سب اچھا ہوسکتا ہے لیکن۔۔۔
کیا کرپٹ صرف ہمارے حکمراں ہیں؟ بے ایمانی انہی لوگوں کےاندر ہے؟ اورانکے سدھر جانے سے پورا معاشرہ صحیح راہ پر آجائے گا؟
ہم اگلے ستر سال میں بھی اسی جگہ کھڑے نظر آئیں گے جس جگہ پچھلے ستر برسوں سے کھڑے ہیں، کیونکہ ہم میں سے ہر کوئی دوسرے میں تبدیلی دیکھنے کا خواہشمند ہے خود میں نہیں۔ فوٹو: فائل
PESHAWAR:
کچھ دن پہلے ٹی وی پر ایک پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ پروگرام کا موضوع کیا تھا وہ تو سمجھ نہیں آسکا، لیکن جب عوام کا پنڈال سجائے ایک میزبان نے بزرگ شہری سے ان کی رائے جاننی چاہی تو انہوں تو وہی صدیوں پرانا گھسا پٹا جملہ کہا،
یہ بات سنتے ہی ذہن میں پہلا سوال یہ آیا کہ کیا واقعی بس یہی لوگ کرپٹ ہیں؟ بے ایمانی انہی لوگوں کے اندر ہے؟ اور ان کے سدھر جانے سے پورا معاشرہ صحیح راہ پر آجائے گا؟ سب ہی کی نیّا کنارے لگ جائے گی؟ میرا ذاتی خیال ہے کہ ایسا ممکن نہیں اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔
ذرا غور فرمائیے! ایک شخص کسی سرکاری اسکول میں استاد کی حیثیت سے تعینات ہے، وہ تنخواہ پوری لیتا ہے لیکن سال میں چند ہی بار اسٹاف روم کی دنیا سے باہر نکل کر اپنی جماعت کا رخ کرتا ہے، جو مضامین اس کے ذمّہ ہیں وہ باقاعدہ ان کا لیکچر اپنے طلبہ کو نہیں دیتا، تو کیا وہ اپنے پیشے کے ساتھ بےایمانی نہیں کرتا؟
ہمارے آس پاس پتہ نہیں کتنے ہی ایسے اسکولوں کے منصوبے ہیں جو ناجانے کب سے سرکاری فائلوں میں بنائے تعمیر ہوچکے ہیں لیکن حقیقت میں انکا کہیں نام و نشان تک نہیں ایسے اسکولوں کو گھوسٹ اسکول اور ان اسکولوں میں جن لوگوں کا نام بطور اساتذہ درج ہوتا ہے انہیں گھوسٹ ملازمین کہا جاتا ہے۔
ایسا تو نہیں کہ وہ لوگ واقعی میں کوئی بھوت ہی ہیں، ہیں تو ہمارے جیسے انسان اور عام آدمی ہی جو نہ جانے کتنے برسوں سے گھروں میں بیٹھ کر تنخواہیں وصول کر رہے ہیں، تو کیا ان کے منہ میں زبان نہیں کہ جو غلط ہو رہا ہے کسی کی اس طرف توجہ دلائیں؟ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتے کیونکہ انہیں بھی حرام کھانے کی عادت ہوچکی ہے اور جب ایسے انسان کو بیٹھے بٹھائے سب مل رہا ہو تو وہ کیونکر سوچے کہ وہ جو خود کھارہا ہے اور اپنی اولاد کو کھلارہا ہے وہ حرام ہے یا حلال؟
ہم اکثر یہ کہتے ہیں کہ سرکاری نوکری ملنا بڑا مشکل ہے اور یہ بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگ بس اپنے اپنوں کو نوکری دلواتے ہیں۔ تمام عہدوں پر لوگوں کا انتخاب بہت پہلے ہی ہوجاتا ہے، یہ وقتاََ فوقتاََ اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہارات تو بس دکھاوا ہیں اور عوام کو جھانسہ دینے کی باتیں۔ یہ بات اپنی جگہ صد فیصد درست ہے لیکن کیا کبھی یہ سوچا ہے کہ یہ بڑے لوگ جن اپنوں کو نوکری دیتے ہیں، کیا وہ آپ اور ہم جیسے معاشرے کے عام افراد نہیں؟ اور کیا ان کی قوتِ گویائی سلب کرلی جاتی ہے؟ جو وہ کسی میرٹ والے کا حق چھینتے ہوئے ذرا نہیں گھبراتے؟
تو جناب جواب یہ ہوگا کہ ان کا اپنا ضمیر ہی بکاؤ ہے جو وہ کسی کا حق مارتے ہوئے بڑے آدمی کی سفارش پر نوکری حاصل کرلیتے ہیں، پھر اپنے عہدے کے ساتھ وہ انصاف نہیں کر پاتے جو ایک میرٹ پر نوکری حاصل کرنے والا شخص کرسکتا ہے۔ یہ بھی ایک طرح کی بے ایمانی اور کرپشن کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ ایسے ہی افراد کی وجہ سے اکثر اعلیٰ تعلیم یافتہ، اہلیت رکھتے ہوئے بھی سڑکوں کی خاک چھانتے ہوئے ایک عمر گزار دیتے ہیں۔ کیا ان کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی کے ذمّہ دار بس حکومتی افسران ہیں؟ نہیں! ان کی اس بربادی میں معاشرے کے وہ سارے عام افراد بھی شامل ہیں جو پرچی سسٹم کی وجہ سے نالائق، نااہل ہونے کے باوجود بھی اچھے عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں اور پھر اپنے ہی جیسے معاشرے کے عام لوگوں کو کیڑا مکوڑا سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔
ہم بڑے بڑے محکموں اور ان کے افسران کو کرپٹ اور ان کی کارکردگی کو انتہائی خراب قرار دیتے ہیں۔ کبھی بجلی، کبھی پانی، کبھی کسی اسپتال کی انتظامیہ کو کوس رہے ہوتے ہیں، اور ہم ہی میں سے کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو وقت پر تو کیا کئی کئی ماہ تک بجلی کا بل نہیں بھرتے، تو کیا یہ لوگ غیر ذمہ دار نہیں؟
اب تو اکثر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ فلاں جگہ فلاں اسپتال میں ڈاکٹروں نے مطالبات پورا نہ ہونے پر ہڑتال کردی ہے۔ یہ ڈاکٹر بھی معاشرے کے عام افراد ہوتے ہیں کوئی وزیر یا صدر نہیں، اور ایک ڈاکٹر کا فرض ہے کہ اپنے مریض کی جان بچائے لیکن ان کے جیسے غرض کے پجاری صرف اپنی جیب اور اپنا مفاد دیکھتے ہیں اور پھر ہڑتال کے دوران چاہے مریض سسک سسک کر ان کے سامنے مر بھی جائے تو انہیں پرواہ نہیں ہوتی۔ تو کیا یہ اپنے پیشے میں ایماندار ہیں؟ یا پھر انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اپنے ہی جیسے لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھیں؟
ایک ٹھیکیدار جب کسی سرکاری کام کا ٹھیکہ لیتا ہے تو وہ ایک کام کو ختم کرنے میں تین گنا وقت لگاتا ہے اور اسی حساب سے پیسہ بناتا ہے، اس کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ جب اوپر بیٹھے ہوئے لوگ اتنا کما رہے ہیں تو اگر ہم بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھولیں تو کسی کا کیا جائے گا۔ وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ضروری نہیں کہ اگر اوپر کے لوگ ایماندار نہیں تو ہم بھی بے ایمانی پر اتر آئیں۔ کم از کم ہم تو اپنا کام ایمانداری سے کرکے اپنے ضمیر کو مطمئن کرلیں، لیکن بدقسمتی سے وہ معاشرے کے عام افراد ہونے کے باوجود بھی ایسا نہیں سوچتے۔
معاشرہ اعلیٰ اور اشرافیہ کے سدھر جانے سے درست نہیں ہوتا، بلکہ ہر ایک کو اپنا نظریہ درست اور اپنی سمت سیدھی کرنی پڑتی ہے۔ بے ایمانی اور کرپشن کو ہر انسان جب تک اپنے اندر سے ختم نہیں کرے گا تب تک یہ معاشرہ جوں کا توں رہے گا۔ نہ کوئی تبدیلی آئے گی نہ بہتری، بس ہم سب اپنی اچھائی اور دوسرے کی برائی کے راگ الاپتے رہ جائیں گے۔
اگلے ستّر سال میں بھی اسی جگہ کھڑے نظر آئیں گے جس جگہ پچھلے ستّر برسوں سے کھڑے ہیں، کیونکہ ہم میں سے ہر کوئی دوسرے میں تبدیلی دیکھنے کا خواہشمند ہے خود میں نہیں۔ ہر کوئی دوسرے پر بے ایمان ہونے کا الزام بڑی آسانی سے دھر دیتا ہے لیکن اپنے معاملے میں ایک لفظ سننے کا حامی نہیں، چاہے اندر سے خود کیسا بھی ہو لیکن ہمیشہ دوسرے کو بُرا بتانا چاہتا ہے، دوسرے کو نیچا دکھانا چاہتا ہے، اپنا اصل دیکھنے کی ہمت کسی میں نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
کچھ دن پہلے ٹی وی پر ایک پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ پروگرام کا موضوع کیا تھا وہ تو سمجھ نہیں آسکا، لیکن جب عوام کا پنڈال سجائے ایک میزبان نے بزرگ شہری سے ان کی رائے جاننی چاہی تو انہوں تو وہی صدیوں پرانا گھسا پٹا جملہ کہا،
''ہمارے وزیراعظم سے لے کر صدر تک ہر کوئی چور اور کرپٹ ہے، اگر یہ صحیح ہوجائیں تو پورا ملک سدھر جائے گا۔''
یہ بات سنتے ہی ذہن میں پہلا سوال یہ آیا کہ کیا واقعی بس یہی لوگ کرپٹ ہیں؟ بے ایمانی انہی لوگوں کے اندر ہے؟ اور ان کے سدھر جانے سے پورا معاشرہ صحیح راہ پر آجائے گا؟ سب ہی کی نیّا کنارے لگ جائے گی؟ میرا ذاتی خیال ہے کہ ایسا ممکن نہیں اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔
ذرا غور فرمائیے! ایک شخص کسی سرکاری اسکول میں استاد کی حیثیت سے تعینات ہے، وہ تنخواہ پوری لیتا ہے لیکن سال میں چند ہی بار اسٹاف روم کی دنیا سے باہر نکل کر اپنی جماعت کا رخ کرتا ہے، جو مضامین اس کے ذمّہ ہیں وہ باقاعدہ ان کا لیکچر اپنے طلبہ کو نہیں دیتا، تو کیا وہ اپنے پیشے کے ساتھ بےایمانی نہیں کرتا؟
ہمارے آس پاس پتہ نہیں کتنے ہی ایسے اسکولوں کے منصوبے ہیں جو ناجانے کب سے سرکاری فائلوں میں بنائے تعمیر ہوچکے ہیں لیکن حقیقت میں انکا کہیں نام و نشان تک نہیں ایسے اسکولوں کو گھوسٹ اسکول اور ان اسکولوں میں جن لوگوں کا نام بطور اساتذہ درج ہوتا ہے انہیں گھوسٹ ملازمین کہا جاتا ہے۔
ایسا تو نہیں کہ وہ لوگ واقعی میں کوئی بھوت ہی ہیں، ہیں تو ہمارے جیسے انسان اور عام آدمی ہی جو نہ جانے کتنے برسوں سے گھروں میں بیٹھ کر تنخواہیں وصول کر رہے ہیں، تو کیا ان کے منہ میں زبان نہیں کہ جو غلط ہو رہا ہے کسی کی اس طرف توجہ دلائیں؟ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتے کیونکہ انہیں بھی حرام کھانے کی عادت ہوچکی ہے اور جب ایسے انسان کو بیٹھے بٹھائے سب مل رہا ہو تو وہ کیونکر سوچے کہ وہ جو خود کھارہا ہے اور اپنی اولاد کو کھلارہا ہے وہ حرام ہے یا حلال؟
ہم اکثر یہ کہتے ہیں کہ سرکاری نوکری ملنا بڑا مشکل ہے اور یہ بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگ بس اپنے اپنوں کو نوکری دلواتے ہیں۔ تمام عہدوں پر لوگوں کا انتخاب بہت پہلے ہی ہوجاتا ہے، یہ وقتاََ فوقتاََ اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہارات تو بس دکھاوا ہیں اور عوام کو جھانسہ دینے کی باتیں۔ یہ بات اپنی جگہ صد فیصد درست ہے لیکن کیا کبھی یہ سوچا ہے کہ یہ بڑے لوگ جن اپنوں کو نوکری دیتے ہیں، کیا وہ آپ اور ہم جیسے معاشرے کے عام افراد نہیں؟ اور کیا ان کی قوتِ گویائی سلب کرلی جاتی ہے؟ جو وہ کسی میرٹ والے کا حق چھینتے ہوئے ذرا نہیں گھبراتے؟
تو جناب جواب یہ ہوگا کہ ان کا اپنا ضمیر ہی بکاؤ ہے جو وہ کسی کا حق مارتے ہوئے بڑے آدمی کی سفارش پر نوکری حاصل کرلیتے ہیں، پھر اپنے عہدے کے ساتھ وہ انصاف نہیں کر پاتے جو ایک میرٹ پر نوکری حاصل کرنے والا شخص کرسکتا ہے۔ یہ بھی ایک طرح کی بے ایمانی اور کرپشن کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ ایسے ہی افراد کی وجہ سے اکثر اعلیٰ تعلیم یافتہ، اہلیت رکھتے ہوئے بھی سڑکوں کی خاک چھانتے ہوئے ایک عمر گزار دیتے ہیں۔ کیا ان کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی کے ذمّہ دار بس حکومتی افسران ہیں؟ نہیں! ان کی اس بربادی میں معاشرے کے وہ سارے عام افراد بھی شامل ہیں جو پرچی سسٹم کی وجہ سے نالائق، نااہل ہونے کے باوجود بھی اچھے عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں اور پھر اپنے ہی جیسے معاشرے کے عام لوگوں کو کیڑا مکوڑا سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔
ہم بڑے بڑے محکموں اور ان کے افسران کو کرپٹ اور ان کی کارکردگی کو انتہائی خراب قرار دیتے ہیں۔ کبھی بجلی، کبھی پانی، کبھی کسی اسپتال کی انتظامیہ کو کوس رہے ہوتے ہیں، اور ہم ہی میں سے کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو وقت پر تو کیا کئی کئی ماہ تک بجلی کا بل نہیں بھرتے، تو کیا یہ لوگ غیر ذمہ دار نہیں؟
اب تو اکثر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ فلاں جگہ فلاں اسپتال میں ڈاکٹروں نے مطالبات پورا نہ ہونے پر ہڑتال کردی ہے۔ یہ ڈاکٹر بھی معاشرے کے عام افراد ہوتے ہیں کوئی وزیر یا صدر نہیں، اور ایک ڈاکٹر کا فرض ہے کہ اپنے مریض کی جان بچائے لیکن ان کے جیسے غرض کے پجاری صرف اپنی جیب اور اپنا مفاد دیکھتے ہیں اور پھر ہڑتال کے دوران چاہے مریض سسک سسک کر ان کے سامنے مر بھی جائے تو انہیں پرواہ نہیں ہوتی۔ تو کیا یہ اپنے پیشے میں ایماندار ہیں؟ یا پھر انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اپنے ہی جیسے لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھیں؟
ایک ٹھیکیدار جب کسی سرکاری کام کا ٹھیکہ لیتا ہے تو وہ ایک کام کو ختم کرنے میں تین گنا وقت لگاتا ہے اور اسی حساب سے پیسہ بناتا ہے، اس کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ جب اوپر بیٹھے ہوئے لوگ اتنا کما رہے ہیں تو اگر ہم بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھولیں تو کسی کا کیا جائے گا۔ وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ضروری نہیں کہ اگر اوپر کے لوگ ایماندار نہیں تو ہم بھی بے ایمانی پر اتر آئیں۔ کم از کم ہم تو اپنا کام ایمانداری سے کرکے اپنے ضمیر کو مطمئن کرلیں، لیکن بدقسمتی سے وہ معاشرے کے عام افراد ہونے کے باوجود بھی ایسا نہیں سوچتے۔
معاشرہ اعلیٰ اور اشرافیہ کے سدھر جانے سے درست نہیں ہوتا، بلکہ ہر ایک کو اپنا نظریہ درست اور اپنی سمت سیدھی کرنی پڑتی ہے۔ بے ایمانی اور کرپشن کو ہر انسان جب تک اپنے اندر سے ختم نہیں کرے گا تب تک یہ معاشرہ جوں کا توں رہے گا۔ نہ کوئی تبدیلی آئے گی نہ بہتری، بس ہم سب اپنی اچھائی اور دوسرے کی برائی کے راگ الاپتے رہ جائیں گے۔
اگلے ستّر سال میں بھی اسی جگہ کھڑے نظر آئیں گے جس جگہ پچھلے ستّر برسوں سے کھڑے ہیں، کیونکہ ہم میں سے ہر کوئی دوسرے میں تبدیلی دیکھنے کا خواہشمند ہے خود میں نہیں۔ ہر کوئی دوسرے پر بے ایمان ہونے کا الزام بڑی آسانی سے دھر دیتا ہے لیکن اپنے معاملے میں ایک لفظ سننے کا حامی نہیں، چاہے اندر سے خود کیسا بھی ہو لیکن ہمیشہ دوسرے کو بُرا بتانا چاہتا ہے، دوسرے کو نیچا دکھانا چاہتا ہے، اپنا اصل دیکھنے کی ہمت کسی میں نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔