’’بس بہت پڑھ لیا‘‘

اقوامِ متحدہ کی طرف سے پاکستان کو 2015 تک شرح خواندگی میں88فی صد اضافے کا ہدف دیا گیا ہے ۔

سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی حالت خراب اور ان میں داخلوں کی شرح انتہائی کم ہے۔ فوٹو : فائل

KARACHI:
ماضی کی طرح شعبۂ تعلیم موجودہ حکومت کی ترجیحات کا بھی حصہ نہیں ہے، ماہرین تعلیم نے بارہا حکومت کی توجہ تعلیمی بجٹ میں اضافے کی طرف مبذول کروائی ہے، لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

اقوامِ متحدہ کی طرف سے پاکستان کو 2015 تک شرح خواندگی میں88فی صد اضافے کا ہدف دیا گیا ہے، لیکن محکمۂ تعلیم کی خراب کارکردگی اسے پورا کرتی نظر نہیں آتی۔ ملک بھر کے سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی حالت حد درجہ خراب اور ان میں داخلوں کی شرح انتہائی کم ہے۔ سرکاری تعلیمی ادارے غریب اور متوسط طبقے کے افراد کے لیے اپنے بچوں کو پڑھانے کا واحد سستا ذریعہ ہیں، لیکن کئی وجوہ کی بناء پر یہ والدین کے لیے قابل قبول نہیں رہے۔ اس کی وجہ صرف سرکاری سطح پر قائم تعلیمی اداروں کی زبوں حالی، اساتذہ کی کمی اور مناسب ماحول کی عدم فراہمی ہی نہیں بلکہ معاشی حالات اور فرسودہ خیالی بھی ہے۔ پچھلے چند برسوں کے دوران پاکستان میں پرائمری کی سطح پر اسکولوں میں 'ڈراپ آؤٹ' کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم کی اہمیت اور افادیت کے پیشِ نظر حکومتوں نے خاطر خواہ اقدامات کرنے کے ساتھ مفت تعلیم کو یقینی بنایا ہے، جب کہ اسے لازمی بھی قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان کے آئین کے مطابق پرائمری سطح پر مفت تعلیم ریاست کی ذمے داری ہے، لیکن بدقسمتی سے اسے والدین کے لیے قابل قبول نہیں بنایا جاسکا۔ تاہم حال ہی میں قومی اسمبلی میں مفت اور لازمی تعلیم کا مسودہ منظور کر لیا گیا، جس سے تبدیلی کی امید ضرور بندھی ہے۔ اس بل کے مطابق پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے بچوں کو مفت تعلیم دی جائے گی ۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق اس پاکستان میں پرائمری سطح کی تعلیم حاصل کرنے کے قابل بچوں کی تعداد دو کروڑ ستر لاکھ ہے جس میں سے ایک کروڑ تیس لاکھ بچے کسی اسکول میں رجسٹر نہیں ہیں۔ جب کہ اسکولوں میں رجسٹرڈ بچوں میں سے بھی 50 فی صد پرائمری کی سطح پر ہی تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔

پرائمری تعلیم کا مقصد بچوں کو لکھنے پڑھنے کی ابتدائی مشق کروانا، اعتماد پیدا کرنا اور ذہنی سطح کے مطابق سماج کا شعور دینا ہے، جو آیندہ زندگی کے لیے ان کا مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں سرکاری سطح پر قائم اسکولوں میں داخلوں کی کم ہوتی ہوئی شرح پر ماہرین تعلیم نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس کی کئی وجوہ بیان کی ہیں۔

معاشی پس ماندگی:
پاکستان میں غربت کا شکار والدین کے لیے بچوں کو تعلیم دلوانا نہایت مشکل ہے۔ سرکاری اسکولوں میں مفت تعلیم اور درسی کتب کی دست یابی کے باوجود اسکولوں میں بچوں کو داخل کروانے کا رجحان نہایت کم ہے، جس کی وجہ ٹرانسپورٹ اور دیگر مدات میں والدین کے اخراجات ہیں۔ بنیادی ضروریات پوری کرنے کی سکت نہ رکھنے والے والدین پر تعلیمی اخراجات بھاری بوجھ ہیں۔ اپنے بچوں کی ابتدائی تعلیم کا سلسلہ شروع کرنے والے افراد جلد بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے پریشان ہو کر ان کا نام اسکول سے خارج کروا لیتے ہیں۔ ان بچوں کو مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے مختلف کاموں پر لگا دیا جاتا ہے۔

اسی ضمن میں ایک سے زاید بچوں کو پڑھانے کا معاملہ بھی نہایت اہم ہے۔ ہمارے ہاں متوسط یا مزدور طبقے میں عموماً والدین وسائل کی کمی کے سبب تمام بچوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے ساتھ ان کا تعلیمی خرچ برداشت نہیں کر سکتے۔ اگر وہ اپنے ایک یا دو بچوں کو سرکاری اسکول میں پڑھا لیتے ہیں تو مزید بچوں کو اسکول بھیجنے کے قابل نہیں رہتے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ پہلے سے تعلیم حاصل کرنے والے بچے کا نام خارج کروا دیا جاتا ہے اور اس کے دوسرے بھائی یا بہن کی ابتدائی تعلیم کا عمل شروع کر دیا جاتا ہے۔

فرسودہ روایات:
بدقسمتی سے آج بھی ہمارے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں، جنھیں تعلیم کی اہمیت کا کوئی اندازہ نہیں۔ یہ تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کے قابل ہیں، لیکن باقاعدہ تعلیم کا حصول ان کے نزدیک غیر ضروری ہے۔ ایسے گھرانوں کے بچے زیادہ تر آبائی پیشے اپناتے ہیں یا انھیں محدود پیمانے پر چلنے والے کاروبار سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض گھرانوں میں خصوصاً لڑکیوں کا اسکول جانا پسند نہیں کیا جاتا۔ دیہی علاقوں میں عورتوں کو گھریلو کام کاج تک محدود رکھا جاتا ہے۔ اگر خوش نصیبی سے لڑکیاں ابتدائی تعلیم حاصل کر لیں تو اگلے مدارج سے محروم کر دی جاتی ہیں۔


عدم توازن کا شکار تعلیمی ڈھانچا:
جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیوں کے باوجود پاکستان کے تعلیمی نظام کو ایک بھرپور اور متوازن شکل نہیں دی جاسکی ہے۔ ایک طرف یہ والدین کی توجہ حاصل کرنے سے قاصر ہے، اور دوسری جانب ننھے طالب علم کی دل چسپی حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ والدین بچوں کو اسکولوں میں داخل کروانے کے وقت تذبذب کا شکار اور بچے اپنے نصاب سے بیزار نظر آتے ہیں۔

اساتذہ کا طلباء کے ساتھ رویہ:
اسکولوں سے بچوں کے ڈراپ آؤٹ کی شرح میں اضافے اور کمی کا اساتذہ کے رویے سے گہرا تعلق ہے۔ اساتذہ کا روایتی انداز، سخت رویّہ، سزا اور منفی برتاؤ بچوں کو اسکول اور تعلیم سے دور کرتا ہے۔

اساتذہ کی تربیت کا فقدان:
اساتذہ کے لیے تدریسی عمل کو بہتر بنانے کی غرض سے سرکاری سطح پر تربیت کا اہتمام نہ کرنا اور انھیں جدید تعلیمی نظریات اور تبدیلیوں سے آگاہ نہ کرنا بھی بچوں کے اسکولوں کو خیر باد کہہ دینے کی ایک وجہ ہے۔ بچوں کی الگ الگ سماجی اور نفسیاتی ضرورتوں سے آگاہ نہ ہونے کی بناء پر اساتذہ تمام بچوں سے یک ساں برتاؤ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے دوران تدریس کئی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اکثر اساتذہ بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق خود کو تیار نہیں کر پاتے، اور اس طرح بات ترکِ تعلیم تک پہنچ جاتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اقرباء پروری اور رشوت عام ہونے کی وجہ سے بچوں کو قابل استاتذہ میسر نہیں آتے۔ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ اور دیگر عملے کی غیر حاضری نہایت عام ہے، جس کی وجہ سے بچے اسکول میں کھیل کود کر واپس آجاتے ہیں۔ غیر ذمے دار اساتذہ بچوں کو تعلیم کی جانب راغب نہیں کر پاتے، لہٰذا آہستہ آہستہ بچوں کی دل چسپی کا گراف بھی تعلیم میں کم ہوتا جاتا ہے، جب کہ والدین اساتذہ کی مسلسل غیر حاضری کے بارے میں جان کر اپنے بچوں کو اسکول سے ہٹا لیتے ہیں۔

نصابی الجھنیں:
ہمارے نظام تعلیم کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ نصاب کا الگ الگ ہونا بھی ہے۔ اس سلسلے میں والدین ہمیشہ مشکل کا شکار رہتے ہیں۔ جب کہ طلباء کے ماحول اور ذہنی استعداد سے مطابقت نہ رکھنے والا نصاب بھی ان میں اسکول سے فرار کا سبب بنتا ہے۔

بہتر تدریسی عمل کے لیے ضروری عوامل کا فقدان:
اسکولوں میں نصابی کتب سمیت، غیر نصابی سرگرمیوں کا انعقاد، نصابی مشکلات دور کرنے کے لیے مشقوں، ہوم ورک کو دل چسپ بنانے کی تیکنیکوں اور بچوں کی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے مختلف سرگرمیوں کی صورت میں بچے ابتدائی تعلیم کی جانب راغب ہو سکتے ہیں۔ تاہم ہمارے ہاں یک سانیت کا شکار اور روایتی نظام تعلیم بچوں کو اسکولوں سے دور کر رہا ہے۔

یہ پرائمری اسکولوں سے ڈراپ آؤٹ کی شرح میں اضافے کے ضمن میں چند بنیادی باتیں ہیں۔ اس کے علاوہ راہ نمائی کی کمی، ماہرین تعلیم سے مشاورت نہ کرنا، غیرمناسب تعلیمی ماحول اور اسکولوں کا دہشت گردی کی نذر ہو جانا بھی چند ایسے عوامل ہیں، جن کی وجہ سے شرح خواندگی میں کمی واقع ہورہی ہے۔

پرائمری کی سطح پر سرکاری اسکولوں میں ضروری سہولیات کی فراہمی سمیت مذکورہ بالا عوامل کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر خامیوں کو دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اسی صورت میں پرائمری کی سطح پر ڈراپ آؤٹ کی بڑھتی ہوئی شرح کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ ہماری تعلیمی پالیسیاں بھی ضروری ترامیم کا تقاضا کرتی ہیں اور اس جانب ارباب اختیار کو توجہ دینا چاہیے۔ نصاب اور تدریس کے طریقوں پر نظرثانی کی جائے جب کہ مفت تعلیم کو عملاً نافذ کیا جائے اور خصوصاً غریب والدین کو زیادہ سہولت دی جائے تاکہ وہ اپنے بچوں کو اسکولوں میں داخل کروانے سے نہ کترائیں۔

Recommended Stories

Load Next Story