غریبوں کے لیے مایوس کن بجٹ

پاکستان جدید غلامی گزارنے والے افراد کی تعداد کی بنا پر دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے

tauceeph@gmail.com

KARACHI:
پاکستان جدید غلامی گزارنے والے افراد کی تعداد کی بنا پر دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے ۔ ملک میں ایک تہائی آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ وفاقی بجٹ میں دفاع کے لیے 860ارب روپے مختص کیے گئے ہیں مگر غربت اور جدید غلامی کی زندگی گزارنے والے افراد کے لیے بجٹ مایوس کن ہے۔

حکومت نے مزدورکی کم ازکم تنخواہ 14ہزار روپے طے کی ہے مگر صنعتی و تجارتی ادارے اس تنخواہ کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وفاقی بجٹ کا تجزیہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ دفاع کے لیے 860ارب روپے ، تعلیم کے لیے 79.5ارب ،صحت پر22.4ارب ،بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے114 اور بیت المال کے لیے4ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔دفاعی بجٹ میں ریٹائرڈ افسروں اور جوانوں کی پنشن ،ایٹم بم کی تیاری پر ہونے والے اخراجات اور آپریشن ضرب عضب پر ہونے والے اخراجات شامل نہیں ہیں۔

اسی طرح سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ افراد کی پینشن میں دس فیصد اضافی کی نوید سنائی گئی ہے۔ اقصادی امور کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ وفاقی بجٹ عام آدمی کے گھریلو بجٹ کو بہتر بنانے کے بارے میں خاموش ہے۔ بجٹ کا تجزیہ کرنے والے رپورٹروں نے لکھا ہے کہ دال ،چاول ،گندم ،آٹا اورچینی کی قیمتیں خاصی زیادہ ہیں ۔ملک کے کسی بھی حصے میں روٹی 8روپے سے کم قیمت پر دستیاب نہیں ہے ۔یہی صورتحال دیگر اشیا ء کی ہے ۔حکومت نے ان اشیاء کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے سبسڈی دینے کے لیے کوئی حکمت عملی طے نہیں کی ۔گزشتہ دنوں اخبارات میں یہ خبریں شایع ہوئی تھیں کہ حکومت پیٹرولیم اور اس کی مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ کرنے جارہی ہے ۔

وزیر اعظم نواز شریف نے پانامہ لیکس سے پیدا ہونے والی صورتحال اور اپنے دل کے آپریشن کی بناء پر وزیر پیٹرولیم کو اضافے سے روک دیا تھا مگر عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کی بناء پر اگلے چند ماہ میں حکومت ضرور پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ کرے گی ۔پیٹرول اور مٹی کے تیل کی قیمتیں بڑھنے سے عام آدمی کے استعمال کی قیمتیں بڑھ جائیں گی ۔ رمضان میں مہنگائی کا طوفان کھڑا ہے ، ملک میں اب گوالوں کے دودھ کو استعمال کرنے والے افراد کی تعداد کم ہورہی ہے ، شہر وگاؤں میں لوگ ڈبوں میں بند دودھ استعمال کرنے لگے ہیں ۔

اس بات کا امکان ہے کہ اس کی ایک لیٹر دودھ کی قیمت میں 7روپے کا اضافہ ہوگا ۔بجٹ میں شعبہ صحت کے لیے مختص رقم کم ہے۔ ملک کے سرکاری شعبے میں کام کرنے والے اسپتالوں کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے ، صرف اسلام آباد کے سرکاری اسپتالوں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بہت سے مریض وارڈ میں بیڈ نہ ہونے کی بناء پر داخلے سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ سرکاری اسپتالوں میں مفت میں دوائیاں کھانے اور ٹیسٹ کی سہولتیں مہیا نہیں ہوتیں ۔ڈاکٹروں و طبی عملے کی عدم توجہ دیگر مسائل ہیں۔

ملک میں دواؤں کی قیمتوں کے بارے میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بلیک میلنگ جاری ہے۔ میڈیا کی تعلیم دینے والے سینئر استاد پروفیسر سعید عثمانی کہتے ہیں کہ گزشتہ ایک سال کے دوران بلڈ پریشر ،خون پتلا کرنے دل کے مرض اور اینٹی الرجی دواؤں کی قیمت میں 20فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے ۔اسی طرح طاقت کی دواؤں میں 40فیصد تک اضافہ نظر آتا ہے ۔ یہ دوائیاں درآمد کی جاتی ہیں اور ان کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئی ہیں۔


خطرناک امراض مثلاً یرقان اور کینسر کی دوائیوں کی قیمتیں عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہیں۔چند ماہ قبل پنجاب کے شہر لیہ میں زہریلی مٹھائی کھانے سے مرنے والے افراد کی تعداد 30تک پہنچ گئی تھی ان میں سے بیشتر مریض ایک ہفتے سے زیادہ کی مدت میں جاں بحق ہوئے۔ ان میں سے کئی مریضوں کو لاہور کے اسپتالوں میں منتقل کیا گیا تھا۔ ان اموات کا معاملہ ڈاکٹروں کی نا اہلی اور اسپتالوں میں دستیاب سہولتوں سے منسلک ہوتا ہے ۔اگر اسپتالوں میں جدید سہولتیں ہوتیں تو اس طرح کی اموات کی شرح کم ہوسکتی تھی۔ صحت کا شعبہ صوبائی معاملہ ہے مگر وفاقی حکومت پر صوبوں میں دستیاب سہولتوں کو بہتر بنانے کے لیے سرمایہ کاری پر کوئی بندش نہیں ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار بار بار کہہ رہے ہیں کہ زرعی شعبے کو سب سے زیادہ مراعات دی گئی ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ زرعی شعبے میں استعمال ہونے والی بجلی کے ٹیرف خاص طور پر ٹیوب ویلوں کے لیے بجلی، کیمیائی کھاد کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔حکومت زرعی قرضوں کے حجم میں اضافے اور فش فارمنگ کی حوصلہ افزائی کے لیے رعایت دے رہی ہے۔ حکومت نے چھوٹے زمین داروں کے قرضوں کی عدم ادائیگی پر رعایت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ان اقدامات سے زرعی شعبے کو فائدہ ہوگا مگر کیا یہ فائدہ اسمبلیوں میں موجود بڑے جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں تک ہی محدود رہے گا یا عام کسان بھی اس سے فائدہ اٹھا سکے گا اور پھر اس کا مجموعی فائدہ عام آدمی کو پہنچ سکے گا ؟یہ سوالات اس تناظر میں انتہائی اہم ہیں ۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا یہ نکتہ اہم ہے کہ قومی مالیاتی ایوارڈ کے اعلان کے بغیر وفاقی بجٹ کی کیا حیثیت ہے ؟اس مالیاتی سال میں نئے مالیاتی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ملنے والی آمدنی کا معاملہ طے ہونا باقی ہے مگر وفاقی و صوبائی حکومتیں اس معاملے کو طے کیے بغیر بجٹ تیار کررہی ہیں ۔وزیراعظم نے مختلف وجوہات کی بناء پرمشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں بلایا اور صوبوں کو اب پرانے فارمولے کے تحت رقم ملے گی۔ سندھ میں گیس کے نئے ذخائر دستیاب ہونے کے بعد سندھ پنجاب اور خیبر پختونخوا کو کافی مقدار میں گیس فراہم کررہا ہے ۔

اس گیس کی رائلٹی کی مد میں سندھ کا حصہ بڑھنا چاہیے اور سندھ کو یہ اضافی رقم غربت کے خاتمے پر خرچ کرنی چاہیے مگر سندھ کا حصہ نہ بڑھانے سے سندھ کا احساس محرومی بڑھ جائے گا ۔وفاقی حکومت نے روزگارکے ذرایع پیدا کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے ۔حکومت قومی اداروں کی نجکاری کے در پہ ہے ،یوں یہ خوف پیدا ہوچلا ہے کہ بیروزگاری کی شرح بڑھ جائے گی۔ سندھ ، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں نئے صنعتی اداروں کے قیام کی شرح کم ہے ،وفاقی اور صوبائی حکومتیں سرکاری شعبے میں ملازمتوں کی آسامیاں پیدا نہیں کر رہیں ۔وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی نے اپنے دور میں میرٹ کو پامال کرکے ہزاروں افراد کو بھرتی کیا ہوا ہے ، نوجوانوں کے لیے سرکاری شعبوں میں کوئی نئی جگہ دستیاب نہیں ہے ۔

حکومت سندھ ایسے ہی الزامات ایم کیو ایم پر عائد کرتی ہے، مگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے منظور نظر افراد کو ملازمتیں دے رہی ہیں جب کہ عام آدمی کے لیے مایوسی کے سوا کچھ نہیں ہے۔سعودی عرب میں مالیاتی بحران اورکئی بڑے اداروں میں چھانٹیوں سے پاکستانیوں کے متاثر ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے ، تعلیم یافتہ اور ناخواندہ نوجوانوں کے لیے خلیجی ممالک میں روزگار کے مواقعے کم ہورہے ہیں ۔دہشت گردی کی بناء پر یورپ اور امریکا میں پاکستانیوں کے لیے روزگار کے دروازے پہلے ہی بند ہوچکے ہیں ، نوجوانوں کے لیے ملک میں ہی کچھ ہوسکتا ہے۔

وفاقی بجٹ میں عام آدمی کے باورچی خانے میں استعمال ہونے والی اشیاء، بجلی اور گیس کے نرخ ، چھوٹے مکانات کی تعمیرکے لیے قرضے ، نوجوانوں کو چھوٹی صنعتوں کے قیام کے لیے آسان اور چھوٹے قرضوں کی فراہمی اور جبری غلامی کے شکار افراد اور غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہ بجٹ صرف امراء اور سرکاری ملازمین کے لیے خوشخبری ہے۔
Load Next Story