لارڈزمیں گورے ’کالا‘ کام کرنے لگے

مصباح نے حفیظ کے بارے میں درست کہا تھا کہ وہ اچھے آغاز کو بڑی اننگزمیں تبدیل نہیں کرپا رہے ہیں.

مصباح نے حفیظ کے بارے میں درست کہا تھا کہ وہ اچھے آغاز کو بڑی اننگزمیں تبدیل نہیں کرپا رہے ہیں. فوٹو:اے ایف پی

''میچ کا ٹکٹ چاہیے تو بتاؤ''

ٹیوب اسٹیشن سے باہر نکلتے ہی میں نے کسی کی سرگوشی سنی تو دیکھا کہ ایک گورا کالا کام کرتے ہوئے ٹکٹیں بلیک کررہا تھا، میں اسے انکار کر کے لارڈز کی جانب جانے لگا، اس وقت فٹ پاتھ کے دونوں اطراف ہی شائقین کا رش تھا، کم از کم میں نے تو پہلے کبھی کسی ٹیسٹ کے ٹکٹ ایسے بلیک میں فروخت ہوتے نہیں دیکھے تھے لیکن انگلینڈ اور آسٹریلیا میں شائقین ٹیسٹ کرکٹ کو بیحد پسند کرتے اور اسٹیڈیم میں میچ دیکھنا چاہتے ہیں،لارڈز کے گیٹ پر پہنچا تو لائن میں اپنے سے آگے چیئرمین پی سی بی شہریارخان کو پایا، تلاشی کے مرحلے سے گذرنے کے بعد میں ان کے پاس چلا گیا، مجھے دیکھ کر وہ بیحد گرمجوشی سے ملے، پھر ہم دونوں وہاں کچھ دیر رک کر بات چیت کرنے لگے،انھوں نے بتایا کہ وہ مزید چند روز انگلینڈ میں قیام کریں گے۔

محمد عامر اور دیگر موضوعات پر بھی مختصر بات چیت ہوئی ،پھر وہ اپنے باکس اور میں میڈیا سینٹر میں آ گیا، وہاں وسیم اکرم سے سامنا ہوا، ہر بار کی طرح وہ بڑی محبت سے ملے میں نے انھیں لنکا شائر سینٹرل یونیورسٹی سے اعزازی فیلوشپ ملنے کی مبارکباد دی، جس وقت میچ شروع ہوا دھوپ نکلی ہوئی تھی، پچ کو بیٹنگ کیلیے بیحد سازگار سمجھا جا رہا تھا اسی لیے مصباح نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کو ترجیح دی، اس وقت تک اسٹیڈیم شائقین سے کھچا کھچ بھر چکا تھا تل دھرنے کی بھی جگہ نہ تھی، بیشتر لوگ محمد عامر کو ایکشن میں دیکھنے کیلیے آئے تھے مگر پاکستان کی پہلے بیٹنگ کی وجہ سے اب انھیں انتظار کرنا پڑے گا،پاک انگلینڈ لارڈز ٹیسٹ کے پہلے دن روایتی بیل بجانے کا اعزاز بولنگ کوچ مشتاق احمدکو سونپا گیا۔

یہ روایت2007میں متعارف کرائی گئی تھی، یہاں ہر ٹیسٹ سے قبل انٹرنیشنل کرکٹر، منتظم یا کھیلوں کی کوئی معروف شخصیت5 منٹ تک گھنٹی بجا کر کھیل کے آغاز کا اعلان کرتی ہے، یہ بیل لارڈز پویلین بولرز بارکے باہر لگائی گئی، کسی ٹیسٹ کی صبح گھنٹی بجانے کیلیے مدعو کیے جانے کو بڑا اعزاز تصور کیا جاتا ہے، پاکستان کی جانب سے سابق ٹیسٹ کرکٹرز علیم الدین مرحوم، مشتاق محمد اور رمیز راجہ یہ فریضہ انجام دے چکے اور اب مشتاق احمد چوتھے کرکٹر بنے، مشتاق محمد سے یاد آیا کہ وقفے کے دوران کراؤڈ کے درمیان چلتے ہوئے میں نے انھیں دیکھا لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ کسی کو علم ہی نہیں تھا کہ کتنا عظیم سابق کھلاڑی ان کے درمیان سے گزر رہا ہے۔


میچ میں پاکستانی بیٹنگ ابتدا میں زیادہ پُراعتماد دکھائی نہ دی ،مصباح نے حفیظ کے بارے میں درست کہا تھا کہ وہ اچھے آغاز کو بڑی اننگز میں تبدیل نہیں کرپا رہے ہیں فارم کا کوئی مسئلہ نہیں لگتا، آج بھی ایسا ہی ہوا،پہلے تو ایسا لگتا تھا کہ حفیظ سنچری نہیں تو ففٹی تک تو پہنچ ہی جائیں گے مگر انھوں نے سیٹ ہونے کے بعد غیرذمہ داری سے وکٹ گنوا دی، شان مسعود بھی موقع سے فائدہ نہ اٹھا پائے، ہر بار کی طرح تجربہ کار یونس خان اور مصباح الحق نے اننگز کو سنبھالا دیا، اگر 40،42 سال کے بیٹسمین ٹیم کو سنبھال رہے ہیں تو ایسے میں شاہد آفریدی کی بات غلط نہیں لگتی کہ ''ملک میں ٹیلنٹ موجود نہیں ہے''۔

چائے کے وقفے میں پہلے رمیز راجہ سے ملاقات ہوئی ، وہ مجھ سے کہنے لگے کہ ''تم ٹی وی پر کیوں نہیں آتے''میں نے ان سے سوال کیا کہ رمیز بھائی اسے چھوڑیں یہ بتائیں کہ بنگلہ دیش کو آپ سے کیا دشمنی ہے، وہاں آپ کی بڑی مخالفت پائی جاتی ہے، سنا ہے جب آپ کمنٹری کیلیے وہاں جائیں تو اضافی سیکیورٹی دی جاتی ہے، اس پر انھوں نے زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے بات کو ٹال دیا، سابق کپتان عامر سہیل بھی کمنٹری کیلیے آئے ہوئے ہیں، ان سے بھی سلام دعا ہوئی، پریس باکس میں بھی عامر کا معاملہ ہی چھایا ہوا ہے، پاکستان سے سینئر صحافی عبدالماجد بھٹی بھی آئے ہوئے ہیں، ہم نے وہاں اندازہ لگایا کہ گوروں کی دلچسپی عامر میں ہی ہے، ایک صاحب تو یہ کہتے دکھائی دیے کہ ''عامر نے پابندی ختم ہونے کے بعد پہلے ٹی ٹوئنٹی اور پھر ون ڈے میں بھی وائیڈ بال سے ابتدا کی ، اب کیا ہو گا'' میں نے دل میں سوچا کہ کہیں اب بھی وائیڈ ہو گئی تو نیا تنازع شروع ہو جائے گا۔

پھرنت نئی کہانیاں بنائی جائیں گی، ویسے بھی یہاں کا میڈیا چٹ پٹی خبروں کا منتظر ہے اور انھیں سنبھالنے کیلیے کوئی موجود نہیں،ہماری ٹیم کے میڈیا منیجرآغا اکبر اس کی اہلیت نہیں رکھتے، وہ اپنے صحافیوں (اردو) سے ناخوش مگر بعض لوگوں پر بیحد مہربان ہیں، ان کے بعض فیصلے بورڈ کیلیے مسائل کا باعث بن رہے ہیں، اب انھوں نے کوچ مکی آرتھر کا انٹرویو کرا دیا جس میں وہ فرماتے ہیں کہ عامر کی طرح دیگر سلمان بٹ اور محمد آصف بھی قومی ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں، دوسری جانب شہریارخان کا کہنا ہے کہ پہلے آئی سی سی سے پوچھنا پڑے گا، انگلینڈ ان کی ٹیم میں شمولیت کا مخالف تھا،ایک ہی ایشو پردو متضاد بیانات بورڈ کیلیے جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں مگر افسوس کوئی اس پر بات نہیں کرتا۔

جاتے جاتے کچھ بلٹ پروف بسوں کی بات ہو جائے، سنا ہے بورڈ نے چار بسیں خریدی ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں غیرملکی ٹیمیں تو آنہیں رہیں نہ ہی مستقبل قریب میں کوئی امکان ہے تو ان میں بیٹھے گا کون، پھر اگر ایسی بسیں لینا ہی تھیں تو انھیں بم پروف ہونا چاہیے تھا،اب زیادہ خطرہ اسی کا ہوتا ہے، ویسے سچی بات ہے کہ بورڈ کو ایسی چیزوں پر پیسے صرف کرنے کے بجائے قومی ٹیم کی فکر کرنی چاہیے، آج تو مصباح الحق، اسد اور یونس نے بچا لیا ورنہ ون ڈے اورٹی ٹوئنٹی میں جس طرح کی پرفارمنس چل رہی ہے، حکام کو دفتر آنے جانے کیلیے پتھرپروف بسیں استعمال کرنا پڑسکتی ہیں، شائقین آخر کب تک برداشت کریں گے۔
Load Next Story