تحقیق کا فقدان اور پاکستان

بدقسمتی یہ کہ ہمارے یہاں پروفیشنل ڈگری حاصل کرنیکے بعد بھی نوجوان اس معیار پر پورے نہیں اترتے جو انکی ڈگری کا تقاضہ ہے

جہاں ملکی دفاع، شاہانہ کابینہ اور دیگر شعبہ جات میں بجٹ کا بڑا حصہ صرف ہوتا ہے، وہاں تعلیم جیسے شعبہ کو نظر انداز کرنا سوائے حماقت کے کچھ نہیں۔

جیسے جیسے پاکستان کی آبادی بڑھ رہی ہے اسی طرح نوجوانوں کی تعداد بھی مسلسل بڑھتی جارہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تعلیمی درسگاہوں کی اور ضرورت اور اہمیت میں بھی دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یونیورسٹی تعلیمی مراحل کی آخری کڑی ہوتی ہے یہیں سے تعلیم حاصل کرکے طالب علم ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، صحافی بنتے ہیں اور اگر اس آخری کڑی کی بنیاد ہی کھوکھلی ہو تو سوچا جاسکتا ہے کہ پروفیشنل ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی نوجوان اس معیار پر پورے نہیں اترتے جو ان کی ڈگری کا تقاضہ ہے۔

ٹائمز ہائیر ایجوکیشن کی جانب سے جاری کردہ ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ 2016 ۔ 2015 میں پاکستان کی فقط دو ہی جامعات جگہ بنا پائی ہیں۔ جن میں قائداعظم یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف انجنئیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) شامل ہیں۔ دنیا کا اصول ہے کہ جامعات تحقیقی کلچر بناتی ہیں اور ان تحقیقوں کا کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ہوتا ہے۔ لیکن بصد افسوس پاکستان میں تحقیق کا شدید فقدان نظر آتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت مجموعی جامعات کی تعداد 163 ہے جس میں 94 سرکاری اور 69 نجی جامعات ہیں اسکے باوجود سالانہ تحقیقی پبلیکشنز کی تعداد صرف 13 فیصد ہے۔

قائداعظم یونیورسٹی نے 2010ء میں 548 تحقیقی پیپرز شائع کئے، جو اِس وقت کے پاکستان کی کسی بھی جامعہ کے سب سے زیادہ ریسرچ ورک شائع کرنے والی جامعہ تھی لیکن اسی تحقیق میں کمی کے باعث قائداعظم یونیورسٹی کا اسکور ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ میں 600-501 کے بینڈ سے گر کر 800-601 کے بینڈ میں آگیا ہے جو افسوسناک ہے۔


پاکستان جی ڈی پی کا صرف 2 فیصد ہائیر ایجوکیشن پر لگاتا ہے جو کہ پڑوسی ممالک کی نسبت بہت کم ہے۔ پاکستان ان ممالک میں سے ہے جس کی یوتھ کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور اس وقت پاکستان کی 59 ملین آبادی 24-10 سال کے درمیان ہے جو اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ پاکستان کو اپنے معیار تعلیم پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ماسٹرز کی سطح پر کرائی جانے والی تحقیق کے عنوان اکثر و بیشتر ایک جیسے ہوتے ہیں اور یوں طلبہ ایک ہی جیسے موضوعات پر بار بار تحقیق کررہے ہوتے ہیں جس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلتا جبکہ جامعات میں کرائی جانے والی ریسرچ کے زریعے دنیا کو ان نئی چیزوں سے متعارف کرایا جاتا یے جن سے پہلے لوگ لاعلم ہوں۔ ریسرچ پیپرز شائع کرنے میں اس وقت چین کو سب پر سبقت حاصل ہے۔

گلوبل انویشن انڈیکس کے مطابق 141 ممالک میں سے پاکستان کا شمار 131ویں نمبر پر ہوتا ہے جوکہ انتہائی مایوس کن ہے یعنی پاکستانی ناصرف چیزیں ایجاد کرنے بلکہ انکی اختراع میں بھی پیچھے نظر آتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم میں جدت کے ساتھ بچوں اور نوجوانوں میں تخلیقی سوچ کو پروان چڑھایا جائے تاکہ مستقبل میں پاکستانی نوجوان تحقیق اور تخلیق کے شعبے میں کسی سے پیچھے نہ ہوں اور اس ضمن میں سب سے اہم کردار حکومت کا ہے۔ جہاں ملکی دفاع، شاہانہ کابینہ اور دیگر شعبہ جات میں بجٹ کا بڑا حصہ صرف ہوتا ہے، وہاں تعلیم جیسے شعبہ کو نظرانداز کرنا سوائے حماقت کے کچھ نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامعتعارفکےساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story