اب سرحد پر نہیں سرحد کے اندر جنگ

بدقسمتی یہ کہ نظریات کی کوکھ سے انتہا پسندوں نے جنم لیا اور یہی انتہا پسندی پروان چڑھ کر دہشت گردی میں ڈھل گئی۔

آج شاید سرحدوں کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھنا تو ممکن نہیں رہا لیکن سرحدوں کے اندر آبادی میں جو جنگ بلکہ جنگیں جاری ہے اُن سے نمٹنا بہت زیادہ ضروری ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

البرٹ آئن اسٹائن نے کہا تھا، مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ تیسری جنگ عظیم کن ہتھیاروں سے لڑی جائے گی لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ چوتھی جنگ عظیم میں پتھر اور ڈنڈے ہی استعمال ہوں گے۔ یعنی اُس وقت دنیا اپنے آپ کو جنگوں سے اتنا برباد کرچکی ہوگی کہ واپس پتھر کے زمانے میں پہنچ جائے گی۔

بچپن میں سکھایا جاتا ہے، جنگ بہت بُری چیز ہوتی ہے، اس سے زیادہ بدترین نتیجہ کسی امر کا کیا ہوسکتا ہے کہ لوگوں کے پڑوسیوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے الفت کے بجائے نفرت بھر جاتی ہے۔ یہ ہی دو ملکوں کے درمیان جنگ کا نتیجہ ہوتا ہے، دلوں میں نفرتیں۔

بھارت کے خلاف 65ء کی جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو ملنے والی فتح کو اکیاون برس گزرچکے ہیں۔ کہا جاتا ہے جنگ شروع کرنا آسان، ختم کرنا مشکل اور بھلانا ناممکن ہوتا ہے۔ اسی لیے ہم سالانہ اُسے یاد کرتے ہیں کہ کہیں بھول نہ جائیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں تو ہر سال چھ ستمبر کو یوم دفاع منایا جاتا ہے لیکن اگر پاکستان میں اِسی دن یوم دفاع کے نام سے تقریبات منعقد ہوتی ہیں تو گزشتہ سال سے بھارت میں بھی یومِ فتح کے نام سے تقریبات کا آغاز ہوا ہے۔ یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ آج ہم اُنہی دنوں کی بات کریں گے، بلکہ آج تو ہمارا موضوع یہ دیکھنا ہے کہ 1965ء میں اِس پاک سرزمین کا دفاع زیادہ مضبوط تھا یا آج ہمارا ملک زیادہ محفوظ ہے۔

جنگِ ستمبر کی یاد میں پاک افواج کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ملک میں ہر سال 6 ستمبر کو یومِ دفاع پاکستان منایا جاتا ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد یہ پیغام دینا ہوتا ہے کہ دفاع پاکستان کے لیے پوری قوم متحد ہے۔ یہ دن ہمیں پاکستانی جوانوں کی بہادری، ان کی سرفروشی، وطن پر مر مٹنے کے جذبے کی، قوم کے اتحاد کی اور لازوال ملی و قومی گیتوں کی یاد دلاتا ہے۔ جب پاک فوج اور پوری قوم نے مل کر اپنے سے کئی گنا بڑے جنگی حریف سے اپنی سرزمین کی حفاظت کی تھی۔ اُس وقت ہمارے فوجی جوانوں نے اپنے سے تقریباً دوگنی تعداد کے دشمن سے اپنے ملک کی زمینی سرحدوں کی حفاظت شایان شان طریقے سے کی تھی۔ (پاکستان تقریباً 60 ہزار، بھارت ایک لاکھ فوجی)۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اکیاون سال پیشتر سرحدوں پر ہونے والی جنگ اب سرحدوں سے اندر ہمارے شہروں، گلی کوچوں، محلوں میں پہنچ چکی ہے۔


اکیاون سال میں بہت کچھ بدل گیا۔ پہلے ملک ٹوٹا، ہم اپنے نصف لخت کی حفاظت نہیں کرسکے۔ جنگ زمینی سرحدوں سے نظریاتی سرحدوں پر منتقل ہوگئی۔ نظریات کی ایسی کھیپ آئی کہ قومی تشخص کا مفہوم ہی تبدیل ہوگیا۔ نظریات کی کوکھ سے انتہا پسندوں نے جنم لیا اور یہی انتہا پسندی پروان چڑھ کر دہشت گردی میں ڈھل گئی۔ جوآگ پہلے پہل دوسروں کے لیے لگائی گئی تھی۔ اس نے بعد میں ہمیں ہی جھلسا کر رکھ دیا۔ آج ہمارے یہاں مذہبی کے ساتھ ساتھ علاقائی، لسانی، سیاسی، فرقہ وارانہ انتہاپسندی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ لیکن اس کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے مکمل یکسوئی نظر اب تک نہیں آسکی۔ ٹھیک ہے، پکڑ دھکڑ اور آپریشن وغیرہ کے ذریعے ہم مجرموں کو دہشتگردوں کو کیفر کردار تک پہنچا سکتے ہیں لیکن مزید دہشتگرد پیدا ہونے سے کیسے روکیں گے؟ انتہا پسندی ختم کیے بغیر دہشتگردی کا خاتمہ کسی دیوانے کا خواب ہی معلوم ہوتا ہے اور انتہاپسندی تو پاکستانی معاشرے کی رگ و پے میں سرائیت کرچکی ہے۔ وقت تو یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہماری اصل جنگ انتہاپسندی کیخلاف ہی ہونی چاہیے۔ تعلیمی و سماجی سطح پر اس سے نجات پانے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔

لیکن چونکہ یہ سارے کام اِس طرح نہیں ہورہے جس طرح ہونے چاہیے، جس کی وجہ سے آج ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ موثر طریقے سے لڑنے کے بجائے ہم نے نعروں پر اکتفا کیے رکھا ہے۔ 'دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے'، 'دہشت گردی کے مراکز کا خاتمہ ہوچکا'، 'دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے'، ایسے ہر سرکاری بیان کے بعد یہ دہشتگرد کوئی کارروائی کرکے اپنی ٹھوس اور ناقابل تردید موجودگی کا ثبوت دے دیتے ہیں۔ اس سلسلے کا تازہ ترین بیان، 'دہشتگردوں کی جان ختم، دم باقی رہ گئی ہے'، گزشتہ دنوں سامنے آیا ہے۔ یہ بیان سامنے آنے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد ''باقی بچی دُم'' نے پہلے پشاور کی کرسچین کالونی پر حملہ کیا جسے بروقت کارروائی سے ناکام بنادیا گیا۔ یہ کالونی تو بچ گئی لیکن ''دُم'' میں ابھی جان باقی تھی لہذا مردان میں خود کش حملے میں 13 سستی سی انسانی جانیں چلی گئیں۔

یوم دفاع کے موقع پر ہم سنتے اور پڑھتے چلے آئے ہیں کہ جنگ ستمبر میں کامیابی اور ایٹمی طاقت بننے کے بعد اب کوئی ہماری سرحدوں کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی بھی ہمت نہیں کرے گا۔ آج شاید سرحدوں کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھنا تو ممکن نہیں رہا لیکن سرحدوں کے اندر آبادی میں جو جنگ بلکہ جنگیں جاری ہے اُن سے نمٹنا بہت زیادہ ضروری ہے۔ جی ہاں جنگیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ، فرقہ واریت، انتہاپسندی کے خلاف جنگ، کرپشن کے خلاف جنگ، منشیات کے خلاف جنگ (چند روز ہوئے اقوام متحدہ نے کراچی کو منشیات کا گڑھ قرار دیا ہے)، اقربا پروری کے خلاف جنگ، مخصوص سوچ کی نسل پیدا کرنے والے تعلیمی نظام کے خلاف جنگ، بے شمار سماجی رویوں کے خلاف جنگ، امیر غریب میں بڑھتی خلیج کے خلاف جنگ وغیرہ وغیرہ۔ نہ جانے ان سے کب گلو خلاصی ہوگی اور کب ہمارا شمار پر امن قوموں میں ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story