکش کو محض سیاسی اختلاف ِرائے کے باعث نظراندازنہیں کیا جائے گا بلکہ اس کے پس منظر میں موجود اس طرز احساس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی جو نئی نسل کا طرہ امتیاز ہے اور جس کی ترجمانی بلاول بھٹو زرداری نے بروقت کی ہے۔