فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کی تجویز
فاٹا میں لوکل باڈیز کا ایجنڈا طے ہونا چاہیے، انتخابات میں فاٹا کی نمایندگی کے پی کے اسمبلی میں ہونی چاہیے
، فوٹو؛ پی آئی ڈی
KARACHI:
وفاق کے زیر انتظام فاٹا کی قبائلی ایجنسیوں میں اصلاحات کے حوالے سے بنائی جانے والی فاٹا اصلاحات کمیٹی نے اپنی فائنل رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ ایجنسیوں میں سے اکثریتی رائے فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام سے متفق ہے۔ اس سلسلے میں اطلاع ہے کہ صرف جے یو آئی ف اور پختونخوا میپ ٰفاٹا کو صوبہ کے پی کے میں ضم کیے جانے کی مخالف تھیں۔
فاٹا اصلاحات کمیٹی ایک نیوٹرل کمیٹی بنائی گئی تھی، جس کی فائنل رپورٹ آنے کے بعد وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے پریس کانفرنس میں عندیہ دیا ہے کہ تجویز ہے سال 2018ء کے انتخابات میں ہی فاٹا کو خیبرپختونخوا کا حصہ بنالیں۔ بادی النظر میں انضمام کی یہ تجویز خوش آیند محسوس ہوتی ہے لیکن اس سلسلے میں کچھ ضروری باتوں کو مدنظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔فاٹا کے آئی ڈی پیز کی اپنے علاقوںمیں جلد سے جلد واپسی یقینی بنائی جائے۔ نیز خواتین کی شرکت کے بغیر فاٹا اصلاحات بے معنی ہیں۔ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ فاٹا میں لائی گئی کوئی بھی تبدیلی افغانستان پر اثر انداز ہوگی، افغانستان کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ پر نظر رکھنا ضروری ہے۔
فاٹا میں لوکل باڈیز کا ایجنڈا طے ہونا چاہیے، انتخابات میں فاٹا کی نمایندگی کے پی کے اسمبلی میں ہونی چاہیے۔ بلاشبہ وفاقی وزیر سیفران کا کہنا ہے کہ 2017 ء میں فاٹا میں بلدیاتی انتخابات کرالیں گے، بلدیاتی نظام میں ہر فاٹا ایجنسی کو 3 سے 4 ارب دیں گے۔ وفاقی وزیر نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ ایف سی آر ایک کالا قانون ہے، ایف سی آر کے قوانین کو تبدیل کیا جائے گا۔ لیکن اس بات سے صرف نظر نہیں کیا جانا چاہیے کہ فاٹا کے لوگ قدامت پسند ہیں، ایف سی آر قانون میں تبدیلی وہاں کے عوام کی مشاورت سے ہونی چاہیے۔ راست ہوگا کہ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی جلد بازی کا مظاہرہ نہ کیا جائے اور انضمام کا فیصلہ فاٹا کے عوام کی امنگوں کے عین مطابق کیا جائے تاکہ مستقبل میں کسی بھی قسم کے اختلاف سے بچا جاسکے۔
وفاق کے زیر انتظام فاٹا کی قبائلی ایجنسیوں میں اصلاحات کے حوالے سے بنائی جانے والی فاٹا اصلاحات کمیٹی نے اپنی فائنل رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ ایجنسیوں میں سے اکثریتی رائے فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام سے متفق ہے۔ اس سلسلے میں اطلاع ہے کہ صرف جے یو آئی ف اور پختونخوا میپ ٰفاٹا کو صوبہ کے پی کے میں ضم کیے جانے کی مخالف تھیں۔
فاٹا اصلاحات کمیٹی ایک نیوٹرل کمیٹی بنائی گئی تھی، جس کی فائنل رپورٹ آنے کے بعد وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے پریس کانفرنس میں عندیہ دیا ہے کہ تجویز ہے سال 2018ء کے انتخابات میں ہی فاٹا کو خیبرپختونخوا کا حصہ بنالیں۔ بادی النظر میں انضمام کی یہ تجویز خوش آیند محسوس ہوتی ہے لیکن اس سلسلے میں کچھ ضروری باتوں کو مدنظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔فاٹا کے آئی ڈی پیز کی اپنے علاقوںمیں جلد سے جلد واپسی یقینی بنائی جائے۔ نیز خواتین کی شرکت کے بغیر فاٹا اصلاحات بے معنی ہیں۔ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ فاٹا میں لائی گئی کوئی بھی تبدیلی افغانستان پر اثر انداز ہوگی، افغانستان کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ پر نظر رکھنا ضروری ہے۔
فاٹا میں لوکل باڈیز کا ایجنڈا طے ہونا چاہیے، انتخابات میں فاٹا کی نمایندگی کے پی کے اسمبلی میں ہونی چاہیے۔ بلاشبہ وفاقی وزیر سیفران کا کہنا ہے کہ 2017 ء میں فاٹا میں بلدیاتی انتخابات کرالیں گے، بلدیاتی نظام میں ہر فاٹا ایجنسی کو 3 سے 4 ارب دیں گے۔ وفاقی وزیر نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ ایف سی آر ایک کالا قانون ہے، ایف سی آر کے قوانین کو تبدیل کیا جائے گا۔ لیکن اس بات سے صرف نظر نہیں کیا جانا چاہیے کہ فاٹا کے لوگ قدامت پسند ہیں، ایف سی آر قانون میں تبدیلی وہاں کے عوام کی مشاورت سے ہونی چاہیے۔ راست ہوگا کہ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی جلد بازی کا مظاہرہ نہ کیا جائے اور انضمام کا فیصلہ فاٹا کے عوام کی امنگوں کے عین مطابق کیا جائے تاکہ مستقبل میں کسی بھی قسم کے اختلاف سے بچا جاسکے۔