جرمنی کو سلام

11 ستمبر 2012ء کی شام مزدور طبقے مظلوم طبقات کے حالات کار کو بہتر بنانے کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے ایک سیاہ شام تھی

tauceeph@gmail.com

11 ستمبر 2012ء کی شام مزدور طبقے مظلوم طبقات کے حالات کار کو بہتر بنانے کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے ایک سیاہ شام تھی۔ اس دن بلدیہ ٹاؤن کے علاقے میں ایک گارمنٹس فیکٹری میں آگ بھڑک اٹھی۔ یہ آگ 24 گھنٹے سے زیادہ عرصے تک بھجائی نہ جا سکی۔اس کے نتیجے میں 259 کے قریب مزدور جاں بحق ہو گئے۔

پہلے کراچی کی انتظامیہ نے آتشزدگی کی وجہ شارٹ سرکٹ قرار دی، مزدوروں کے تحقیقات کے مطالبے پر جسٹس قربان علوی کی زیرِ قیادت ٹریبونل بنا دیا گیاجو 2013ء کے انتخابات میں عبوری وزیر اعلیٰ تھے۔ جسٹس قربان علوی ٹریبونل نے تاریخ کے سب سے بڑے صنعتی سانحے کی تحقیقات کی مگر اس ٹریبونل کی رپورٹ شایع نہ ہو سکی۔ اس وقت کے ایم کیو ایم کے وزیرِصنعت رؤف صدیقی نے اپنی ناکامی پر استعفیٰ دیدیا تھا مگر بعد میں انھوں نے استعفیٰ واپس لے لیا۔ پولیس نے فیکٹری کے مالکان کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت مقدمات درج کیے۔

یہ مالکان کئی ماہ جیل میں بند رہے۔ پھر صدر آصف زرداری کراچی اسٹاک ایکسچینج کے دورے پر آئے اور پولیس نے یہ دفعات واپس لے لیں۔ گزشتہ سال جب رینجرز نے ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر 90 پر چھاپہ مارا تو رینجرز نے پریس ریلیز میں الزام لگایا کہ اس فیکٹری پر ایم کیو ایم کے کارکنوں نے کیمیکل پھینکا تھا۔ ایم کیو ایم لندن کی قیادت فیکٹری مالکان سے بھتہ نہ دینے اور پیدوار میں حصہ نہ دینے پر ناراض تھی۔ یہ مقدمہ انسدادِ دہشتگردی کی عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔

میاں نواز شریف خود کراچی آئے اور متاثرین سے خطاب کیا اور مرنے والے افراد کے لواحقین کے لیے فی کس 3 لاکھ روپے اور وزیر اعلیٰ نے لواحقین کے لیے ایک ایک پلاٹ دینے کے اعلانات کیے تھے۔ کراچی کی گارمنٹ فیکٹریوں میں نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے اردو بولنے والے خواتین و مردوں کے علاوہ جنوبی پنجاب اور خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے افراد کی اکثریت کام کرتی تھی اورکچھ تعداد اندرونِ سندھ سے آنے والے مزدوروں کی تھی۔ یہ لوگ بہت کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔

مزدور رہنما ناصر منصور کا کہنا ہے کہ گارمنٹس فیکٹری میں کام کرنے والے اکثر نوجوان تھے۔ علاقے کے نوجوان میٹرک کے امتحان سے فارغ ہو کر یا اسکولوں اورکالجوں کی چھٹیوں میں یہاں کام کرتے تھے۔ اجرت کی ادائیگی ہر جوڑے کی تیاری کی بنیاد پر ہوتی تھی۔ یوں چھٹی کا اصول نہیں تھا۔ جو کارکن جتنا زیادہ کام کرتا اس کا معاوضہ اتنا ہی زیادہ ہوتا تھا۔ ان لوگوں کو اپنے قانونی حقوق تنظیم کاری کے بارے میں کوئی شعور نہیں ہوتا۔ دوسرا انتظامیہ کارکنو ں کے رویہ کی سختی سے نگرانی کرتی تھی۔ کسی بھی کارکن کے اجرت یا کسی سہولت کے تناظر میں سوال پر اس کو رخصت کر دیا جاتا تھا۔ اس لیے کارکنوں کی اجتماعی جدوجہد کا کوئی تصور نہیں تھا۔

بائیں بازو کی مزدور تنظیم نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے رہنما ناصر منصور اور ان کے ساتھی بلدیہ، سائٹ، فیڈرل بی ایریا اور لانڈھی وغیرہ کے صنعتی اداروں کے مزدوروں میں اجتماعی تنظیم اور مزدوروں کے قانونی حقوق کے تحفظ کے لیے سرکرداں ہیں۔ ناصر منصور اور ان کے ساتھیوں کا اس گارمنٹس فیکٹری کے مزدوروں کے لواحقین سے رابطہ ہوا اور لواحقین نے اپنی انجمن بنا کر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد شروع کی۔

ناصر منصور لواحقین کی انجمن کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں بھی گارمنٹس فیکٹری میں آتش زدگی کا بدترین سانحہ رونما ہوا تھا مگر مزدور تنظیموں نے لواحقین کو منظم نہیں کیا اور دوسرے فریق حکومت اور یورپی ممالک اور ان کے اداروں سے مذاکرات کرتے رہے۔ جس کی بناء پر لواحقین کو حقیقی فوائد حاصل نہیں ہو سکے۔ ناصر منصور کی تنظیم اور مزدوروں کے معاملات پر تحقیق اور آگہی پیدا کرنے کی کوشش کرنے والی تنظیم پائلر کی کوششوں سے سندھ ہائیکورٹ میں مقدمات دائر ہوئے۔


رشید رضوی اور فیصل صدیقی جیسے بڑے وکلاء نے بلا معاوضہ ان مقدمات کی پیروی کی۔ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے تحت حکومت فیکٹری ملازمین کے لواحقین کو معاوضہ دینے پر تیار ہوئی۔ حکومت نے ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے لواحقین کے رشتے داروں کی تصدیق ہونے کے بعد لواحقین کو چیک دیے۔ یہ ایک طویل اور تھکا دینے والا عمل تھا۔ ناصر منصور اور ان کے وکلاء ہر قدم پر لواحقین کو حوصلہ دیتے رہے جس کا منطقی نتیجہ لواحقین کو ادائیگی کی صورت میں نکلا۔ مگر یہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ جب کہ 17 افراد کو لاوارث قرار دے کر دفنا دیا گیا۔ ان کے لواحقین کو ڈی این اے ٹیسٹ کی تصدیق نہ ہونے پر کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا۔

علی گارمنٹس فیکٹری اپنی مصنوعات برآمد کرتی تھی۔ جرمنی، ہالینڈ، برطانیہ اور دیگر ممالک اس کے خریدار تھے۔ جرمنی کی کئی کمپنیاں اس فیکٹری سے خریدی ہوئی مصنوعات کے ذریعے کروڑوں یورو سالانہ کماتی تھیں۔ برآمدات کی اشیاء کے معیار کے تعین کے لیے ایک سوشل آڈٹ سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سرٹیفکیٹ غیر ملکی آڈٹ فرم جاری کرتی ہے۔ اس سرٹیفکیٹ میں فیکٹری کی عمارت مشینری قوانین پر عملدرآمد کے بارے میں بین الاقوامی معیارکی تصدیق کی جاتی ہے۔ یہ سرٹیفکیٹ اٹلی کی ایک فرم نے جاری کیا تھا۔

ناصر منصور وغیرہ نے بین الاقوامی مزدوروں کی تنظیموں کے نمایندوں سے رابطہ کیا اور اس کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے امکانات کا جائزہ لیا تھا۔ وکیل کی فیس اور دستاویزات کی تیاری کے مراحل مشکل تھے مگر 5 سو لواحقین نے یہ مقدمہ دائر کیا۔ قوی امکان ہے کہ کارکنوں کی یہ کوشش کامیاب ہو جائے۔ اس کے ساتھ ہی جرمنی کی فرم کے خلاف وہاں کی عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کی تیاری ہوئی۔ وکیل کی فیس دینے کے لیے ہر فرد کے حصے میں 15 لاکھ روپے کے قریب آئے۔ جرمنی میں غیر ملکی متاثرین کے معاوضے کے لیے ابھی کوئی قانون موجود نہیں ہے۔

فرانس کی خبررساں ایجنسی اے ایف پی نے 12 ستمبر کو جرمنی کی کمپنی کے سربراہ کا یہ بیان جاری کیا کہ کمپنی لواحقین کو مزید 5.15 ملین ڈالرکی رقم ادا کرنے پر تیار ہو گئی ہے۔ اس کمپنی نے 2012ء میں متاثرین کو ایک ملین ڈالر کی رقم ادا کی تھی۔کمپنی رضاکارانہ طور پر یہ معاوضہ دے گی۔ یہ رقم بین الاقوامی ادارہ محنت (I.L.O)، جرمنی کی ترقیات کی وزارت اور علی گارمنٹس فیکٹری کے ملازمین کے لواحقین کی انجمن کے نمایندوں کے درمیان مہینوں ہونے والی بات چیت کے بعد اس رقم پر اتفاق رائے ہوا ہے۔

جرمنی کے مزدوروں کی بہبود کے حوالے سے اس معاہدے کو تاریخی قرار دیا گیا۔ علی گارمنٹس فیکٹری میں آتش زدگی کی اور بہت سے مزدوروں کی ہلاکت پر یورپی پارلیمنٹ میں سنجیدہ بحث ہوئی تھی اور یورپی پارلیمنٹ نے یورپی فرموں کو ہدایت کی تھی کہ پاکستان سے یہ اشیاء درآمد کرتے ہوئے وہاں کی فیکٹریوں کے حالات کی نگرانی کے لیے ایک آزاد نظام قائم ہونا چاہیے۔ ناصر منصور کا کہنا ہے کہ جرمنی حکومت اب ایسے معاملات کے حل کے لیے قانون سازی کر رہی ہے اور جرمن حکومت نے لواحقین کے اس مقدمے پر آنے والے اخراجات خود ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بزرگ مزدور رہنما عثمان بلوچ جن کی زندگی کا بیشتر حصہ مزدوروں کے استحصال کے خاتمے کے لیے تحریک کو منظم کرنے میں گزرا ہے۔ یورپی ریاستوں کے سماجی کردار کو سراہتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس امداد کا منصفانہ استعمال اب حکومت، مزدور تنظیموں اور لواحقین کا امتحان ہے۔ عثمان بلوچ کا کہنا ہے کہ سندھ ہائیکورٹ کی نگرانی میں اس رقم کے ادارہ جاتی استعمال کے لیے لائحہ عمل تیار ہونا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ کم از کم 5 کروڑ روپے لواحقین کے بچوں کی تعلیم کے لیے مختص کرنے چاہئیں۔ لواحقین کے بچوں کو تعلیم دلوانے کے لیے وظائف کا اجراء ہونا چاہیے اور یہ رقم انڈومنٹ فنڈ کی صورت میں استعمال ہونی چاہیے اور پرائمری سطح سے Ph.D تک تعلیم کے لیے وظائف ملتے رہنے چاہیئیں۔

یہ رقم کسی محفوظ اسکیم میں لگائی جائے اور وصول ہونے والے منافعے سے حاصل شدہ رقم لواحقین کے بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے خرچ ہونا چاہیے۔ اسی طرح انھیں صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے بھی رقم مختص کر دی جائے تو فائدہ خاندانوں کو ہو گا۔ اگرچہ اس بات کو مان بھی لیا جائے کہ علی گارمنٹس فیکٹری میں آتش زدگی کے لیے کیمیکل باہر سے پھینکا گیا تو بھی اگر فیکٹری میں ہنگامی صورتحال پر قابو پانے کی سہولتیں ہوتیں، تو نقصان بہت کم ہوتا۔ پھر یہ معاملہ صرف علی گارمنٹس فیکٹری کا نہیں ہے، ملک بھرکی فیکٹریوں میں صنعتی قوانین پر عملدرآمد ماضی کا حصہ ہو گیا ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں ماحولیات اور سیفٹی کے معیار کے بارے میں جانچ پڑتال کرنے والے انسپیکٹروں کے فیکٹروں میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

پیپلز پارٹی کے وزراء کا کام مالکان سے پیسے وصول کرنا تھا۔ ایم کیو ایم والے بھتے کی پرچیاں وغیرہ فیکٹریوں میں بھجواتے تھے۔ اس صورتحال میں مزدوروں کے حالات کار کو بہتر بنانے اور فیکٹریوں کو قوانین کے مطابق تربیت دینے کا سلسلہ ختم ہو چکا تھا، مگر المیہ یہ ہے کہ اس سانحے کے بعد وفاق اور سندھ حکومت کے رویے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ آج بھی فیکٹریوں کے حالات خراب ہیں اور کسی بھی وقت کوئی سانحہ رونما ہو سکتا ہے۔ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت علی گارمنٹس فیکٹری کے لواحقین کو معاوضے کی ادائیگی کے معاملے کو فراموش کر چکے ہیں۔ اس سانحے کے ذمے دار آزاد پھر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں جرمنی حکومت اور وہاں کی فرموں کی انتظامیہ کو سلام کرنے کو دل چاہتا ہے۔
Load Next Story