بھارتی وزیر داخلہ کی نازیبا حرکت
بھارتی میڈیا کانفرنس کے حوالے سے دن بھر پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرتا رہا۔
بھارتی میڈیا کانفرنس کے حوالے سے دن بھر پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرتا رہا۔ فوٹو؛ فائل
سارک وزرائے داخلہ کی ساتویں کانفرنس کے اختتام پر جاری مشترکہ اعلامیہ میں خطے میں قیام امن، انسداد دہشتگردی اور منظم جرائم کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے،آیندہ سال سارک وزرائے داخلہ کانفرنس سری لنکا میں منعقد کرنے کے فیصلہ کے ساتھ اعلامیہ میں ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے اس لعنت کو ختم کرنے کے لیے مل کر کوششیں کرنے پر زور دیا گیا ہے جب کہ سائبر کرائم، منظم جرائم کی روک تھام کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانے اور معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ نئی نسل کے مستقبل کے تحفظ کو یقینی بنانے اور مشترکہ سماجی برائیوں سے نمٹنے کے لیے مربوط مانیٹرنگ سسٹم، معلومات اور ٹیکنالوجی کے تبادلے پر زور دیا گیا جب کہ سارک علاقائی کنونشنز کو مضبوط کرنے کا کہا گیا۔ سارک ممالک کے درمیان ویزا سسٹم کو بہتر، موثر بنانے اور انسانی اسمگلنگ کی روک تھام پر بھی اتفاق کیا گیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے ہم منصب پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار کے ٹو دی پوائنٹس ریمارکس اور حقائق پر مبنی تقریر پر برہم ہو کر بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کا کانفرنس ادھوری چھوڑ کر بھارت چلے جانے پر عالمی مبصرین کو ضرور حیرت ہوئی ہوگی کیونکہ ان کا غیر ضروری اور بلاجواز اضطرابی رد عمل کسی طور پر سفارتکارانہ آداب و روایات اور سارک تنظیم کے دو طرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے کے منشور سے مطابقت نہیں رکھتا، اس سے سارک کے کثیر جہتی اقتصادی ایجنڈا اور اس کی ساکھ کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔
ادھر بھارتی میڈیا کانفرنس کے حوالے سے دن بھر پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرتا رہا، اسلام آباد میں منعقدہ سارک کانفرنس ادھورا چھوڑ کر لوٹ جانے والے بھارتی وزیرداخلہ نے واپس پہنچتے ہی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات بھی کی اور انھیں اپنے دورہ پاکستان کے حوالے سے آگاہ کیا۔ یہ بھارتی اسکرپٹ اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ یہ سب کچھ منصوبہ بندی کا حصہ اور کشمیر صورتحال کو مرکز نگاہ بنانے سے ہٹانا مقصود تھا، چنانچہ یہ قیاس کیا جارہا ہے کہ راجناتھ کو ایسا کرنے کی شاید پیشگی ہدایات مل چکی تھیں جبھی تو وہ پاکستان پہنچنے سے پہلے اپنے تند و تیز بیانات میں واضح کرچکے تھے کہ ان کا کسی پاکستانی رہنما سے ملنے اور الگ سے بات چیت کا کوئی ارادہ نہیں، وہ رعونت کی تصویر بنے بیٹھے رہے، ہم منصب سے مصافحہ میں بھی بخل و کدورت سے کام لیا ۔ پاک بھارت تعلقات اور خطے کی ابتر صورتحال کے پیش نظر سارک کانفرنس کو بھارتی وزیر داخلہ کے ڈرامائی ڈپارچر نے کسی ناکامی سے بچائے رکھا ۔
وزیراعظم نواز شریف نے افتتاحی نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دہشت گردی، بدعنوانی اور منظم جرائم سے نبرد آزما ہونے کے لیے سارک کے رکن ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے بھرپور عزم رکھتا ہے، آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان پر مؤثر عملدرآمد کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں، خطہ کی ترقی اور خوشحالی کے لیے مواصلاتی رابطہ ناگزیر ہے۔ یہ کامیابیاں اپنی سرزمین سے دہشت گردی کی لعنت کے خاتمہ کے لیے حکومتی عزم کی غماز ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ چیلنجوں کے باوجود سارک نے جنوبی ایشیاء میں علاقائی ہم آہنگی کے مقصد کے حصول میں قابل تحسین کردار ادا کیا ہے تاہم تنظیم کو زیادہ مؤثر اور فعال بنانے کے لیے حکومتوں اور سارک اداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ تنظیم کو زیادہ مفید بنانے کے لیے مربوط کوششیں کریں۔
قبل ازیں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے سارک وزرائے داخلہ کانفرنس کے دوران بھارتی ہم منصب راج ناتھ سنگھ کی موجودگی میں مقبوضہ کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ آزادی کی جد وجہد اور دہشت گردی میں فرق ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے نہ کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر ان کی جدوجہد آزادی کو دبایا جائے، مقبوضہ کشمیر میں نہتے شہریوں پر طاقت کا استعمال انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، ان کا آزادی کا حق تسلیم کرنا چاہیے۔
کانفرنس میں بھارتی وزیر داخلہ کی تنقید کے جواب میں خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا6 دہائیوں میں الزامات کی روش نے کسی کو کچھ فائدہ نہیں دیا، الزام برائے الزام کے بجائے بامقصد مذاکرات کیے جائیں، پاکستان میں دہشت گردی سرحد پار سے ہو رہی ہے اور سرحد پار سے ہی پاکستان کے معاملات میں مداخلت کی جا رہی ہے، پٹھانکوٹ، کابل، ممبئی، ڈھاکا دھماکوں کی طرح پاکستان بھی دہشت گردی کا شکار ہے، آرمی پبلک اسکول پشاور، چارسدہ دھماکے،گلشن اقبال پارک لاہور جیسے واقعات دنیا کے سامنے ہیں جن میں ہمارا قیمتی جانی نقصان ہوا، پاکستان نے کبھی اچھے اور برے طالبان میں فرق نہیں کیا، ایسے تمام عناصر کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جا رہی ہے ، پاکستان تمام مسائل پر غیرمشروط مذاکرات کا حامی اور سارک کے تمام معاہدوں کی حمایت کرتا ہے، تمام ممالک سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بھارتی وزیر داخلہ سارک چارٹر کا مطالعہ کرتے اور اس بدمزگی کے ذمے دار نہ ٹھہرائے جاتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے ہم منصب پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار کے ٹو دی پوائنٹس ریمارکس اور حقائق پر مبنی تقریر پر برہم ہو کر بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کا کانفرنس ادھوری چھوڑ کر بھارت چلے جانے پر عالمی مبصرین کو ضرور حیرت ہوئی ہوگی کیونکہ ان کا غیر ضروری اور بلاجواز اضطرابی رد عمل کسی طور پر سفارتکارانہ آداب و روایات اور سارک تنظیم کے دو طرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے کے منشور سے مطابقت نہیں رکھتا، اس سے سارک کے کثیر جہتی اقتصادی ایجنڈا اور اس کی ساکھ کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔
ادھر بھارتی میڈیا کانفرنس کے حوالے سے دن بھر پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرتا رہا، اسلام آباد میں منعقدہ سارک کانفرنس ادھورا چھوڑ کر لوٹ جانے والے بھارتی وزیرداخلہ نے واپس پہنچتے ہی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات بھی کی اور انھیں اپنے دورہ پاکستان کے حوالے سے آگاہ کیا۔ یہ بھارتی اسکرپٹ اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ یہ سب کچھ منصوبہ بندی کا حصہ اور کشمیر صورتحال کو مرکز نگاہ بنانے سے ہٹانا مقصود تھا، چنانچہ یہ قیاس کیا جارہا ہے کہ راجناتھ کو ایسا کرنے کی شاید پیشگی ہدایات مل چکی تھیں جبھی تو وہ پاکستان پہنچنے سے پہلے اپنے تند و تیز بیانات میں واضح کرچکے تھے کہ ان کا کسی پاکستانی رہنما سے ملنے اور الگ سے بات چیت کا کوئی ارادہ نہیں، وہ رعونت کی تصویر بنے بیٹھے رہے، ہم منصب سے مصافحہ میں بھی بخل و کدورت سے کام لیا ۔ پاک بھارت تعلقات اور خطے کی ابتر صورتحال کے پیش نظر سارک کانفرنس کو بھارتی وزیر داخلہ کے ڈرامائی ڈپارچر نے کسی ناکامی سے بچائے رکھا ۔
وزیراعظم نواز شریف نے افتتاحی نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دہشت گردی، بدعنوانی اور منظم جرائم سے نبرد آزما ہونے کے لیے سارک کے رکن ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے بھرپور عزم رکھتا ہے، آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان پر مؤثر عملدرآمد کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں، خطہ کی ترقی اور خوشحالی کے لیے مواصلاتی رابطہ ناگزیر ہے۔ یہ کامیابیاں اپنی سرزمین سے دہشت گردی کی لعنت کے خاتمہ کے لیے حکومتی عزم کی غماز ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ چیلنجوں کے باوجود سارک نے جنوبی ایشیاء میں علاقائی ہم آہنگی کے مقصد کے حصول میں قابل تحسین کردار ادا کیا ہے تاہم تنظیم کو زیادہ مؤثر اور فعال بنانے کے لیے حکومتوں اور سارک اداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ تنظیم کو زیادہ مفید بنانے کے لیے مربوط کوششیں کریں۔
قبل ازیں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے سارک وزرائے داخلہ کانفرنس کے دوران بھارتی ہم منصب راج ناتھ سنگھ کی موجودگی میں مقبوضہ کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ آزادی کی جد وجہد اور دہشت گردی میں فرق ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے نہ کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر ان کی جدوجہد آزادی کو دبایا جائے، مقبوضہ کشمیر میں نہتے شہریوں پر طاقت کا استعمال انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، ان کا آزادی کا حق تسلیم کرنا چاہیے۔
کانفرنس میں بھارتی وزیر داخلہ کی تنقید کے جواب میں خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا6 دہائیوں میں الزامات کی روش نے کسی کو کچھ فائدہ نہیں دیا، الزام برائے الزام کے بجائے بامقصد مذاکرات کیے جائیں، پاکستان میں دہشت گردی سرحد پار سے ہو رہی ہے اور سرحد پار سے ہی پاکستان کے معاملات میں مداخلت کی جا رہی ہے، پٹھانکوٹ، کابل، ممبئی، ڈھاکا دھماکوں کی طرح پاکستان بھی دہشت گردی کا شکار ہے، آرمی پبلک اسکول پشاور، چارسدہ دھماکے،گلشن اقبال پارک لاہور جیسے واقعات دنیا کے سامنے ہیں جن میں ہمارا قیمتی جانی نقصان ہوا، پاکستان نے کبھی اچھے اور برے طالبان میں فرق نہیں کیا، ایسے تمام عناصر کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جا رہی ہے ، پاکستان تمام مسائل پر غیرمشروط مذاکرات کا حامی اور سارک کے تمام معاہدوں کی حمایت کرتا ہے، تمام ممالک سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بھارتی وزیر داخلہ سارک چارٹر کا مطالعہ کرتے اور اس بدمزگی کے ذمے دار نہ ٹھہرائے جاتے۔