اویس شاہ کے اغوا میں ایس ایس پی جنوبی نے سہولت کار کا کردار ادا کیا سپریم کورٹ

اس موقع پر مجرم محمد خان کے ریکارڈ پیش نہ کرنے پر عدالت نے ڈائریکٹر پے رول سے استفسار کیا۔

اس موقع پر مجرم محمد خان کے ریکارڈ پیش نہ کرنے پر عدالت نے ڈائریکٹر پے رول سے استفسار کیا۔:فوٹو؛ فائل

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایس ایس پی کراچی جنوبی ڈاکٹر محمد فاروق کے رویے پرعدم اطمینان کااظہارکرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی ہے اورکہا ہے کہ اویس شاہ کے اغوا میں ایس ایس پی کراچی جنوبی نے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی ، جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس خلجی عارف حسین پرمشتمل لارجر بینچ نے پیر کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی بد امنی کیس پر عمل درآمد سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پرآئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے عدالت کو بتایا کہ نئے اور پرانے مقدمات سمیت ماضی میں داخل دفتر مقدمات کو ری اوپن کرنے کے بعد ان میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے اور بڑی تعداد میں مقدمات کو ٹریس آوٹ کر لیا گیا ہے اور تفتیش میں پیش رفت بھی ہوئی ہے جس پرجسٹس امیر ہانی مسلم نے اپنے ریمارکس دیے کہ آپ جن مقدمات کو ری اوپن کرنے کے بعد نمٹا نے کی بات کر رہےہیں اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک کیس کھولا گیا اور دو روز بعد اسے ڈسچارج کردیا گیا یہ پولیس میں عام معمول کی بات ہے اور اگر آپ چاہیں تو اپنا پولیس ریکارڈ دیکھ سکتے ہیں۔

اس عہدے پرتعیناتی کے لیے آئی جی سندھ کی سفارشات کومدنظررکھاجائے جوصوبے میں امن وامان کا ذمے دارہے، سندھ حکومت نے متوازی عدالتی نظام بنا رکھا ہے۔ فاضل بینچ نے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کے صاحبزادے کے اغوا کے متعلق اطلاع ملنے کے باوجود بروقت کارروائی نہ کرنے پرانتہائی برہمی کا اظہارکیا ہے، فاضل بینچ نے چیف جسٹس سجادعلی شاہ کے صاحبزادے کے اغوا کے علاوہ کراچی میں امن وامان سے متعلق کیے گئے اقدامات کے متعلق بھی 2 ہفتے میں رپورٹ طلب کی ہے ،جس میں زمینوں پر قبضے،اغوا دہشت گردی ، اسٹریٹ کرائمز میں اضافے اورگاڑیوں کی فٹنس سے متعلق پولیس اور دیگر ایجنسیوں کی کارکردگی بھی شامل ہے ، پولیس میں اب بھی سیاسی مداخلت باقی ہے۔

آئی جی سندھ نے کہا کہ انھوں نے تمام ایس ایس پیز کو سختی کے ساتھ ہدایات جاری کی ہیں کہ درج ہونے والے مقدمات کوان کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے اورکم سے کم مقدمات کوداخل دفتر کیاجائے۔ 2013سے 2015کے دوران اے کلاس قرار دیے گئے جبکہ حال ہی میں صرف 81مقدمات ایسے ہیں کہ جو ٹریس نہیں ہو سکے، جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیے کہ جب اتنی بڑی تعداد میں مقدمات ٹریس نہیں ہوں گے توکراچی کے شہری امن کے ساتھ کیسے رہ سکتے ہیں؟۔عدالت نے آئی جی سندھ کو ہدایت دی کہ وہ 2 ہفتوں کے اندر اندر مقدمات میں ہونے والی پیش رفت سے متعلق جامع رپورٹ پیش کریں۔ بعدازاں عدالت نے اغوا برائے تاوان اور سنگین جرائم میں پے رول پر رہا کیے جانے والے مجرموں کے معاملے کی سماعت کی۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ سنگین جرائم میں سزا پانے والے مجرموں کو کس قانون اور ضابطے کے تحت چھوڑا گیا۔

ڈائریکٹر پے رول پیش ہوئے اورعدالتی استفسار پرعدالت کو بتایا کہ جب عدالت نے پے رول پر رہا کیے جانے والے مجرموں کے معاملے کا نوٹس لیا تو اس وقت پے رول پر رہا کیے جانے والے مجرموں کی تعداد 25تھی بعد میں بعض مجرمو ں کو واپس جیل میں بند کر دیا گیا جبکہ مفرور ہونے والے مجرموں کے خلا ف ایف آئی آر درج کرا دی گئی ہے، چیف جسٹس نے سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے عدالتیں سزائیں سنائے اور مجرموں کو جیل بھیجے اور آپ انھیں پے رول پر رہا کر دیں اور ان کی گرفتار ی کے لیے ایف آئی آر درج کر ادیں کیونکہ ان کی ایف آئی آر اور گرفتاری کے ساتھ آپ کو بھی جیل بھیج دیا جائے تاکہ جب تک وہ ملزمان نہ پکڑے جائیں آپ کوجیل میں رکھا جائے۔ ڈائریکٹر پے رول نے بتایا کہ وہ 10سال سے اس عہدے پر تعینات ہیں ، مجرموں کو پے رول پر قانون کے تحت چھوڑ اگیا۔


چیف جسٹس نے شدید ناراضی کا اظہار کیا اور چیف سیکریٹری کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ سندھ حکومت چل رہی ہے، اغوا برائے تاوان کے مجرموں کو سزا کے 6ماہ بعد ہی اچھے کردار کا حامل قرار دے کر پے رول پر رہا کر دیا جاتا ہے حالت یہ ہے کہ جیل کے اندر قرآن حفظ کرنے والے کو سزا میں رعایت دی جاتی ہے تو سب ہی کاغذوں میں حافظ ہوجاتے ہیں، سب مل کر سسٹم کو برباد کر نے پر لگے ہوئے ہیں، انھوں نے متبادل حکومت اور نظام قائم کر رکھا ہے، عدالتیں کیا کریں گی، عدالتیں سزائیں سناتی ہیں اوران جیسے حکام انھیں پے رول پررہا کردیتے ہیں، اس دوران عدالت نے پے رول پر رہا کیے جانے والے مجرم جنید رحمان ، عبدالرشید اور خالد عزیزکا ہسٹری ریکارڈ کاجائزہ لینے کے بعد ڈائریکٹر پے رول سے ان مجرموں کو رہا کرنے کا سبب پوچھاتو ڈائریکٹر پے رول نے بتایا کہ باقاعدگی سے نماز اور قرآن پڑھنے اور تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے مجرموں کو چھوڑ ا گیا جس پرچیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمار کس دیے کہ آج کل جتنے لوگ دہشت گردی میں ملوث ہیں ان میں پی ایچ ڈی والے بھی شامل ہیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ زیادہ پڑھا لکھا فرد دہشت گردی میں زیادہ معاون ثابت ہو تا ہے۔

مجرم جنید رحمان کے ہسٹری ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے مجرم جنید رحمان کو آپ نے اس لیے چھوڑ دیا کہ اس کا باپ ڈائریکٹر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی رہ چکا ہے اور بھائی اور بہن گریجویٹ ہیں کیا یہی اصول ہے مجرموں کو رہا کر نے کا تو پھراس کانمازپڑھنے والے اور دیگر 80فیصد مجرموں پراس کا اطلاق ہوتا ہے آپ انھیں بھی چھوڑ دیں۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ اس مجرم کو دوبارہ جیل میں بھیج دیا گیا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدالت کے ایکشن کی وجہ سے دوبارہ جیل میں بند ہوا یہ بتائیں مجرم کو چھوڑا کیوں گیا اس وقت سوسائٹی میں 90فیصد وہ ملزمان کرائم کر رہے ہیں جو کمزور پراسیکیویشن کی وجہ سے عدالتوں سے چھوڑجاتے ہیں اور دوبارہ جرائم میں لگ جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے مجرم خالد عزیز کے ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد ڈائریکٹر پے رول سلیم رضا کو کہا کہ اپ کو شرم آنی چاہیے کہ آپ نے اس مجرم کو اس لیے چھوڑ دیاکہ اس نے جیل میں بی اے پارٹ ون کا امتحان دیا اور وہ باقاعدگی سے نماز پڑھتا تھا۔ تمام شہری برابر ہیں تاہم اس شہر میں چیف جسٹس کا بیٹا محفوظ نہیں اور اغوابرائے تاوان کے مجرموں کو ایسے چھوڑ رہے ہیں۔

اس موقع پر مجرم محمد خان کے ریکارڈ پیش نہ کرنے پر عدالت نے ڈائریکٹر پے رول سے استفسار کیا جس پر اس نے بتایا کہ چونکہ عدالت نے سنگین جرائم کے مجرموں کے بارے میں معلومات پوچھی تھیں اس لیے محمد خان کے بارے میں معلو مات نہیں لائے۔ عدالتی استفسار پر ڈائریکٹر پے رول نے بتایا کہ محمد خان قتل کے مقدمہ میں سزا یافتہ ہے جس پر جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیے کہ کسی فرد کا قتل کرنا کیا آپ کے نزدیک سنگین جرم نہیں آپ نے ایسے مجرم کو کیا اس لیے چھوڑ دیا کہ اس نے یہ پہلا قتل کیا تھا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمار کس دیے کہ اس مجرم کا سفارشی بھی بڑا ہوگا، چیف جسٹس نے ریمار کس دیے کہ ڈائریکٹر روپے 10سال سے اس لیے اس عہدے پر ہیں کہ یہ اچھے طریقے سے سود ے بازی کرتا ہوگا۔ عدالت نے چیف سیکریٹری محمد صدیق میمن کو ہدایت کی کہ وہ سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کو رہا کرنے پر ڈائریکٹر پے رول اور پے رول کمیٹی اور سابق ہوم سیکرٹری نیازعباسی کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی عمل میں لائیں اور رپورٹ پیش کریں ، علاوہ ازیں عدالت نے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے بیرسٹر اویس علی شاہ کے اغوا کے معاملے پر ایس ایس پی جنوبی ڈاکٹر محمد فاروق کو طلب کیا۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے ایس ایس پی سے استفسار کیا کہ اس واقعہ کے بعد 2 بج کر 30منٹ پر 15پرآغا سپرمارکیٹ کے اندر ہی سے کالز کی گئیں اور15پر تعینات عبداللہ نامی اہلکار نے فون ریسو کیا تو کیا آپ نے اس پولیس اہلکار کے خلاف کوئی کارروائی کی، ایس ایس پی نے بتایا کہ وہ 29جون 2015سے اس عہدے پر تعینات اور سیکنڈ سینئر پوسٹ 19گریڈ میں ہیں ان کی ایس ایچ او سے7بجکر 15منٹ پر بات ہوئی، جسٹس امیر ہانی مسلم نے سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ایک شخص واقعے کی اطلاع دینے تھانے گیا تو بتایا گیا کہ ایس ایچ او نہیں ہیں اور جب ایس ایچ او کے علم میں یہ بات آئی تو اس نے صاف کہہ دیا کہ اویس علی شاہ کو ایجنسی والے اٹھا کر لے گئے ہیں۔

اس کے باوجود آپ نے 15پر تعینات پولیس اہلکار،محرر اور ایس ایچ او کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم اس بات پریقین کریں کہ آپ نے یقینا اغوا کاروں کو سہولت فراہم کی، 7بجکر 15منٹ پر آپ کے علم میں آیا مگر ساڑھے 9 بجے تک آپ نے کوئی کارروائی نہیں کی بالآخر سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے خود آئی جی کو فون کیا اور صورتحال بتائی۔ جسٹس امیر ہانی مسلم کے استفسار پر ایس ایس پی نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے اس واقعے سے متعلق ڈی آئی جی جنوبی یا آئی جی سندھ کوکوئی اطلاع نہیں دی۔ جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیے کہ یہ افسر اب تک وردی میں کیوں ہیں۔

دریں اثنا جسٹس امیر ہانی مسلم نے مختلف اخبارات کی خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے آئی جی سند ھ سے استفسار کیا کہ کیا پولیس میں تقرری یا تبادلے آپ کے مشاروت کے بغیر ہورہے ہیں جس پر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے بتایا کہ مجھے سے کبھی کبھار مشاورت کی جاتی ہے۔ ایس ایس پی کے تبادلے سے متعلق انھیں وزیر اعلی سندھ کا نوٹیفکیشن موصول ہوا جس پر انھوں نے ہو م سیکریٹری کو نوٹ لکھا اور تبادلے کے نوٹیفکیشن کو واپس لینا پڑا ۔اس دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ ضمیر گھمرو نے کہا کہ تقرری اور تبادلے کرنے کا اختیار وزیر اعلیٰ کے پاس ہے جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے اپنی آبزوریشن میں کہا کہ ہم پولیس کو غیر سیاسی کرنا چاہتے ہیں ایس ایس پی کو پہلے ہٹا کر دوبارہ بحال کیوں کیا گیا اس کا مطلب ہے کہ پولیس کے معاملات میں سیاسی مداخلت ہو رہی ہے۔
Load Next Story