درد ناک موسم

امریکا کی ساری انٹیلی جنس رپورٹیں مصر میں انقلاب کے ذکر سے خالی تھیں ۔

Abbasather@express.com.pk

دھماکوں اور افواہوں کا درد ناک موسم ہے۔

دھماکے جہاں قیمتی جانیں ضائع کرتے ہیں وہاں اس اعتماد کا بھی کچھ نہ کچھ خون ہو جاتا ہے کہ جمہوری عمل چلتا رہے گا۔ انتخابات وقت پر ہو جائیں گے اور جمہوریت کی ٹرین پٹڑی سے نہیں اترے گی۔ ہر دھماکہ اور ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ اپنے اصل شکار کے ساتھ ساتھ انتخابات کے بروقت ہونے کے یقین کو بھی ہدف بناتا ہے۔ محرم ویسے ہی ہائی سیکیورٹی کا مہینہ ہے اور اس سال یہ ہائی سیکیورٹی مہینہ ایسے وقت میں آیا ہے جب الیکشن ہونے میں صرف ہفتوں کا وقفہ رہ گیا ہے۔

دہشت گردی کی ہر واردات یہ اندیشہ پیدا کرتی ہے کہ ہفتے مہینوں اور برسوں میں نہ بدل جائیں۔ ایسے میں چیف جسٹس سپریم کورٹ کے یہ ریمارکس بھی معنی خیز ہیں کہ قوم عام انتخابات کا التوا برداشت نہیں کرے گی۔ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ ان ریمارکس سے عوام کا اعتماد بڑھا ہے یا وہ مزید شک میں پڑ گئے ہیں۔

کچھ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ چیف جسٹس کو یہ ریمارکس دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟کیا انہیں بھی ایسی کوئی بھنک مل گئی ہے کہ الیکشن سے بچنے کے لئے کہیں نہ کہیں کچھ پک رہا ہے؟ نوازشریف نے کل کہا تھا الیکشن ملتوی کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ کسی نہ کسی اندیشے کو سامنے رکھ کر یہ بات کر رہے تھے۔ انھوں نے فیصلہ '' جواز'' پر ڈال دیا اور یہ نہیں سوچاکہ پاکستان میں ایسے اقدامات کے '' جواز'' ہر وقت موجود رہتے ہیں اور کارروائی ہونے کے بعد خودبخود پیدا ہوجاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے مزاحمت کی ذمے داری عوام پر ڈال دی ہے۔

جب کہ عوامی مزاحمت خود ایسی سائنس ہے جس کے طے شدہ فارمولے ابھی تک دریافت نہیں ہوسکے۔ کن حالات میں عوام مزاحمت کرتے ہیں، کن میں نہیں، کوئی نہیں جانتا۔ مشرف نے مارشل لاء لگانے کے کچھ عرصے بعد ایک لیگل فریم ورک آرڈیننس جاری کیا تھا جسے ایل ایف او کے مختصر نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ، اس حکم کے ذریعے عوام کے حقوق سلب کرلیے گئے اور اقتدار کے جبر کو احتساب کا نام دے کر اپنی مرضی کی پارلیمنٹ بنانے کا فارمولا مکمل کیا گیا۔سیاستدانوں اور قانونی ماہرین نے اسے یکسر مسترد کر دیا اور قطعی طور پر ناقابل قبول قرار دے دیا تھا لیکن عوامی مزاحمت کے نام پر کوئی ایک آدمی بھی سڑکوں پر نہیں آیا۔

پھر جنرل مشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کا غیر مقبول فیصلہ کیا لیکن مذہبی جماعتوں کے محدود مظاہروں کے سوا کوئی واقعہ نہیں ہوا اور یہ مظاہرے بھی چند روز جاری رہ سکے۔ پھر اسی مشرف نے الیکشن میں دھاندلی کرائی۔ دو مقبول ترین جماعتوں کو اقتدار سے باہر رکھا اور کٹھ پتلی پارلیمنٹ مسلط کر دی، کوئی تحریک چلنا تو کجا کہیں کوئی کارنر میٹنگ بھی نہیں ہوئی۔ مہنگائی اور دوسرے معاملات نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی اور کہیں کچھ نہ ہوا، عوام صبر کی تصویر بنے رہے ۔ پھر مشرف نے چیف جسٹس کو معطل کر دیا۔ یہ ایسا اقدام تھا جس کا عوامیت سے بظاہر کوئی تعلق نہیں تھا۔


عوام ایسے تبادلوں اور معطلیوں سے لاتعلق رہتے ہیں اور مشرف کے پیش نظر بھی یہی بات تھی ، چیف جسٹس کا ٹریک ریکارڈ بھی ایک پی سی او جج کا تھا اور ان کا تشخص عوامی ہیرو کا نہیں تھا چنانچہ کوئی بھی آسانی سے یہ پیش گوئی کرسکتا تھا کہ جہاں پورا آئین ہی معطل ہو وہاں ایک چیف جسٹس کی معطلی کی کیا اہمیت ہے لیکن پیش گوئیاں کرنے والوں کو حیرت ہوئی جب یہ معطلی ایک اہم تحریک کو جنم دینے کا باعث بن گئی۔ وکیلوں نے چیف جسٹس کے حق میں تحریک چلائی تو وہ جانتے تھے کہ یہ ایک ٹریڈ یونین قسم کی تحریک ہے۔

عوام کی شرکت کی انہیں توقع تھی نہ انھوں نے عوام سے ایسی کوئی اپیل کی تھی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ عوامی تحریک بن گئی اور اسی تحریک کے نتیجے میں وہ فضا بن گئی جس میں مشرف کو کم سے کم دھاندلی والے انتخابات کرانے پر مجبور ہونا پڑا اور انھی انتخابات کے نتیجے میں ان کی صدارت کی دوسری ٹرم دھری کی دھری رہ گئی۔

مصر میں کیا ہوا۔ وہاں حسنی مبارک نے اپنے اقتدار کی دو دہائیوں میں ہزاروں مخالفوں کو پھانسیاں دیں اور لاکھوں کو قید کیا لیکن کوئی تحریک نہیں چلی اور پھر اچانک تحریک چل پڑی۔ یہ بات غیر ملکی میڈیا کے ریکارڈ پر ہے کہ امریکا کیلئے بھی یہ تحریک حیران کن تھی اور اس کے تمام اندازوں کے برعکس بھی۔ امریکا کی ساری انٹیلی جنس رپورٹیں مصر میں انقلاب کے ذکر سے خالی تھیں ۔

امریکا نے اس انقلاب کو البرادی کے ذریعے ہائی جیک کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہا۔ آخری وار فوج اور صدر مرسی میں تصادم کے ذریعے کیا گیا لیکن اس تصادم کے نتیجے میں مرسی تو اور مضبوط ہوگئے ، الٹا جرنیلوں کی چھٹی ہوگئی۔ مرسی کی طاقت اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ سرکاری اداروں میں '' حجاب'' نافذ کرنے کا جو فیصلہ انھوں نے اخوان المسلمون کے پروگرام کے تحت ، سال ڈیڑھ سال بعد کرنا تھا، وہ ابھی سے نافذ کر دیا گیا۔

پاکستان میں کیا ہوگا، کوئی نہیں جانتا۔ چیف جسٹس ایک طرف الیکشن ملتوی نہ ہونے اور غیر آئینی راستے بند ہو جانے کا مژدہ سناتے ہیں لیکن دوسری طرف انھی کے اقدامات، ریمارکس اور فیصلوں سے آئینی اداروں کے درمیان تصادم کے خدشات بھی جنم لے رہے ہیں۔ بم دھماکوں، دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ جیسے معاملات نے ان خدشات کو مزید تقویت دی ہے۔ کچھ لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ٹارگٹ کلنگ اور بدامنی کی حالیہ لہر انتخابات ملتوی کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔

اپنے اپنے اندازے ہیں۔ جس کا غلط ہوگا، مارا جائے گا۔ جو لوگ بہت زیادہ اعتماد میں ہیں کہ آئین ہی سربلند ہے، غیر آئینی اقدام ہوا تو عوام مزاحمت کریں گے ان کا اندازہ غلط ہوا اور عوام باہر نہ نکلے تو ان کا وجود غیر یقینی ہے جبکہ جن کے پاس طاقت ہے وہ بظاہر زیادہ محفوظ وکٹ پر ہیں۔ لیکن محفوظ وکٹ والوں کا یہ اندازہ بھی تو جھوٹ ثابت ہوسکتا ہے کہ لوگ موجودہ جمہوریت سے تنگ ہیں۔ ان کی یہ توقع بھی غلط نکل سکتی ہے کہ عوام غیر آئینی اقدامات کا مٹھائیاں بانٹ کر خیر مقدم کریں گے۔ ان کے اندازوں کے برعکس عوامی تحریک چل پڑی تو اس میں بہت کچھ الٹ پلٹ ہو جائے گا۔ صرف ہمارے وطن والوں ہی کا نہیں، امریکا کا بھی بہت کچھ اسٹیک پر لگا ہوا ہے۔ اب ستارہ شناس یا زائچہ نویس بھی یہ پیش گوئی نہیں کرسکتے کہ کس کا اندازہ غلط ہوگا اور کس کا صحیح نکلے گا۔
Load Next Story