سندھ کے شہباز شریف

مراد علی شاہ کی پھرتیاں دیکھ کر اندازہ ہورہا ہےکہ وہ صوبےمیں فرسودہ ’قائم شدہ‘ نظام بدل کرنئی روایات قائم کرناچاہتےہیں

یہ بات ٹھیک کہ قائم علی شاہ کے دور میں پیپلز پارٹی کی حکومت مکمل ناکام رہی لیکن مراد علی شاہ کی دبنگ انٹری اِس طرف اشارہ کررہی ہے کہ شاید وہ ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرسکیں۔

ISLAMABAD:
سندھ کے نئے نویلے وزیراعلیٰ نے ابھی اپنے عہدے کا حلف اٹھا کر سانس بھی نہیں لیا تھا کہ قدرت نے چھم چھم کرتی برکھا رت کے سلسلے کا تحفہ انہیں ٹیسٹ کیس کے طور پر تھما دیا۔ سائیں مراد علی شاہ کیا آئے، شہر قائد سے برسوں سے روٹھی برکھا رت بھی لوٹ آئی۔ کراچی میں جاری گرمی کی لہر تھمی اور حبس میں پھنسے بادل کھل کر برسے۔ بارش کی ترسی عوام کے چہرے کھل اٹھے اور سبزه نکھر گیا، ہر شجر کی ڈالی اور پتے دھل گئے جبکہ کراچی سے روٹھی ہوئی نٹ کھٹ برسات نے ناراض بہو کی طرح عرصہ بعد سسرال میں انٹری لے ہی لی۔

ارے ارے یہ کیا! بارش کی پہلی بوند کے ساتھ ہی آپ کے علاقے کی بجلی چلی گئی؟ دھابیجی پمپنگ اسٹیشن سے شہر کو پانی کی فراہمی معطل ہوگئی؟ سڑکیں ندی نالوں میں ڈھل گئیں؟ برساتی نالے ابل پڑے؟ کچروں سے تعفن اٹھنے لگا؟ رکیں ذرا سانس تو لے لیں، تنقید پر ذرا ہولا ہاتھ رکھیں اور ذرا صبر سے کام لیں۔ خامیاں نکالنے کے لیے تو ہمارے پاس بہت وقت ہے، لیکن ابھی یہ وقت کام کرنے کا ہے۔ مل کر ساتھ چلنے کا ہے۔ مانا کہ بارش کے باعث سینکڑوں گھر گھٹنوں تک پانی میں ڈوب گئے، بارش کے ساتھ ہی بجلی چلے گئی، مرکزی شاہراہوں پر گھنٹوں تک ٹریفک جام رہا، لیکن سچ بتائیے کہ کیا یہ سب پہلی بار ہوا ہے؟ یہ تواس شہر کی برسوں پرانی روایت ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ سائیں قائم علی شاہ کی موجودگی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت مکمل طور پر ناکام رہی ہے، لیکن مراد علی شاہ کی دبنگ انٹری اِس بات کی طرف اشارے کررہی ہے کہ شاید وہ ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کا ازالہ کرسکیں۔

نووارد سائیں تو پہلے دن سے وقت کے ایسے پابند ہیں کہ اسمبلی کے ارکان نے ایک دوسرے سے اپنی گھڑیاں ملالیں۔ کابینہ کے ارکان سمیت صوبائی افسران کی دفاتر میں وقت پر حاضری، وزراء کی اپنے اپنے شعبوں میں غیر معمولی دلچسپی، ترقیاتی کاموں میں تیزی، احکامات پر سختی سے عمل درآمد جاری ہے۔ بے شک یہ سب سائیں کی مہربانی ہے۔ جی ہاں! چہرے پر مسکراہٹ سجائے خوش مزاج شخصیت کے حامل وزیراعلیٰ سندھ تیز ترین کارکردگی کے باعث توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ پنجاب کے خادم اعلیٰ کی طرح مراد علی شاہ پھرتیاں دکھا کر اس شہر کی ابتر حالت کو سدہارنے میں شب و روز مصروف ہیں۔ مون سون کی پہلی بارش کے ساتھ ہی شاہ صاحب نے پائنچے چڑھالیے اور تالاب جیسی سڑکوں پر نکل کھڑے ہوئے۔ ان کی دیکھا دیکھی بلدیہ عظمیٰ اور کے ایم سی کے ادارے بھی حرکت میں آگئے اور سڑکوں سے نکاسی آب کا کام شروع کردیا، جبکہ آئی جی ٹریفک نے شہر میں بارش سے متاثر ٹریفک کی روانی کو تیز کرنے کے لیے احکامات بھی جاری کردیے۔

اِس پھرتی کو دیکھتے ہوئے گمان ہوتا ہے کہ شاید مراد علی شاہ بطور وزیراعلی نئی روایات قائم کرنے آئے ہیں، اور فرسودہ ''قائم شدہ'' نظام کو بدلنے اور روایات کو جدت بخشنے آئے ہیں۔ سید مراد علی شاہ بنیادی طور پر انجنیئر ہیں۔ واپڈا، پورٹ قاسم اتھارٹی میں ایگزیکٹو انجنیئر جبکہ فش ہاربر اتھارٹی میں ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن سے امید کی جاسکتی ہے کہ اس شہر بے امان کے مسائل کو وہ تکنیکی طور پر سمجھ کر مستقل بنیادوں پر حل نکالیں گے۔

اب کچھ بات ہوجائے اس کچرے کی جس پر بعض سیاسی جماعتوں نے خوب سیاست چمکائی اور جھاڑو ہاتھ میں لےکر فوٹو سیشن کروائے۔ سماجی کارکن ڈھکن لگانے میدان میں آئے اور کچرے کے کنٹینر سرکاری عمارتوں کے سامنے الٹ کر چلتے بنے۔ باتیں زیادہ ہوئیں عمل درآمد کم ہوا۔ تین دن، پھر نوے دن کی ڈیڈ لائن بھر چھ ماہ کی مہلت کی بازگشت ہوئی اور کچرے کی بات سابقہ وڈے سائیں کی طرح ہوا میں اڑ گئی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کراچی کی ہر خاص و عام شاہراہ، ہر گلی کے نکڑ، ہر فلیٹ کی دیوار کے ساتھ کچرے کا انبار ہے۔ کوڑا کرکٹ کچرے دانوں کے بجائے سڑکوں کی زینت بنا ہوا ہے۔ شہر میں پانی کی کمی و بندش کا سلسلہ اور واٹر ٹینکرز مافیا کا ماتم ایک طرف، سیوریج اور گٹر کا بدبودار پانی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر سالوں سے بدبودار جوہڑ بنا ہوا ہے۔ برساتی نالوں میں پانی کی نکاسی کے لیے کوئی راستہ نہیں، ان کے اندر افیمچی، نشئی اور گداگر ڈیرہ ڈالے بیٹھے ہیں۔ تعمیراتی کاموں کے نام پر مرکزی شاہراہوں کی کھدائی، کھلے مین ہولز کے باعث بچوں کی اموات، گجر نالے پر ہزاروں مکینوں کو بے گھر کرنے کا اقدام اور بوسیده عمارتوں کے گرنے سے حادثات جیسے واقعات کراچی کے باسیوں کی زندگی کا معمول بن چکا ہے۔


لیکن شہر کی اس منظر کشی کے ذمہ دار صرف حکومتی ادارے اور ضلعی انتطامیہ نہیں بلکہ وہ عوام بھی ہے جو اپنے گھر کی چوکھٹ صاف کرنے پر آئے تو کچرا ساتھ والے گھر یا پارک کے کونے میں ڈال دیتی ہے۔ نالوں کے پاس سے گزرتے ہوئے کوڑے کے تھیلے نالے کے اندر اچھال کر آگے بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوبائی سطح کے اجلاس میں وزیراعلیٰ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ کچرے کے ڈھیر پر کھڑے ہوکر سیلفی لینا اس مسئلے کا حل نہیں۔ اب ہزاروں کچرا کنڈیاں قائم ہوں گی، جگہ جگہ کوڑے دان رکھے جائیں گے جن کا استعمال عوامی شعور کے لیے ایک امتحان ہوگا۔ وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ گڈ گورننس، بہترین ترقیاتی کام، اچھی تعلیم و تعلیمی ادارے، صاف ستھرے اسپتال اور بہترین تعلیمی ادارے صوبائی حکومت کی ترجیحات ہیں۔ مراد علی شاہ نے بتایا کہ پانچ کروڑ روپے کے بحالی اور مرمتی فنڈ کو بڑھا کر اب پانچ ارب روپے کردیا گیا ہے۔ انہوں نے متعلقہ اداروں کو ہدایت کی کہ اب شہر کی عمارتیں اور سڑکیں خستہ حالت میں نظر نہیں آنی چائیے۔ اس ضمن میں متعلقہ اداروں کی غیر تسلی بخش کارکردگی ہرگز قبول نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وزیراعظم نواز شریف سے اپنی پہلی ملاقات کے دوران صوبے کے چیدہ مسائل کے حل میں تعاون کی درخواست بھی کی۔ وہ دن دور نہیں جب کراچی کی عوام صوبہ پنجاب کی خوبصورتی پر رشک کرنے کے ساتھ اپنے شہر کے کھوئے ہوئے حسن پر فخر کرے گی۔ میٹرو بس سروس کی طرح گرین لائن منصوبہ بھی پایہ تکمیل تک پہنچے گا۔

وزیراعلیٰ سندھ نے حکومتی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور محکموں کی صورت حال پر نظر رکھنے کے لیے رابطے کے جدید ذریعے واٹس ایپ کی سہولت سے فائدہ اٹھایا اور ایک گروپ کی تشکیل دے ڈالی۔ اب وہ باآسانی نئی کابینہ کے ارکان اور وزراء سمیت مختلف محکموں کے افسران سے مسلسل رابطے میں ہیں۔

 

گزشتہ ہفتے پیپلز پارٹی کی جانب سے نامزد اور ایوان میں منتخب ہونے والے وزیراعلیٰ نے کام کی جو رفتار پکڑی ہے اُس کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے وہ دن دور نہیں جب صوبے کے تمام وزراء و مشیر اپنے اپنے حلقوں میں قبلے درست کرلیں گے اور جمہورہت کی طرح صوبے کے انتظامی امور بھی پٹری پر ہی رواں دواں رہیں گے۔

[poll id="1188"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story