رزقِ حلال کے فوائد

حضورﷺ نے فرمایا کہ طلبِ حلال تمام مسلمانوں پر فرض ہے اور اپنے ہاتھ کی محنت سے کمائے کھانے سے بہتر کوئی کھانا نہیں

گناہوں میں بعض گناہ ایسے ہیں جن کا کفارہ نہ نماز ہے، نہ صدقہ ہے، نہ حج ہے۔ فوٹو: فائل

KHAIRPUR:
اسلام جو انسان کی زندگی کے ہر معاملے میں راہ نمائی کرتا ہے اور اسے اصول و ضوابط کا پابند بناتا ہے، وہ روزی کمانے کے معاملے میں اسے کیسے بے مہار چھوڑ سکتا ہے کہ جو چیز چاہے کھائے اور جہاں سے اور جیسے حاصل کرنا چاہے کرے۔

انسان کی زندگی روح اور جسم کا مجموعہ ہے، جس طرح روح کے بغیر انسان کا وجود ممکن نہیں، اسی طرح انسانی جسم کو اپنی بقا کے لیے پانی اور خوراک کی ضرورت ہے۔ خوراک ہی انسانی جسم کو ہر وقت متحرک رکھتی ہے۔ اس لیے اسلام نے حصول رزق کے معاملے میں بھی مکمل راہ نمائی کی ہے اور انسان کو اچھے اور پاکیزہ رزق کے حصول کی تعلیم دی اور اس کے لیے اسباب پیدا فرمائے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا۔

''اے پیغمرو! حلال چیزیں کھائو اور نیک عمل کرو، میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں'' (المومنون:51)

پھر ایسا ہی حکم تمام مسلمانوں اور مومنین کو دیا: '' اے اہل ایمان! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں دی ہیں انہیں کھائو اور اﷲ کا شکر ادا کرو، اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو'' (البقرہ:172)

ان آیات میں اﷲ تعالی نے اپنے پیغمروں کو بھی اور تمام اہل ایمان کو بھی پاکیزہ چیزیں کھانے کا حکم دیا ہے جو اﷲ نے حلال کی ہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ کی حلال کردہ چیزیں ہی پاک اور طیب ہیں، حرام اشیاء پاک نہیں ہیں۔ رزق حلال کے ساتھ عمل صالح کی تاکید سے معلوم ہوتا ہے کہ رزقِ حلال سے عمل صالح آسان اور عمل صالح انسان کو رزق حلال پر آمادہ کرتا ہے اور اسی پر قناعت کا سبق دیتا ہے۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں کو ان دو باتوں کا حکم دیا۔ چناں چہ تمام پیغمبر محنت کرکے حلال کی روزی کمانے اور کھانے کا اہتمام کرتے رہے، جس طرح دائود ؑ کے بارے میں آتا ہے کہ '' وہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے '' (بخاری) اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: '' ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں، میں بھی اہل مکہ کی بکریاں چراتا رہا ہوں۔'' (بخاری)

حدیث میں ہے ''گناہوں میں بعض گناہ ایسے ہیں جن کا کفارہ نہ نماز ہے، نہ صدقہ ہے، نہ حج ہے۔ ان کا کفارہ طلب رزق میں تکلیف اور پریشانی برداشت کرنا ہے۔'' (طبرانی)

حضور ﷺ نے فرمایا کہ طلبِ حلال تمام مسلمانوں پر فرض ہے اور اپنے ہاتھ کی محنت سے کمائے کھانے سے بہتر کوئی کھانا نہیں۔

حضرت سعدؓ نے ایک مرتبہ حضور ﷺ سے عرض کیا کہ میرے حق میں دعا فرمائیے کہ میری ہر دعا قبول ہو جایا کرے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: ''حلال کی روزی کھاتے رہو کہ تمہاری ہر دعا قبول ہوجایا کرے'' اور فرمایا: ''کتنے ہی لوگ ہیں کہ کھاتے بھی حرام ہیں اور پہنتے بھی حرام ہیں، اور اس کے باوجود ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعائیں مانگا کرتے ہیں۔ ان کی دعائیں آخر کس طرح قبول ہوسکتی ہیں۔'' (مسلم)


اسلام رزقِ حرام سے منع کرتا ہے کیوں کہ جو چیزیں حرام اور ناپاک ہیں، وہ انسانی اخلاق پر برے اثرات مرتب کرتی ہیں اور جسمانی اور روحانی دونوں اعتبار سے انسان کے لیے مضر ہیں۔ ان چیزوں کے استعمال سے انسان اخلاقی انحطاط اور ذہنی پراگندگی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس لیے ان سے بچنے کا حکم دیا گیا۔ ہمارے معاشرے میں جو اخلاقی برائیاں پائی جاتی ہیں ان کا زیادہ تر تعلق ہمارے ذرائع آمدن کے مشکوک ہونے سے ہے۔ یاد رکھیں کہ جس طرح مردار اور ناپاک چیزیں حرام ہیں، اسی طرح ایسے مال و دولت کا استعمال بھی درست نہیں جو ناجائز ذرائع سے حاصل کیا گیا ہو۔

ارشاد ربانی ہے : ''اے اہل ایمان! آپس میں ناحق ایک دوسرے کا مال نہ کھائو۔'' (النساء)

یعنی ایسا مال جو جائز اور حلال ذرائع سے حاصل نہ کیا گیا ہو، وہ بھی حرام ہے۔ رشوت کے ذریعے حاصل شدہ مال، چوری ، ڈکیتی، غصب اور دھونس کے ذریعے سے حاصل شدہ مال، ناپ تول میں کمی یا طے شدہ معاہدے کے خلاف گھٹیا چیز دے کر حاصل شدہ مال، دیانت داری اور فرض شناسی کی بجائے کام چوری سے حاصل شدہ مال، اس کے علاوہ ذخیرہ اندوزی، چور بازاری، سود اور ملاوٹ کے ذریعے سے حاصل شدہ مال سب حرام ہیں۔ سود خوری کو تو باقاعدہ اﷲ اور اس کے رسولؐ سے جنگ سے تشبیہ دی گئی ہے۔

آج کل بلیک میلروں، رشوت، سود اور دیگر حرام خوروں نے محنت مزدوری کرکے رزقِ حلال کمانے والوں کو حقیر اور پست طبقہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ حالاں کہ کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔

ایک اسلامی معاشرے میں حرام خوروں کے لیے عزت و شرف کا کوئی مقام نہیں، چاہے وہ قارون کے خزانوں کے مالک ہوں۔ عزت و احترام کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں جو محنت کرکے حلال روزی کھاتے ہیں، چاہے روکھی سوکھی ہی ہو۔

اسی لیے حدیث ہے کہ ''حرام رزق کھانے والے کا صدقہ قبول نہیں ہوتا '' دوسری حدیثِ ہے: '' اﷲ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہر شب منادی کرتا ہے کہ جو شخص حرام کھاتا ہے، اس کے نہ فرض قبول ہوتے ہیں اور نہ سنتیں''۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ عبادت کے دس حصوں میں سے نو حصے طلب حلال کے ہوتے ہیں۔ یعنی اگر انسان حلال اور حرام میں تمیز کرے اور صرف رزق حلال پر قناعت کرے تو اس کی تھوڑی عبادت بھی اجر و ثواب میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔

جو جسم رزق حلال سے طاقت اور تقویت حاصل کرے گا اسی کی صحیح معنوں میں عبادت قبول ہوگی۔ حرام سے پلنے والے جسم کی کوئی عبادت قبول نہیں ہے۔ اور محنت اور مشقت سے رزق حاصل کرنے والے کو اﷲ کا دوست قرار دیا گیا ہے۔ حدیث قدسی ہے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حرام سے پرہیز کرنے والوں سے تو مجھے حساب لیتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔

فرمان رسول کریمؐ ہے کہ جو شخص تھکا ماندہ رات کو گھر واپس آئے اور اس کی تھکاوٹ و ماندگی کا سبب یہ ہو کہ دن بھر رزقِ حلال کی طلب میں کوشاں رہا ہے تو وہ جب سوتا ہے تو بخشا ہوا ہوتا ہے اور صبح بیدار ہوتا ہے تو حق تعالیٰ کی خوش نودی اسے حاصل ہوتی ہے۔
Load Next Story