روس چین جنگی مشقیں اور بھارت کی پریشانی

امریکا سپرپاور ہونے کے مزے تو کب سے لوٹ رہا ہے ، بھارت کا خطے میں بالادستی کا خواب بھی بڑا پرانا ہے

خطے میں تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال کا اندازہ اس امر سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ روس اورچین نے مشترکہ بحری مشقوں کا آغازکیا ہی تھاکہ بھارت کو شدید تشویش لاحق ہوگئی،اور اس نے ردعمل کے طور پر امریکا سے مل کر چینی سرحد کے قریب فوجی مشقیں شروع کردیں، یہ مشترکہ فوجی مشقیں بھارت کی شمالی ریاست اترکھنڈ میں 27 ستمبر تک جاری رہیں گی ، پاک فضائیہ نے بھی ملکی سطح پرجنگی مشقوں کا فیصلہ کیا ہے۔

دراصل روس اور چین کے درمیان بڑھتا ہوا دفاعی تعاون دنیا کی دوسری اورتیسری بڑی فوج رکھنے والے ممالک کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے تعلقات کا مظہر ہے، جو خطے میں امریکی اثرورسوخ کا نہ صرف مقابلہ کرنا چاہتے ہیں، بلکہ اس کا بھرپور قوت سے جواب بھی دینا چاہتے ہیں ۔اسی تناظر میں نئی دہلی سرکار نے بیان جاری کیا تھا کہ بیجنگ کی بڑھتی ہوئی بحری قوت تشویشناک ہے ۔اس حوالے سے حکمت عملی بنارہے ہیں، امریکا سے مل کر چین کی سرحد کے قریب فوجی مشقیں اسی حکمت عملی کا نمونہ نظرآتی ہیں ۔


دوسری جانب چینی بحریہ کے ترجمان نے بتایا کہ یہ بحری مشقیں کسی خاص ملک کے خلاف نہیں ہیں بلکہ سالانہ پروگرام کا حصہ ہیں ۔جن کا مقصد چین اور روس کے درمیان وسیع اسٹرٹیجک شراکت داری کو مزید فروغ دینا ہے اور دونوں ممالک کی افواج کے درمیان دوستانہ تعلقات اور عملی تعاون کو مزید مستحکم کرنا ہے ۔

مشتری ہوشیار باش کے مصداق خطے میں تیزی سے تبدیلی ، عالمی سطح پر چلی جانے والی چالوں سے پاکستان کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے، امریکا سپرپاور ہونے کے مزے تو کب سے لوٹ رہا ہے ، بھارت کا خطے میں بالادستی کا خواب بھی بڑا پرانا ہے۔ چین اپنے دفاع سے غافل نہیں ہے، روس سے عملی تعاون کی راہیں ہموار ہونے پر طاقت کا توازن ، خاصی حد تک تبدیل ہوتا نظر آتا ہے ، پاکستان کی سٹرٹیجک اہمیت اپنی جگہ ہے ۔ دوسری جانب چین نے اپنے خلاف بھارت اور جاپان کے دفاعی تعاون کو شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جاپانی طیاروں کی بھارت کو فروخت کا مقصد بحیرہ جنوبی چین پر نظر رکھنا ہے۔کیا یہ جنگی مشقیں کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہیں، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے ۔

اگر دو ممالک مشترکہ فوجی مشقیں کریں تو یہ کوئی قابل اعتراض امر نہیں ہے جب کہ ان میں کوئی منفی پہلو ایک دوسرے کے خلاف نہ ہو ۔ یہ الارمنگ صورتحال پاکستان کے لیے بھی ہے، کیونکہ امریکی بے وفائی اور طوطا چشمی کھل کر سامنے آرہی ہے، بھارت اور امریکا نہیں چاہتے کہ پاکستان کے عوام سی پیک سے فائدہ پا سکیں ۔
Load Next Story