سائبر کرائم پر قانون کا بل منظور
جرائم پیشہ اور شیطانی دماغ رکھنے والے عناصر نے سائبر کرائم کے ذریعے خلق خدا کو ستانے کا ایک آسان طریقہ ڈھونڈ لیا ہے
گزشتہ دہائی سے سائبر کرائمز نے نہ صرف معصوم لوگوں کی زندگی برباد کر ڈالی بلکہ فراڈ اور دیگر جرائم کی مد میں لاکھوں لوگ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم ہوچکے ہیں۔ فوٹو؛ فائل
LOS ANGELES:
سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کمیٹی نے متنازع سائبر کرائم بل 2015ء متفقہ طور پر منظور کرلیا ہے۔ واضح رہے اس بل سے متعلق انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا تھا کہ اس سے لوگوں کی آزادی اظہار رائے متاثر ہوگی، تاہم ارکان پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ بل میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے تحفظات کو دور نہیں کیا گیا ہے لیکن خوش آیند بات یہ ہے کہ سائبر کرائم قانون کا اطلاق پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر نہیں ہوگا، جس سے میڈیا کی آزادی متاثر ہونے کا اندیشہ ختم ہوگیا ہے۔ سینیٹ کمیٹی سے منظور ہونے والے مذکورہ بل کو اب سینیٹ میں پیش کیا جائے گا، جہاں سے منظوری کے بعد یہ باقاعدہ قانون کی شکل میں نافذالعمل ہوجائے گا۔
بل کے تحت سائبر دہشتگردی پر 14 سال قید اور 5 کروڑ روپے جرمانہ ہوگا، نفرت انگیز تقریر، فرقہ واریت پھیلانے اور مذہبی منافرت پر7 سال سزا ہوگی، دھوکا دہی پر 3 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا، بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر شایع کرنے یا اپ لوڈ کرنے پر7سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا، انٹرنیٹ کے ذریعے دہشتگردوں کی فنڈنگ کرنے پر7سال سزا ہوگی، انٹرنیٹ ڈیٹا کے غلط استعمال پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا، موبائل فون کی ٹیمپرنگ پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا، موبائل فون سموں کی غیر قانونی فروخت پر 5 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا، جب کہ انٹرنیٹ مہیا کرنے والوں کا ڈیٹا عدالتی حکم کے بغیر شیئر نہیں کیا جائے گا۔ یہ امر بھی قابل اطمینان ہے کہ سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے ہائیکورٹ کی مشاورت سے عدالت قائم کی جائے گی اور عدالت کی اجازت کے بغیر سائبر کرائم کی تحقیقات نہیں ہوسکیں گی۔
سائبر کرائم قانون کا اطلاق صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ملک سے باہر کسی بھی دوسرے ملک میں بیٹھ کر ریاستی سالمیت کے خلاف کام کرنے والے افراد پر بھی ہوگا۔ ریاستی سالمیت کے خلاف کام کرنے والے افراد کی گرفتاری کے لیے متعلقہ ممالک سے رجوع کیا جائے گا۔ گزشتہ پندرہ برسوں میں انٹرنیٹ کی تیزی سے مقبولیت کے بعد دنیا حقیقتاً ایک عالمی گاؤں کی شکل اختیار کرگئی ہے، ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں دیگر سہولتیں میسر آئی ہیں وہیں جرائم پیشہ اور شیطانی دماغ رکھنے والے عناصر نے سائبر کرائم کے ذریعے خلق خدا کو ستانے کا ایک آسان طریقہ ڈھونڈ لیا ہے۔
بلاشبہ سائبر کرائم بھی دیگر جرائم کی طرح تباہ کن ثابت ہوتے ہیں اور گزشتہ دہائی سے سائبر کرائمز نے نہ صرف معصوم لوگوں کی زندگی برباد کر ڈالی بلکہ فراڈ اور دیگر جرائم کی مد میں لاکھوں لوگ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم ہوچکے ہیں۔ سائبر کرائم کے قانون کے اطلاق کو قابل تحسین اقدام قرار دیا جاسکتا ہے لیکن مناسب ہوگا کہ اس سلسلے میں کوئی ابہام نہ چھوڑا جائے اور ہر جانب سے تحفظات کو دور کیا جائے۔
سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کمیٹی نے متنازع سائبر کرائم بل 2015ء متفقہ طور پر منظور کرلیا ہے۔ واضح رہے اس بل سے متعلق انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا تھا کہ اس سے لوگوں کی آزادی اظہار رائے متاثر ہوگی، تاہم ارکان پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ بل میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے تحفظات کو دور نہیں کیا گیا ہے لیکن خوش آیند بات یہ ہے کہ سائبر کرائم قانون کا اطلاق پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر نہیں ہوگا، جس سے میڈیا کی آزادی متاثر ہونے کا اندیشہ ختم ہوگیا ہے۔ سینیٹ کمیٹی سے منظور ہونے والے مذکورہ بل کو اب سینیٹ میں پیش کیا جائے گا، جہاں سے منظوری کے بعد یہ باقاعدہ قانون کی شکل میں نافذالعمل ہوجائے گا۔
بل کے تحت سائبر دہشتگردی پر 14 سال قید اور 5 کروڑ روپے جرمانہ ہوگا، نفرت انگیز تقریر، فرقہ واریت پھیلانے اور مذہبی منافرت پر7 سال سزا ہوگی، دھوکا دہی پر 3 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا، بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر شایع کرنے یا اپ لوڈ کرنے پر7سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا، انٹرنیٹ کے ذریعے دہشتگردوں کی فنڈنگ کرنے پر7سال سزا ہوگی، انٹرنیٹ ڈیٹا کے غلط استعمال پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا، موبائل فون کی ٹیمپرنگ پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا، موبائل فون سموں کی غیر قانونی فروخت پر 5 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا، جب کہ انٹرنیٹ مہیا کرنے والوں کا ڈیٹا عدالتی حکم کے بغیر شیئر نہیں کیا جائے گا۔ یہ امر بھی قابل اطمینان ہے کہ سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے ہائیکورٹ کی مشاورت سے عدالت قائم کی جائے گی اور عدالت کی اجازت کے بغیر سائبر کرائم کی تحقیقات نہیں ہوسکیں گی۔
سائبر کرائم قانون کا اطلاق صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ملک سے باہر کسی بھی دوسرے ملک میں بیٹھ کر ریاستی سالمیت کے خلاف کام کرنے والے افراد پر بھی ہوگا۔ ریاستی سالمیت کے خلاف کام کرنے والے افراد کی گرفتاری کے لیے متعلقہ ممالک سے رجوع کیا جائے گا۔ گزشتہ پندرہ برسوں میں انٹرنیٹ کی تیزی سے مقبولیت کے بعد دنیا حقیقتاً ایک عالمی گاؤں کی شکل اختیار کرگئی ہے، ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں دیگر سہولتیں میسر آئی ہیں وہیں جرائم پیشہ اور شیطانی دماغ رکھنے والے عناصر نے سائبر کرائم کے ذریعے خلق خدا کو ستانے کا ایک آسان طریقہ ڈھونڈ لیا ہے۔
بلاشبہ سائبر کرائم بھی دیگر جرائم کی طرح تباہ کن ثابت ہوتے ہیں اور گزشتہ دہائی سے سائبر کرائمز نے نہ صرف معصوم لوگوں کی زندگی برباد کر ڈالی بلکہ فراڈ اور دیگر جرائم کی مد میں لاکھوں لوگ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم ہوچکے ہیں۔ سائبر کرائم کے قانون کے اطلاق کو قابل تحسین اقدام قرار دیا جاسکتا ہے لیکن مناسب ہوگا کہ اس سلسلے میں کوئی ابہام نہ چھوڑا جائے اور ہر جانب سے تحفظات کو دور کیا جائے۔