بھارت اور افغانستان کا منفی رویہ

ایڈیٹوریل  منگل 6 دسمبر 2016
. فوٹو: این ڈی ٹی وی

. فوٹو: این ڈی ٹی وی

بھارت میں منعقدہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے اتوار کو جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ ہم اپنے اختلافات کا پرامن طور پر حل کرنے اور کسی بھی ملک کی سیاسی آزادی کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز‘ علاقائی سالمیت اور خود مختاری کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں اور دوسرے ملک کے معاملات میں عدم مداخلت کے حوالے سے خطے میں اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے کام کریں گے۔ افغانستان اور خطے میں سیکیورٹی صورت حال کی سنگینی‘داعش ،اس سے منسلک تنظیموں اور دیگر دہشت گرد گروپوں کی پر تشدد کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔

دہشت گردی خطے کے امن‘ استحکام اور تعاون کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے‘ دہشت گردی کا خاتمہ یقینی بنانے کے لیے علاقائی اور عالمی سطح پر مربوط تعاون کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں پائیدار امن کے لیے سیاسی مذاکراتی حل اہمیت کا حامل ہے، دہشت گردی کی لعنت اور پر تشدد انتہا پسندی کے خاتمے کی کوششیں مربوط اور مشترکہ علاقائی طرز فکر اختیار کیے بغیر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکیں گی۔

ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے اعلامیے میں جو باتیں کی گئی ہیں ان میں اس خطے کے مسائل کا حل مضمر ہے لیکن ضرورت ان پر عملدرآمد کی ہے۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے انعقاد کا مقصد افغانستان کی سیکیورٹی صورت حال کو درپیش مسائل کا حل تھا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان نے بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی لیکن بھارتی منافقانہ رویے نے نہ تو افغانستان کے مسئلے کا سوائے زبانی کلامی کے کوئی ٹھوس حل نکالا اور نہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی بلکہ اس کے غیر ذمے دارانہ اور سفارتی آداب کے خلاف رویے سے مزید تلخی پیدا ہوئی۔

بھارت ہر قسم کی اخلاقی اقدار کی دھجیاں اڑاتے ہوئے سفارتی دہشت گردی پر اتر آیا اور پاکستانی مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کو امرتسر میں شیڈول کے مطابق طے شدہ پریس کانفرنس کی اجازت نہیں دی‘ بات یہاں تک محدود رہتی تو قابل برداشت ہو سکتی تھی مگر اس نے سیکیورٹی وجوہات کی آڑ میں سرتاج عزیز کو ہوٹل سے نکلنے کی اجازت تک نہ دی‘ سرتاج عزیز کا کانفرنس کے اختتام پر گولڈن ٹیمپل جانے کا پروگرام تھا مگر وہ جیسے ہی پاکستانی صحافیوں کے 9رکنی وفد کے ہمراہ گولڈن ٹیمپل جانے لگے تو سیکیورٹی کا بہانہ بنا کر انھیں ایک بار پھر روک دیا گیا‘ انھیں ہدایت کی گئی کہ وہ صرف اور صرف اپنے ہوٹل سے پاکستان واپسی کے لیے ایئرپورٹ ہی جا سکتے ہیں۔

دوسری جانب پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کو بھی میڈیا سے بات کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس بھارت کے لیے ایک بہترین موقع تھا کہ وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان سے اپنے گلے شکوے دور کرتا اور باہمی اختلافات کے خاتمے کے لیے مذاکرات کا ایجنڈا طے کرتا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارت نے پاکستان کو علاقائی اور عالمی سطح پر نقصان پہنچانے کا تہیہ کر رکھا ہے۔اس نے پاکستان کے خلاف اپنی اس مہم میں افغانستان کو بھی شریک کر لیا اور دونوں متحد ہوکر الزام تراشیوں پر اتر آئے ہیں۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور افغان صدر اشرف غنی نے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس سے خطاب کے دوران پاکستان کے خلاف زہرافشانی کرتے ہوئے دہشت گردوں کی معاونت اور سرپرستی کا الزام عائد کر دیا۔ افغان حکمرانوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ دہشت گردوں کے محفوظ اڈے اب بھی افغانستان میں موجود ہیں اور افغان حکومت ان کے خلاف ابھی تک بڑے پیمانے پر کارروائی نہیں کر سکی۔ اپنی نااہلی اور ناقص کارکردگی پر پردہ ڈالنے کے لیے افغان حکومت بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف مسلسل ہرزہ سرائی کر رہی ہے۔

دہشت گردی کا مسئلہ تو رہا ایک جانب افغان حکومت انتظامی طور پر بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی‘ یہی وجہ ہے کہ اگلے دن افغانستان میں نیٹو فورسز کے امریکی کمانڈر جنرل جان نکلسن نے بھی اعتراف کیا کہ افغان فوج میں بدعنوانی کے ساتھ قیادت کا بحران ہے۔ افغانستان میں ہونے والی کرپشن میں وہاں کا حکمران طبقہ برابر کا شریک ہے۔ خوش آیند امر یہ ہے کہ روس نے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقعے پر بھارت اور افغانستان کے پاکستان مخالف بیانات کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ الزامات کا کھیل نہیں ہونا چاہیے۔ خطے میں ممالک کے باہمی تعلقات کے حوالے سے بڑی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔

اگرچہ روس کے بھارت کے ساتھ گہرے مراسم ہیں مگر وہ اب پاکستان کے ساتھ بھی اپنے تعلقات بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف بھارت کی کسی سازش کا حصہ بننے سے انکاری ہے۔ حقیقت حال کا جائزہ لیا جائے تو جو منظر نامہ ابھرتا ہے اس کے مطابق بھارت کی ہٹ دھرمی اور پاکستان کے خلاف الزام تراشیوں کے باعث ہارٹ آف ایشیا کانفرنس ناکام ثابت ہوئی اور افغانستان کے مسئلے کا حل بھی برآمد نہ ہو سکا لہٰذا وہاں بدامنی کے جاری رہنے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔