سدھن گلی، کشمیر میں پیار کی حویلی

اک اچھے دیوان میں شاعر کا جگر خون ہو کر دوڑتا ہے، اس میں ساز اور سوز دونوں ہی کیفیات رچی بسی ہوتی ہیں۔ اس میں غم کی بوندیں اور راحت کی بوچھاڑ ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوگی بابا نے کہا تھا، ’’دل کو چھو جانے والا دیوان اپنی اصل میں متنوع ہوتا ہے‘‘ تو بس پاکستان جو ہے ناں یہ رب کا دیوان ہے جس میں نوع نوع کے مصرعے ’’کن فیکون‘‘ کے مظہر ہیں انہی میں سے اک مصرعہ ہے ’’گلی‘‘۔

گلیاں تو بے شمار آپ نے دیکھ رکھی ہونگی، پرانے لاہور کی گلیاں جہاں تاریخ رک سی گئی ہے۔ جہاں صدیوں کی چاپ سنائی دیتی ہے یا پھر گجرات شہر کی گلیاں، جہاں کمہار کے گدھے برتن لادھے چلا کرتے تھے اور شاید آج بھی کسی ٹوٹے کواڑ سے سوہنی اپنے ماہیوال کی راہ تکتی ہو، پر یہ گلی وہ گلی نہیں ہے، یہ تو فطرت کا ایک مصرعہ ہے یہ تو کن فیکون کا لاجواب مظہر ہے۔ یہ گلی ہے سدھن گلی۔

ہندکو اور کشمیری زبان میں گلی درے کو کہتے ہیں۔ اس گلی سے مراد اسٹریٹ بلکل بھی نہیں ہے۔ سدھن گلی آزاد کشمیر کے ضلع باغ کے ماتھے کا جھومر ہے۔ سدھن گلی جو کہ سطح سمندر سے تقریباً 7000 فٹ بلند ہے اور بالکل ایسا ہے جیسے فطرت کا قلعہ۔

(سدھن گلی کا ایک منظر)

اگر آپ ایک سیلانی کوہ نورد ہیں تو ڈھلتی دوپہر میں ضلع باغ پہنچ جاتے ہیں کہ یہ رات آپ کسی ہوٹل میں گزاریں گے یا زیادہ تجربہ کار سیاح ہیں تو باغ کے کوہستانی قصبے میں بہتی ندی (نالہ) مہل کے کنارے اپنا خیمہ ایستادہ کریں گے کیونکہ اگلی صبح آپ نے سدھن گلی جانا ہے۔

ضلع باغ، وہی باغ ہے جسے 2005ء کے عفریت انگیز زلزلے نے اجاڑ دیا تھا پر انسان تو حالات سے پنجہ آزمائی کرتا آیا ہے اور یہاں بھی یہی کچھ ہوا، ندی کنارے شہر بس چکا ہے، قیام گاہیں آباد ہوچکی ہیں،  سب ہی تو اپنی اپنی جگہ ہیں اور ان کے درمیان کشمیر باسی مان سے گھومتے ہیں۔

(سفر بہر کیف اک شرط ہے)

بہتر تو یہی ہے کہ کل سدھن گلی جانے سے پہلے خود کو فطرت سے ہم آہنگ کیا جائے اور خود کو مقامی ماحول میں ڈھالا جائے، اور اک چکر باغ کے بازار کا لگانا ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی ثقافتی نوادرات کے دیس پہنچ جاتے ہیں۔ سڑک، تعلیم، سفرِ معاش اور میڈیا نے مقامی ثقافت کو وقت کی ریتی پر گِھسا تو دیا مگر آثار تو بافی رہتے ہی ہیں اور آپ آثار دیکھنے ہی تو گھر سے نکلے ہیں۔

اگر آپ بیسویں صدی کی ستر یا اسی کی دہائی یا اس سے بھی پہلے کی پیداوار ہیں تو آپ نے لاہور جیسے شہروں میں بھی کرنسی نوٹوں کے وہ ہار تو دیکھے ہوں گے جو دولہا کو ’’قربانی‘‘ کے وقت پہنائے جاتے تھے، جو کم از کم آج کے جدید لاہور میں تو ناپید ہے مگر جب گنگا چوٹی سے ٹکرا کے واپس آنے والے سرد ہوائیں ہولے سے آپ کے گال سہلاتی ہیں اور پرندے شور مچا مچا کر شام کا سندیسہ لاتے ہیں تو آپ بازار میں چلتے چلتے رک جاتے ہیں کہ آپ کو آج بھی باغ کے کوہستانی بازار میں نوٹوں والا ہار ٹنگا نظر آجاتا ہے اور آپ مسکرا کے آگے بڑھ جاتے ہیں کہ شاید بچپن میں آپ بھی ہار کے کنوارے نوٹ چپکے چپکے اکھیڑتے رہے ہیں۔

اگر تو نازک مزاجی آپ میں رچ بس گئی ہے تو کھانا اپنے ہوٹل میں ہی کھالیں اور اگر آپ یوگی بابا کے قبیلے سے ہیں تو یقیناً آپ بازار کے کسی ڈھابے کا انتخاب کریں گے جہاں آپ گھنٹوں مقامی لوگوں میں سے اُن کی ثقافت اور رہن سہن کے جزو خریدتے ہیں کہ ایک سیاح ہمیشہ سے بے چین خانہ بدوش ہوتا ہے اور ہر نئی جگہ کی کرید رکھتا ہے۔ آپ دھنی ہیں اگر کوئی کشمیری بابا ایسا مل جائے جو کشمیر کا لوک ورثہ آپ پر انڈیل دے۔ اب یہ آپ کا ظرف ہے کہ اسے جذب کرلو یا بہہ جانے دو۔

آج دن چڑھتے ہی آپ کو سدھن گلی جانا ہے تو بیداری بھی کچھ جلدی ہی ہونی چاہیئے۔ آپ اپنی قیام گاہ یا خیمے سے باہر نکلتے ہیں تو مشرق سے ابھرتے سورج کو دیکھتے ہیں اور دیکھتے جاتے ہیں کہ میدانی اور کوہستانی سورج بھلے ایک ہی ہے پر محسوس الگ الگ ہوتے ہیں۔ ماحول کی اضافیت کا اصول سورج  کا مقدر بدل دیتا ہے۔ باغ کا سورج اپنا سنہرا سیال گنگا چوٹی، لس ڈنہ اور سدھن گلی پر انڈیلتا محسوس ہوتا ہے اور ’’جگ سُونا سُونا‘‘ نہیں بلکہ سونا سونا لگتا ہے اور آپ خود کو سونے کے پہاڑوں میں گِھرا پاتے ہیں۔ آپ اس خواب کی حقیقت جاننے گنگناتی سرد مہل ندی کنارے جا پہنچتے ہیں اور اِس کا برفناک پانی کچھ زیادہ ہی حقیقت پسندی دِکھلا جاتا ہے۔ جیسے جیسے سورج بلند ہوتا جاتا ہے تو ارد گرد کے کہسار سنہری سے سبزہ مائل ہوتے چلے جاتے ہیں اور آپ کشمیر کے پہاڑوں میں سبز چیڑ کے درختوں کی پیوند کاری کے مناظر دیکھتے ہیں۔ قصبے کی دو مختلف سمتوں میں لس ڈنہ اور گنگا چوٹی برفوں کی چادریں اوڑھے خوابیدہ ہیں۔

(سدھن گلی کے بل کھاتے راستے)

کیا ہی اچھا ہو کہ آپ ناشتے میں مقامی رنگ آمیزی کرتے ہوئے چائے کے ساتھ کشمیری کلچے بھی رکھ لیں۔ ہاں یاد رہے ان کلچوں کا دور پار کا بھی کوئی تعلق لاہوری نان، کلچہ سے نہیں ہے۔ یہ اک پہلی ہے جو آپ کو ہی سلجھانی ہے مگر باغ جا کر۔ بس یہ سمجھ لیں کہ یہ سدھن گلی کی طرف سے بلاوے کا اشارہ ہے۔

سدھن گلی باغ سے زیادہ دوری پر تو نہیں ہاں لیکن تقریباً پچیس کلومیٹر کا سفر یادگار ضرور بن جاتا ہے۔ وقتی پیمانوں پر سفر کوئی ایک گھنٹے کا ہے اور ویسے بھی کشمیر کی پر کیف گھاٹیاں سفر کی طوالت کو کم ہی محسوس ہونے دیتی ہیں۔ کہتے ہیں پہاڑ دِکھتے ایک جیسے ہی ہیں مگر پہاڑوں کی بھی الگ الگ خوشبوئیں ہوتی ہیں اور آپ باغ کے کہساروں کی خوشبوؤں کے ساتھ ساتھ سدھن گلی کو بڑھتے جاتے ہیں۔

پرندے فضاء میں اڑان بھرتے جابجا ملتے ہیں، کبھی راہ میں جھرنا پہاڑوں کی ڈھلوانوں سے گنگناتا آتا ہے اور آپ کی گاڑی کے نیچے سے ہو کر دوسری طرف کی کھائی میں جا گرتا ہے۔ دیکھنے میں یہ جھرنا معمولی ہوسکتا ہے پر انہی معمولی جھرنوں کے اتصال سے کشمیر کے دو دریا جہلم اور نیلم جوان ہوتے ہیں۔ دور بہت دور پہاڑوں کی گود میں چھوٹے چھوٹے گھروں کا احساس شاید آپ کو تب ہوتا ہے جب ان میں سے زندگی کی علامت دھواں اٹھتا ہے، اور انہی راہوں پر کندھوں پر بستوں کا بوجھ اٹھائے اسکول جاتے بچے بھی مل جائیں گے۔  سرمئی سانپ کے دونوں اطراف چیڑ کے درخت اپنی اونچی اونچی شاخیں پھیلائے برسوں سے ایستادہ ہیں، ایسے جیسے آپ کسی شاہی سواری میں ہیں اور درخت آپ کے دربان۔

(سدھن گلی میں ایک روائیتی گھر)

سدھن گلی کے چند دکانوں والے بازار میں آپ کی گاڑی محفوظ رہے گی اور سدھن گلی سبزہ زار یاترا کے بعد اسی بازار میں کھانا بھی کھایا جاسکتا ہے۔ سدھن گلی کیا ہے ایک چراگاہ ہے، سدھن گلی ایک سبزہ زار ہے جہاں کا ہر ہر شجر محو رقص ہو، جیسے مولانا روم رحمۃ اللہ فرماتے ہیں سبزہ زار کا ہر درخت جھوم جھوم کر رقص کرتا ہے مگر دنیاوی آنکھ کو وہ ساکن نظر آتا ہے اور مولانا کے شیدائی علامہ اقبال کچھ اس طرح خامہ فرسائی کرتے ہیں،

خاموش ہے کوہ و دشت و دریا

قدرت ہے مراقبے میں گویا

اے دل! تو بھی خموش ہو جا

آغوش میں غم کو لے کے سوجا

تو خیر آپ سدھن گلی کے بازار کی عقبی راہ پر چلتے ہیں اور سدھن گلی کے سبزہ زار میں خود کو کھو جانے دیتے ہیں۔ کبھی کبھی تو خود کو وقت دینا ہی بنتا ہے اور آپ یہ وقت خود کو سدھن گلی میں دیتے ہیں جہاں سبزہ ہے اور بھرپور سبزہ ہے، جہاں بادل ہیں اور آپ کی پہنچ میں ہیں، جہاں وہ مہک ہے جو روح تک کو مہکاتی ہے، جہاں لامبی دُموں والے پکھیروں ہیں اور لمبی اڑان بھرتے ہیں- سدھن گلی کچھ بھی تو نہیں بس تھوڑے سے پھول ہیں اور جب آپ قدم بڑھاتے ہیں تو گل بوٹے قدم بوسی کرتے بچھ بچھ جاتے ہیں کہ آپ کے اردگرد بھی پھول ہیں اور نیچے بچھے سبز مخملی گھاس کے قالین پر بھی انہی پھولوں کے نقش و نگار ہیں، کشیدہ کاری ہے۔

(برفوں کا راجدھانی)

یقین مانیے وہاں کچھ بھی تو نہیں پر شاید آپ کو کوئی نوعمر چرواہا اپنی بھیڑوں کی سنگت میں مل جائے۔ سارے پہاڑوں کے چرواہے نجانے کیوں ایک جیسے ہوتے ہیں، شرمیلے سے، میلی سی چادر لئے، چھڑی تھامے۔ ویسے یہ چھڑی بھی بڑی کمال کی ہوتی ہے کہ پاؤ بھر وزن نہیں ہوتا اس کا مگر سو دو سو من کا ریوڑ بھی ہو تو چرواہے کی سیٹی اور چھڑی کا اشارہ سمجھتا ہے۔

ہاں تو میں بتا رہا تھا کہ سدھن گلی کچھ بھی نہیں پر ہاں شاید وہاں بہتا کوئی چھوٹا سا چشمہ مل جائے، ٹھنڈا چشمہ، برفوں کا مقابلہ کرتا چشمہ۔ داغستان کا رسول حمزہ توف اپنے ادیب و شاعر باپ حمزہ سداسا کی زبان میں کہتا ہے،

’زندگی میں جھکو تو بس دو بار، شاخ پہ کھلا پھول توڑنے کے لئے یا پھر چشمے کا پانی پینے کے لئے وگرنہ جھکنا بے مقصد و بیکار ہے‘۔

تو ادھر سدھن گلی میں فطرت نے دونوں طرح سے آپ کے جھکنے کا انتظام اور پھول چشموں نے انتظار کیا ہے۔

سدھن گلی سے آپ کشمیر کے ایک بڑے حصے کا جائزہ لے سکتے ہیں مثلاً باغ قصبہ، لس ڈنہ، بیس بگلہ، بِرپانی، ملوٹ، دھیر کوٹ اور گنگا چوٹی جو سطح سمندر سے دس ہزار فٹ سے کچھ اوپر ہی ہے اور عظیم ہمالیہ کے پیر پنجالی گوٹھ میں واقع ہے۔ اگر تو سرما میں برف کھل کر پیر پنجال پر پڑتی ہیں تو گرما میں بھی گنگا چوٹی برف میں ملفوف نظر آتی ہے وگرنہ ’’سَترپوشی‘‘ تھوڑی سی کھل سی جاتی ہے۔ گنگا چوٹی سدھن گلی سے کچھ دور نہیں، تھوڑی سی چڑھائی ہے اور دو تین گھنٹوں کی ٹریکنگ گنگا چوٹی پہنچا دیتی ہے۔ اگر کوہ نورد گنگا چوٹی نہیں بھی جانا چاہتا تو سارا دن سدھن گلی کے سبزہ زار میں آوارہ ہرن کی طرح گھوم سکتا ہے، شجر شماری کرسکتا ہے، درختوں کی پھیلی بانہوں میں پرندے تلاش کرسکتا ہے، تتلیوں کے رنگوں کے امتزاج کا جائزہ لے سکتا ہے، اگر مون سون ہے تو کھمبیوں کی نسلیں گن سکتا ہے، اپنے پیارے کو لئے پھول چن سکتا ہے۔

البتہ اگر آپ سرما کے جوبن میں سدھن گلی جاتے ہیں تو آپ واقعی قابلِ رشک ہیں کہ سرما میں سدھن گلی سبز لبادہ اتار کر برفوں کی سیمیں پوشاک اوڑھ لیتی ہے۔ اس موسم میں بہت کم کوہ نورد آتے ہیں اور غلاظت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے تو بس سدھن گلی کا سارا حسن، سارا سرمایہ، ساری خموشیاں، ساری برفیں، سارے پکھیروں اور سارے رخ صرف اور صرف آپ کے ہوتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔