عدالتوں میں تیزی سے بڑھتا شادی کا رجحان
ایسے جوڑوں کی تلخیوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے
ایسے جوڑوں کی تلخیوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے ۔ فوٹو : فائل
کورٹ میرج یا گھر سے فرار کے بعد شادی کرنے کا رجحان ہمارے معاشرے میں روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ خطرناک امر یہ ہے کہ اس سے بھی زیادہ تیزی سے طلاق یا خلع کے مقدمات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
جب لڑکی لڑکا پسند کی شادی کے لیے گھر سے فرار ہو کر والدین کی مرضی کے خلاف نکاح کر تے ہیں، تو یہ عمل 'کورٹ میرج' کہلاتا ہے۔ کورٹ میرج کی وجوہات اور ثمرات دونوں باعث فکر ہیں۔ اگر وجوہات پر نگاہ دوڑائی جائے، تو سب سے بڑی وجہ لڑکی یا لڑکے کے اہل خانہ کا راضی نہ ہونا ہے یا والدین کے حوالے سے یہ خوف کہ وہ شادی نہیں ہونے دیں گے۔ یہ صورت حال شادی کے خواہش مند لڑکے اور لڑکیوں کو 'کورٹ میرج' تک لے جاتی ہے، جو نہ صرف لڑکے اور لڑکی کے لیے بہت سے مسائل کا سبب بنتی ہے، بلکہ ان کے اہل خانہ کے لیے بھی شدید پریشانی کا باعث ہوتی ہے۔
گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والی عورت کے لیے جتنے مسائل شادی کے بعد پیدا ہوتے ہیں، اس کا خمیازہ اسے ساری زندگی بھگتنا پڑتا ہے۔ گھر سے فرار ہوکر شادی کر کے وہ نہ صرف اپنے آپ کو دائو پر لگاتی ہے، بلکہ اس کے گھر والوں کے لیے بھی تاعمر شرمندگی کا باعث بن جاتی ہے۔ شادی کے بعد نہ صرف دنیا کے طعنے عورت کو جینے نہیں دیتے، بلکہ بعض اوقات مرد بھی اس پر اعتبار کھو دیتا ہے۔
پسند کی شادی ضرور کرنی چاہیے، لیکن اپنے والدین کی رضا مندی اور بھروسے کے بل بوتے پر۔ کورٹ میرج کرنے والے جوڑوں میں 80% عدالتوں میں خلع یا خرچہ نان و نفقہ کے مقدمے دائر کر رہے ہوتے ہیں، جو کہ ہمارے معاشرے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو خاندان کی عزت سے تشبیہہ دی جاتی ہے، جو کہ غلط نہیں ہے۔
جوانی کی رو میں بہ کر جب کوئی لڑکی کورٹ میرج کا راستہ اختیار کرتی ہے، تو نہ تو اس کو آنے والے مستقبل کا خیال ہوتا ہے اور نہ گزرے ہوئے کل کی فکر۔ کورٹ میرج کرنے والی لڑکیوں میں 15 سال سے لے کر 24 سال کی عمر کا تناسب زیادہ ہے۔ اکثر لڑکیوں کے شناختی کارڈ بھی نہیں بنے ہوئے ہوتے۔ اس ضمن میں وکلا کے ساتھ ساتھ نکاح خواں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کورٹ میرج کے لیے آنے والے لڑکے، لڑکیوں کو پہلے ان کے عمل کے نتائج سے آگاہ کریں۔ ان کو صحیح راہ نمائی فراہم کریں۔
خلع و خرچ اور نان نفقہ کے کیسز کے تناسب کی بات کی جائے، تو جس تیزی سے مذکورہ بالا دعوے دائر ہو رہے ہیں۔ ہر شہر میں فیملی کورٹس کا کام بھی دُگنا ہو گیا ہے۔ عورت بعد از کورٹ میرج اکثر اوقات زیادہ سے زیادہ دو سے تین ماہ بعد ہی عدالتوں کا رخ کر رہی ہیں۔ کوئی خلع کے لیے تو کوئی خرچہ اور نان نفقہ کے لیے اور جن کو طلاق ہو جاتی ہے وہ دار الامان میں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتی ہیں، کیوں کہ شاذو نادر ہی ایسی خواتین کو ان کے خاندان دوبارہ قبول کرتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں تو عورت کو عزت کے نام پر قتل تک کر دیا جاتا ہے۔
اکثر دغاباز اور بہروپیے سیدھی سادی معصوم لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنسا کر ان کو استعمال کر کے تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ عدالتی امور کی انجام دہی کے دوران کئی ایسے مقدمات دیکھنے میں آتے ہیں، جن میں لڑکی نہایت پڑھی لکھی اور اچھے خاندان سے تعلق رکھتی ہے، جب کہ لڑکا ان پڑھ یا اگر خواندہ بھی ہے، تو واجبی اور برائے نام۔ بعد ازاں معاملہ دونوں کی لڑائی اور طلاق پر منتج ہوتا ہے۔ خواتین کو بھی اپنی پرور ش والدین کی عزت اور اپنے مستقبل کو پھلانگ کر جانے سے گریز کرنا چاہیے۔ پسند کی شادی کی تکمیل تب ہی ہوتی ہے، جب گھر والوں کی رضا مندی بھی شامل کی جائے۔
معمول کے مقدمات کے مطابق 'کورٹ میرج' کے بعد اور اکثر و بیش تر لڑکی کے والدین لڑکے پہ اغوا کا مقدمہ درج کرا دیتے ہیں۔ اس کے بعد لڑکی کے بیان اور نکاح نامے کی نقل مہیا کرنے پر لڑکے کو قانونی اہمیت حاصل ہو جاتی ہے، نتیجتاً لڑکی کے والدین اپنا غصہ عدالت کی پیشی پر نکالتے نظر آتے ہیں، جب کہ پشیمانی کے کوئی آثار لڑکی کے چہرے سے عیاں نہیں ہوتے۔
والدین کو بھی چاہیے کہ اپنے بچوں، خصوصی طور پر اپنی بیٹیوں کو اتنا اعتماد دیں کہ وہ بلا کسی جھجھک ایسے معاملات کا اظہار کر سکیں۔ بے جا روک ٹوک سے پرہیز کرتے ہوئے، انہیں محبت و شفقت سے سمجھائیں اور جب کوئی راستہ نہ نکلے، تو کوشش کریں کہ کوئی درمیانی راہ نکالیں، اپنی انا کو کم کریں اور قابل قبول حل پیش کریں اور کوئی درمیانی راستہ نکالیں۔
لڑکیوں کو بھی چاہیے کہ والدین کی عزت اور اپنی آبرو کو ہمیشہ مقدم رکھیں۔ اگر کوئی پسند ہے، تو پہلے اپنے والدین کو اعتماد میں لیں اور اپنی پسند سے آگاہ کریں۔ کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے سوچ لیں کہ 'کورٹ میرج' کا خمیازہ عورت کو ساری عمر بھگتنا پڑتا ہے اور اس کی بہت زیادہ ذمہ دار خود اس پر بھی عائد ہوتی ہے۔
(ہما جمیل بابر ایڈووکیٹ)
جب لڑکی لڑکا پسند کی شادی کے لیے گھر سے فرار ہو کر والدین کی مرضی کے خلاف نکاح کر تے ہیں، تو یہ عمل 'کورٹ میرج' کہلاتا ہے۔ کورٹ میرج کی وجوہات اور ثمرات دونوں باعث فکر ہیں۔ اگر وجوہات پر نگاہ دوڑائی جائے، تو سب سے بڑی وجہ لڑکی یا لڑکے کے اہل خانہ کا راضی نہ ہونا ہے یا والدین کے حوالے سے یہ خوف کہ وہ شادی نہیں ہونے دیں گے۔ یہ صورت حال شادی کے خواہش مند لڑکے اور لڑکیوں کو 'کورٹ میرج' تک لے جاتی ہے، جو نہ صرف لڑکے اور لڑکی کے لیے بہت سے مسائل کا سبب بنتی ہے، بلکہ ان کے اہل خانہ کے لیے بھی شدید پریشانی کا باعث ہوتی ہے۔
گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والی عورت کے لیے جتنے مسائل شادی کے بعد پیدا ہوتے ہیں، اس کا خمیازہ اسے ساری زندگی بھگتنا پڑتا ہے۔ گھر سے فرار ہوکر شادی کر کے وہ نہ صرف اپنے آپ کو دائو پر لگاتی ہے، بلکہ اس کے گھر والوں کے لیے بھی تاعمر شرمندگی کا باعث بن جاتی ہے۔ شادی کے بعد نہ صرف دنیا کے طعنے عورت کو جینے نہیں دیتے، بلکہ بعض اوقات مرد بھی اس پر اعتبار کھو دیتا ہے۔
پسند کی شادی ضرور کرنی چاہیے، لیکن اپنے والدین کی رضا مندی اور بھروسے کے بل بوتے پر۔ کورٹ میرج کرنے والے جوڑوں میں 80% عدالتوں میں خلع یا خرچہ نان و نفقہ کے مقدمے دائر کر رہے ہوتے ہیں، جو کہ ہمارے معاشرے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو خاندان کی عزت سے تشبیہہ دی جاتی ہے، جو کہ غلط نہیں ہے۔
جوانی کی رو میں بہ کر جب کوئی لڑکی کورٹ میرج کا راستہ اختیار کرتی ہے، تو نہ تو اس کو آنے والے مستقبل کا خیال ہوتا ہے اور نہ گزرے ہوئے کل کی فکر۔ کورٹ میرج کرنے والی لڑکیوں میں 15 سال سے لے کر 24 سال کی عمر کا تناسب زیادہ ہے۔ اکثر لڑکیوں کے شناختی کارڈ بھی نہیں بنے ہوئے ہوتے۔ اس ضمن میں وکلا کے ساتھ ساتھ نکاح خواں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کورٹ میرج کے لیے آنے والے لڑکے، لڑکیوں کو پہلے ان کے عمل کے نتائج سے آگاہ کریں۔ ان کو صحیح راہ نمائی فراہم کریں۔
خلع و خرچ اور نان نفقہ کے کیسز کے تناسب کی بات کی جائے، تو جس تیزی سے مذکورہ بالا دعوے دائر ہو رہے ہیں۔ ہر شہر میں فیملی کورٹس کا کام بھی دُگنا ہو گیا ہے۔ عورت بعد از کورٹ میرج اکثر اوقات زیادہ سے زیادہ دو سے تین ماہ بعد ہی عدالتوں کا رخ کر رہی ہیں۔ کوئی خلع کے لیے تو کوئی خرچہ اور نان نفقہ کے لیے اور جن کو طلاق ہو جاتی ہے وہ دار الامان میں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتی ہیں، کیوں کہ شاذو نادر ہی ایسی خواتین کو ان کے خاندان دوبارہ قبول کرتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں تو عورت کو عزت کے نام پر قتل تک کر دیا جاتا ہے۔
اکثر دغاباز اور بہروپیے سیدھی سادی معصوم لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنسا کر ان کو استعمال کر کے تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ عدالتی امور کی انجام دہی کے دوران کئی ایسے مقدمات دیکھنے میں آتے ہیں، جن میں لڑکی نہایت پڑھی لکھی اور اچھے خاندان سے تعلق رکھتی ہے، جب کہ لڑکا ان پڑھ یا اگر خواندہ بھی ہے، تو واجبی اور برائے نام۔ بعد ازاں معاملہ دونوں کی لڑائی اور طلاق پر منتج ہوتا ہے۔ خواتین کو بھی اپنی پرور ش والدین کی عزت اور اپنے مستقبل کو پھلانگ کر جانے سے گریز کرنا چاہیے۔ پسند کی شادی کی تکمیل تب ہی ہوتی ہے، جب گھر والوں کی رضا مندی بھی شامل کی جائے۔
معمول کے مقدمات کے مطابق 'کورٹ میرج' کے بعد اور اکثر و بیش تر لڑکی کے والدین لڑکے پہ اغوا کا مقدمہ درج کرا دیتے ہیں۔ اس کے بعد لڑکی کے بیان اور نکاح نامے کی نقل مہیا کرنے پر لڑکے کو قانونی اہمیت حاصل ہو جاتی ہے، نتیجتاً لڑکی کے والدین اپنا غصہ عدالت کی پیشی پر نکالتے نظر آتے ہیں، جب کہ پشیمانی کے کوئی آثار لڑکی کے چہرے سے عیاں نہیں ہوتے۔
والدین کو بھی چاہیے کہ اپنے بچوں، خصوصی طور پر اپنی بیٹیوں کو اتنا اعتماد دیں کہ وہ بلا کسی جھجھک ایسے معاملات کا اظہار کر سکیں۔ بے جا روک ٹوک سے پرہیز کرتے ہوئے، انہیں محبت و شفقت سے سمجھائیں اور جب کوئی راستہ نہ نکلے، تو کوشش کریں کہ کوئی درمیانی راہ نکالیں، اپنی انا کو کم کریں اور قابل قبول حل پیش کریں اور کوئی درمیانی راستہ نکالیں۔
لڑکیوں کو بھی چاہیے کہ والدین کی عزت اور اپنی آبرو کو ہمیشہ مقدم رکھیں۔ اگر کوئی پسند ہے، تو پہلے اپنے والدین کو اعتماد میں لیں اور اپنی پسند سے آگاہ کریں۔ کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے سوچ لیں کہ 'کورٹ میرج' کا خمیازہ عورت کو ساری عمر بھگتنا پڑتا ہے اور اس کی بہت زیادہ ذمہ دار خود اس پر بھی عائد ہوتی ہے۔
(ہما جمیل بابر ایڈووکیٹ)