کوئٹہ میں دہشت گردی کی واردات
ملک بھر میں دہشت گرد اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں لہٰذا وطن عزیز کو اس ناسور سے پاک کرنے کے لیے وقت آ گیا ہے
پاکستان تو کئی بار یہ کہہ چکا ہے کہ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ ہے۔
کوئٹہ کے سول اسپتال میں پیر کو ہونے والے خود کش دھماکے میں 70 افراد شہید اور سو سے زائد زخمی ہوگئے' شہید ہونے والوں میں وکلاء کی بڑی تعداد شامل ہے۔ نجی چینلز سے وابستہ دو کیمرہ مین بھی دہشت گردی کی کارروائی میں شہید ہوئے ہیں۔وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سانحہ کے بعد کوئٹہ پہنچے۔ وزیراعظم نے کوئٹہ میں دھماکے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں عوام' فورسز اور پولیس کی بے پناہ قربانیوں کے بعد امن بحال ہوا ہے کسی کو بلوچستان کا امن تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی' آصف علی زرداری' بلاول بھٹو اور دیگر سیاسی رہنماؤں نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے پیچھے وہ عناصر ہیں جو پاکستان کو مستحکم اور ترقی کرتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے۔ وزیراطلاعات پرویز رشید اور وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کا کہنا ہے کہ دھماکے کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی را ملوث ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سول اسپتال کوئٹہ کا دورہ کیا اور زخمیوں کا حوصلہ بڑھایا۔
بعدازاں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی قیادت میں کور ہیڈ کوارٹرز کوئٹہ میں اجلاس ہوا جس میں وزیراعلیٰ بلوچستان نے بھی شرکت کی' اس موقع پر آرمی چیف نے کہا کہ دہشت گردوں نے خیبرپختونخوا میں شکست کے بعد بلوچستان کا رخ کر لیا ہے' دھماکا بلوچستان کا امن تباہ کرنے کے لیے کیا گیا' بلوچستان میں سی پیک منصوبہ ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، انھوں نے واضح کیا کہ امن و امان کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے، انٹیلی جنس ادارے ہر جگہ کارروائی کریں گے دہشت گردی سے منسلک ہر شخص کو ٹارگٹ کیا جائے گا، آرمی چیف نے ملک بھر میں کومبنگ آپریشن شروع کرنے کی ہدایت کی۔
دہشت گردوں کی کارروائی سے کوئٹہ ایک بار پھر لہو لہو ہو گیا ہے اگرچہ بلوچستان ایک عرصے سے دہشت گردی کی کارروائیوں کا نشانہ بنا ہوا ہے مگر اس بار ہونے والی دہشت گردی کی کارروائی میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا نقصان ہوا ہے۔ خبروں کے مطابق پیر کی صبح بلوچستان بار کونسل کے صدر بلال انور کاسی کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا 'ان کی لاش سول اسپتال کوئٹہ لائی گئی جہاں بعدازاں وکلاء کی بڑی تعداد بھی پہنچ گئی اس موقع کو غنیمت جانتے اور آسان ہدف سمجھتے ہوئے ایک خود کش حملہ آور نے خود کو اڑا دیا۔
جس انداز سے دہشت گردی کی کارروائی ہوئی اس کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اس کے لیے انتہائی تربیت یافتہ دہشت گردوں نے بڑی مہارت سے منصوبہ بندی کی تھی جسے دیکھتے ہوئے اس قیاس آرائی کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے پیچھے بھارتی یا کسی دوسرے ملک کی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ ہے اور سازش میں کوئی مقامی تنظیم یا گروہ نے آلہ کار کا کردار ادا کر کے اپنے وطن سے غداری کی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے تو واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اس کارروائی کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں۔
پاکستان تو کئی بار یہ کہہ چکا ہے کہ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ ہے جو اپنے مذموم ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے افغانستان کی سرزمین کو استعمال کر رہی ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد پاکستان' بھارت اور امریکا کے حوالے کر چکا ہے مگر دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی آنے کے بجائے روز بروز ان میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جو پاکستان کی سلامتی اور امن و امان کے لیے بڑا چیلنج ہے۔
موجودہ صورت حال کے تناظر میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا یہ کہنا بالکل صائب ہے کہ خیبرپختونخوا میں شکست کھانے کے بعد دہشت گردوں نے بلوچستان کو محفوظ پناہ گاہ سمجھتے ہوئے اسے اپنا نشانہ بنا لیا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کرنے کے ساتھ ساتھ افغانستان سے ملحقہ سرحد پر بھی سیکیورٹی کا نظام زیادہ موثر بنایا جائے کیونکہ اس قیاس کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ دہشت گردوں کو افغانستان کے راستے سے اعانت مل رہی ہے۔
امریکا اور افغان حکومت پاکستان پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے کے لیے تو دباؤ ڈالتی رہتی ہیں مگر افغانستان کے اندر موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے وہ کوئی کارروائی نہیں کر رہیں جب کہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں تو افغانستان میں موجود ہیں۔ادھر خبروں کے مطابق حساس ادارے نے پنجاب حکومت کو خبردار کیا ہے کہ افغانستان سے سولہ خود کش حملہ آور صوبے کے دس بڑے شہروں میں داخل ہو گئے ہیں۔اس سے پہلے کہ یہ دہشت گرد اپنے مذموم ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں سیکیورٹی اداروں کو انھیں گرفتار کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانا چاہیے۔
گلشن اقبال پارک لاہور میں ہونے والے دھماکے سے پیشتر یہ اطلاع مل چکی تھی کہ دہشت گرد کہیں کارروائی کرنے والے ہیں مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ گلشن اقبال پارک کو نشانہ بنائیں گے۔ امریکا میں نائن الیون کے بعد دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا جس کی وجہ سیکیورٹی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کا متحرک ہونا تھا 'انھوں نے دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانوں کا پتہ لگا کر انھیں گرفتار کیا مگر ہمارے ہاں یہ اطلاعات تو دے دی جاتی ہیں کہ دہشت گرد شہروں میں داخل ہو گئے ہیں مگر انھیں گرفتار کرنے کے نظام میں سقم معلوم ہوتے ہیں کیونکہ دہشت گرد اپنی کارروائیوں میں کامیاب ہو جاتے جس کے بعد سیکیورٹی ادارے متحرک ہوتے ہیں۔
ملک بھر میں دہشت گرد اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں لہٰذا وطن عزیز کو اس ناسور سے پاک کرنے کے لیے وقت آ گیا ہے کہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے تعاون سے گراس روٹ لیول پر عوام کو متحرک کیا جائے کیونکہ جس پیمانے پر دہشت گردی پھیل چکی ہے اس کا خاتمہ عوام کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی' آصف علی زرداری' بلاول بھٹو اور دیگر سیاسی رہنماؤں نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے پیچھے وہ عناصر ہیں جو پاکستان کو مستحکم اور ترقی کرتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے۔ وزیراطلاعات پرویز رشید اور وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کا کہنا ہے کہ دھماکے کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی را ملوث ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سول اسپتال کوئٹہ کا دورہ کیا اور زخمیوں کا حوصلہ بڑھایا۔
بعدازاں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی قیادت میں کور ہیڈ کوارٹرز کوئٹہ میں اجلاس ہوا جس میں وزیراعلیٰ بلوچستان نے بھی شرکت کی' اس موقع پر آرمی چیف نے کہا کہ دہشت گردوں نے خیبرپختونخوا میں شکست کے بعد بلوچستان کا رخ کر لیا ہے' دھماکا بلوچستان کا امن تباہ کرنے کے لیے کیا گیا' بلوچستان میں سی پیک منصوبہ ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، انھوں نے واضح کیا کہ امن و امان کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے، انٹیلی جنس ادارے ہر جگہ کارروائی کریں گے دہشت گردی سے منسلک ہر شخص کو ٹارگٹ کیا جائے گا، آرمی چیف نے ملک بھر میں کومبنگ آپریشن شروع کرنے کی ہدایت کی۔
دہشت گردوں کی کارروائی سے کوئٹہ ایک بار پھر لہو لہو ہو گیا ہے اگرچہ بلوچستان ایک عرصے سے دہشت گردی کی کارروائیوں کا نشانہ بنا ہوا ہے مگر اس بار ہونے والی دہشت گردی کی کارروائی میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا نقصان ہوا ہے۔ خبروں کے مطابق پیر کی صبح بلوچستان بار کونسل کے صدر بلال انور کاسی کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا 'ان کی لاش سول اسپتال کوئٹہ لائی گئی جہاں بعدازاں وکلاء کی بڑی تعداد بھی پہنچ گئی اس موقع کو غنیمت جانتے اور آسان ہدف سمجھتے ہوئے ایک خود کش حملہ آور نے خود کو اڑا دیا۔
جس انداز سے دہشت گردی کی کارروائی ہوئی اس کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اس کے لیے انتہائی تربیت یافتہ دہشت گردوں نے بڑی مہارت سے منصوبہ بندی کی تھی جسے دیکھتے ہوئے اس قیاس آرائی کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے پیچھے بھارتی یا کسی دوسرے ملک کی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ ہے اور سازش میں کوئی مقامی تنظیم یا گروہ نے آلہ کار کا کردار ادا کر کے اپنے وطن سے غداری کی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے تو واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اس کارروائی کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں۔
پاکستان تو کئی بار یہ کہہ چکا ہے کہ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ ہے جو اپنے مذموم ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے افغانستان کی سرزمین کو استعمال کر رہی ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد پاکستان' بھارت اور امریکا کے حوالے کر چکا ہے مگر دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی آنے کے بجائے روز بروز ان میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جو پاکستان کی سلامتی اور امن و امان کے لیے بڑا چیلنج ہے۔
موجودہ صورت حال کے تناظر میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا یہ کہنا بالکل صائب ہے کہ خیبرپختونخوا میں شکست کھانے کے بعد دہشت گردوں نے بلوچستان کو محفوظ پناہ گاہ سمجھتے ہوئے اسے اپنا نشانہ بنا لیا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کرنے کے ساتھ ساتھ افغانستان سے ملحقہ سرحد پر بھی سیکیورٹی کا نظام زیادہ موثر بنایا جائے کیونکہ اس قیاس کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ دہشت گردوں کو افغانستان کے راستے سے اعانت مل رہی ہے۔
امریکا اور افغان حکومت پاکستان پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے کے لیے تو دباؤ ڈالتی رہتی ہیں مگر افغانستان کے اندر موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے وہ کوئی کارروائی نہیں کر رہیں جب کہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں تو افغانستان میں موجود ہیں۔ادھر خبروں کے مطابق حساس ادارے نے پنجاب حکومت کو خبردار کیا ہے کہ افغانستان سے سولہ خود کش حملہ آور صوبے کے دس بڑے شہروں میں داخل ہو گئے ہیں۔اس سے پہلے کہ یہ دہشت گرد اپنے مذموم ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں سیکیورٹی اداروں کو انھیں گرفتار کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانا چاہیے۔
گلشن اقبال پارک لاہور میں ہونے والے دھماکے سے پیشتر یہ اطلاع مل چکی تھی کہ دہشت گرد کہیں کارروائی کرنے والے ہیں مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ گلشن اقبال پارک کو نشانہ بنائیں گے۔ امریکا میں نائن الیون کے بعد دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا جس کی وجہ سیکیورٹی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کا متحرک ہونا تھا 'انھوں نے دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانوں کا پتہ لگا کر انھیں گرفتار کیا مگر ہمارے ہاں یہ اطلاعات تو دے دی جاتی ہیں کہ دہشت گرد شہروں میں داخل ہو گئے ہیں مگر انھیں گرفتار کرنے کے نظام میں سقم معلوم ہوتے ہیں کیونکہ دہشت گرد اپنی کارروائیوں میں کامیاب ہو جاتے جس کے بعد سیکیورٹی ادارے متحرک ہوتے ہیں۔
ملک بھر میں دہشت گرد اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں لہٰذا وطن عزیز کو اس ناسور سے پاک کرنے کے لیے وقت آ گیا ہے کہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے تعاون سے گراس روٹ لیول پر عوام کو متحرک کیا جائے کیونکہ جس پیمانے پر دہشت گردی پھیل چکی ہے اس کا خاتمہ عوام کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔