بھارتی آشیر باد اور افغانستان کی ہٹ دھرمی پاک افغان تجارتی و راہداری معاملات بدستورجمود کا شکار
پاکستان نے افغانستان کی دیگر شرائط مان لی تھیں،بھارت کوملوث نہ کرنے کا مطالبہ افغان حکومت کو پسند نہ آیا
خواہش ہے دوطرفہ تجارت آگے بڑھے،سیکیورٹی معاملات الگ رکھنے کی تجویز دی تھی، خرم دستگیر،ایکسپریس سے گفتگو فوٹو: فائل
بھارت کی آشیر باد اورافغان حکومت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پاکستا ن اور افغانستان کے درمیان تجارت اور راہداری کے معاملات پر مزید پیش رفت نہ ہو سکی۔
وزارت تجارت کے مطابق پاکستان نے افغانستان کے مطالبے پر ان کے تجارتی ٹرکوں کو واہگہ بارڈر تک رسائی اور وہاں سے سامان واپس لے جانے کی اجازت دینے پر رضامندی ظاہر کر دی تھی، افغانستان بھی پاکستان کے تجارتی ٹرکوں کو آزاد روسی ریاستوں تک رسائی پر آمادہ ہوگیا تھا اور پاکستان نے افغانستان کوبھارت کو ملوث کیے بغیر تجارتی معاملات آگے بڑھانے کا کہا تھا۔ اس حوالے سے رواں سال کے اوائل میں دونوں ممالک کے حکام کے درمیان ابتدائی مذاکرات ہوئے تھے اور پاکستان نے اپنی سفارشات افغانستان کو بھجوا دی تھیں۔ مذاکرات کا اگلا دور کابل میں ہونا تھا جوکہ ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔ اس کی بڑی وجہ دونوں ممالک کے درمیان سیکیورٹی کے معاملات اور کشیدگی ہے۔
وفاقی وزیر خرم دستگیر سے رابطے پر انہوں نے ایکسپریس کو بتایا کہ افغانستان سے راہداری کے معاملات مزید آگے نہیں بڑھ سکے ہیں، ہماری خواہش ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت آگے بڑھے،اس سلسلے میں تجویز دی تھی کہ افغانستان اور ایران کے معاملات میں سیکیورٹی کے معاملات کو الگ رکھا جائے۔ وزارت تجارت کے مطابق عالمی ٹرانزٹ ٹریڈ پر کوئی ڈیوٹی اور ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا ہے،تاہم اس سے پاکستانی بندر گاہوں پر تجارتی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں جس کی وجہ سے پورٹ آپریٹرز کو پورٹ چارج اسکیننگ فیس کی صورت میں آمدن ہوتی ہے۔
افغانستان میں سامان منگوانے اور افغانستان سے باہر بھیجنے پر بھی ٹرانزٹ کمپنیوں کو آمدن حاصل ہوتی ہے۔ ٹرانزٹ ٹریڈ کارگو میں اضافے کی بنا پر ٹرانزٹ روٹ کے ساتھ ساتھ واقع مختلف قسم کے کاروبار میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ کارگو ہینڈلرز جن میں کسٹمز ایجنٹ، شپنگ ایجنٹس، بورڈ ایجنٹس اور ٹریکر انسٹالنگ کمپنیاں وغیرہ شامل ہیں ان کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔
وزارت تجارت کے مطابق پاکستان نے افغانستان کے مطالبے پر ان کے تجارتی ٹرکوں کو واہگہ بارڈر تک رسائی اور وہاں سے سامان واپس لے جانے کی اجازت دینے پر رضامندی ظاہر کر دی تھی، افغانستان بھی پاکستان کے تجارتی ٹرکوں کو آزاد روسی ریاستوں تک رسائی پر آمادہ ہوگیا تھا اور پاکستان نے افغانستان کوبھارت کو ملوث کیے بغیر تجارتی معاملات آگے بڑھانے کا کہا تھا۔ اس حوالے سے رواں سال کے اوائل میں دونوں ممالک کے حکام کے درمیان ابتدائی مذاکرات ہوئے تھے اور پاکستان نے اپنی سفارشات افغانستان کو بھجوا دی تھیں۔ مذاکرات کا اگلا دور کابل میں ہونا تھا جوکہ ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔ اس کی بڑی وجہ دونوں ممالک کے درمیان سیکیورٹی کے معاملات اور کشیدگی ہے۔
وفاقی وزیر خرم دستگیر سے رابطے پر انہوں نے ایکسپریس کو بتایا کہ افغانستان سے راہداری کے معاملات مزید آگے نہیں بڑھ سکے ہیں، ہماری خواہش ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت آگے بڑھے،اس سلسلے میں تجویز دی تھی کہ افغانستان اور ایران کے معاملات میں سیکیورٹی کے معاملات کو الگ رکھا جائے۔ وزارت تجارت کے مطابق عالمی ٹرانزٹ ٹریڈ پر کوئی ڈیوٹی اور ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا ہے،تاہم اس سے پاکستانی بندر گاہوں پر تجارتی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں جس کی وجہ سے پورٹ آپریٹرز کو پورٹ چارج اسکیننگ فیس کی صورت میں آمدن ہوتی ہے۔
افغانستان میں سامان منگوانے اور افغانستان سے باہر بھیجنے پر بھی ٹرانزٹ کمپنیوں کو آمدن حاصل ہوتی ہے۔ ٹرانزٹ ٹریڈ کارگو میں اضافے کی بنا پر ٹرانزٹ روٹ کے ساتھ ساتھ واقع مختلف قسم کے کاروبار میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ کارگو ہینڈلرز جن میں کسٹمز ایجنٹ، شپنگ ایجنٹس، بورڈ ایجنٹس اور ٹریکر انسٹالنگ کمپنیاں وغیرہ شامل ہیں ان کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔